اللہ نے ہر شخص کو جدا جدا فطرت
سے نوازا ہے۔کسی کا حافظہ غضب کا ہے تو کسی کے پاس برداشت کی اعلٰی قوت۔کسی
کو ظلم سہنے کی قوت دی ہے تو کوئی جبر کے خلاف طاقت رکھتاہے۔کسی کے پاس قلم
ہے تو کسی کی زبان کو سحر بیانی کا ملکہ عطاءکیاگیاہے۔کوئی رہبر ہے تو کوئی
باشعور عوامی فرد۔کوئی امام ہے اور کوئی مقتدی ۔کوئی سائنسدان ہے تو کوئی
عالم دین ‘کسی کے پاس سنار کا ہنر ہے تو کوئی لوہے کی کاٹ کا ماہر۔کسی کو
تخت عطاءکرتا ہے تو کسی کو گداگری گھٹی میں ملی ہے۔کسی کو طبیب بنایاہے تو
کسی کو مریض ۔پھر کبھی طبیب کو مریض بناکر اپنی اقتدار اعلی کی قوت کا
احساس دلاتاہے۔واصف علی واصف کہتے ہیں ”دل کا طبیب اکثر دل کے عارضے سے جان
دیتاہے“۔الغرض کوئی حاکم ہے کوئی محکوم لیکن سب اسی کی مخلوق ہے اور ہر حال
میں اسی کے رحم و کرم پر ہے۔
رہ گئی بات میری تو مجھے میرے پیارے رب نے بچپن ہی سے سوچنے کی صلاحیت
عطاءکی ۔اکثر معمولی باتوں کو دیر تک سوچتارہتا۔اور پھر ایک سوچ سے نکل کر
کسی اور میدان تفکر میں ڈوب جانا میری فطرت تھی۔کم عمری میں کوئی مجھے
فلاسفر کہتا‘کوئی ملاکہہ کرپکارتاتوکوئی پرانی روح کہہ کر مخاطب
ہوتاتھا۔طعنہ زنی کے تیر بھی چلائے جاتے اور محبت کے پھول بھی نچھاور کیئے
جاتے۔مخالفین کی باتیں سن کر کبھی خاموش رہتا ‘کبھی مسکرا دیتا۔کبھی کبھار
نوک جھونک بھی ہو جاتی۔مگر الحمداللہ گالم گلوچ سے نفرت سرشت میں شامل تھی
لہذا بدکلامی سے پرہیز کرتا۔برداشت کا مادہ بھی تھا اور ضبط کی نعمت بھی رب
کریم نے عطاءکی تھی ۔مگر اکثر دُکھی ڈرامے دیکھ کر مغموم ہو جاتا تھا لیکن
محفل میں ہمیشہ ضبط قائم رکھا ۔آنسو ﺅں کو تنہائی میں بہانے کا ہنر بخوبی
آتاتھا اسی واسطے شاذ ہی کسی نے آنکھوں میں آنسو دیکھے ہوں ۔مشکلات نے
بلاشبہ آگھیرا مگر اندر سے زخمی ہونے کے باوجود چہرے کو ہشاش بشاش رکھا۔کسی
نے خوب کہا ہے
ماناکہ اندر سے ریزہ ریزہ ہو چکاہوں
مگر گھر سے باہر گردن تان کر چلتاہوں
لیکن اس گردن میں اللہ معاف کرے حاکموں کی مانند سریا نہیں بلکہ اعتماد
بھروسہ اور رب تعالٰی سے امید کی قوت نے اسے کسی کے آگے جھکنے اور کسی بھی
موقع پر خم ہونے سے بچایا۔مجھے یاد ہے کہ جب پنجابی کی کتاب میں منشیات کا
سبق پڑھا جس میں ایک گھر نشئی خاوند کی وجہ سے اجڑ جاتاہے اور اس کی بیوہ
بیوی اکلوتی بیٹی کے ساتھ در در دھکے کھاتی ہے تو کئی دن تک طبیعت بوجھل
رہی پھر جب بھی اس کتاب کو پڑھا تو اس سبق سے آنکھیں چرا کر ورق پلٹ دیئے
مگر کبوتر کے آنکھیں بند کرنے سے کب بلی ٹلتی ہے۔دل میں منشیات سے نفرت
جڑپکڑتی گئی اور دل کے حالات پہلے جیسے بھی نہ رہے۔حساسیت بڑھتی گئی ۔حتٰی
کہ قلم اُٹھایا اور سوز قلب مندمل کرنے کا ذریعہ بنایا ۔مگر عمل درآمد
ندارد۔ہم نے لکھا انہوں کی نظر سے گزرا ۔اور پھر ردی ۔اکثر لگتاہے جیسے
پتھروں سے مخاطب ہوں ‘دیواروں سے ‘بیابانو ں سے۔جیسے جنگل میں مور ناچ رہے
ہوں اور ناچ ناچ کے اُن کے پاﺅں شل ہو گئے ہوں ۔اور نتیجہ ندارد۔
برداشت کا عنصر تو کم وبیش سب انسانوں میں ہوتاہے البتہ اس کی مقدار کا فرق
ضرورہوتاہے۔ لیکن برداشت کے ساتھ اگر اللہ کی مخلوق کا احساس نہ ہو تو پھر
ضمیر کو کمزور سمجھنا چاہیئے ۔لوگوں کے دکھ ‘تکالیف اور غم دیکھ کر میرادل
کانپ اُٹھتاہے۔مگر نجانے بالاخانے کے احوال کیسے ہیں۔ہمارے اندر کی بھٹی تو
سلگتی رہتی ہے جلتی رہتی ہے۔ابھی دو روز قبل ”خادم اعلی پنجاب کچھ نظر ادھر
بھی کیجئے“کے عنوان سے میرا کالم چھپا۔جس میں اپنے گاﺅں میں صحت کی سہولیات
کی عدم دستیابی کا رونا رویا تھا ۔اور اسی حوالے سے لوگوں کی کسمپرسی‘حالت
زار‘اور غموں کا تذکرہ کیاتھا۔
انتظامیہ حرکت میں آئی۔اور خدا سے دعاہے کہ انکی یہ حرکت میرے آبائی علاقے
کیلئے بابرکت بھی بنے ۔کیونکہ نجانے کتنی فائلز ایسی ہیں جن کو جنبش تو
بلاناغہ دی جاتی ہے مگر عملی کام دیکھنے کو نہیں ملتا۔معزز قارئین انہی دو
دنوں کے وقفے کے دوران یکے بعد دیگر اس محروم یونین کونسل ڈب بلوچاں تحصیل
پپلاں میں دو خواتین بلڈپریشر ہائی ہونے کہ وجہ سے موت کے منہ میں چلی
گئیں۔سانسیں سب کی مقرر ہیں مگر اصول صحت کے تحت انہیں فوری ابتدائی طبی
امداد میسر نہیں آسکی جس کی وجہ سے یہ اموات ہوئیں۔لہذا ایک بار پھر خادم
اعلٰی پنجاب سے درخواست ہے کہ اپنے خطاب کا پاس رکھتے ہوئے ڈب یونین کونسل
کے بنیادی مرکز صحت کو رننگ پوزیشن میں لے آئیں ۔عالمی ادارہ صحت کی جانب
سے چھ کمروں کی بنیادی تعمیر مکمل ہو چکی ہے۔اب ادھر کا محروم طبقہ آپ کی
راہ تک رہاہے۔ |