یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری
بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے
نکات -
۱-تعلیم سے ان کی بے توجہی کے اسباب کیا ہیں؟خانقاہوں کا موجودہ نظام ،والدین
کی جانب سے آزادی،نو عمری میں مریدین کا دست بوسی وقدم بوسی کرنا ،نذرانوں
کی افراط،دولت کی فراوانی یا پھر کچھ اور؟
۲-خانقاہی شہزادوں کی تعلیم وتمدن سے بے رغبتی کی وجہ سے آج خانقاہوں اور
ان کی ذات پر کس طرح کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں؟
۳-آپ کی نظر میں مسند سجادگی پر بیٹھنے کی بنیاد کیا ہونا چاھیے؟وراثت یا
اہلیت؟یا پھر دونوں؟اگر اہلیت نہ پائی جائے تو کیا کرنا چاہیے؟
۴-تعلیم سے ان کی تہی دامنی اور اخلاق وکردار سے خالی ہونے کے باوجود
وابستگان سلسلہ اور عام افراد کا ان کے تئیں اپنی عقیدت مندی کا مظاہرہ
کرنا کتنا درست ہے؟
۵-خانقاہوں کی نئی نسلوں کو تعلیم ،تہذیب وثقافت اوران کی پرانی روایات کی
طرف مائل کرنے کے لیے کیا کرنا چاہیے؟(ادارہ جام نور)
میرے دوست خوشتر نورانی نے غالباً یہ تہیہ کرلیا ہے کہ وہ میری برادری سے
میرا حقہ پانی بند کرواکر ہی دم لیں گے، یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ میں
خود بنیادی طور پر ایک خانقاہی پیر زادہ ہوں-ابھی کچھ ماہ قبل انہوں نے
موجودہ خانقاہی نظام پر ایک تنقیدی مقالہ لکھنے پر اصرار کیا، یہ مقالہ جام
نور کے کسی گزشتہ شمارہ میں شائع بھی ہوا، مقالہ کی اشاعت کے بعد حسب توقع
مجھے بعض اپنوں کی شکن آلود جبینوں اور غیروں کے معنی خیز تبسم کا سامنا
رہا اور اب یہ بضد ہیںکہ دور انحطاط کی پیر زادگی پر میں اظہار خیال کروں-
ایک پیر زادے کو پیر زادوں پرنقد و نظر کی دعوت دینا شاید ان کے اس حسن ظن
کا نتیجہ ہے کہ وہ مجھے ان روایتی قسم کے پیرزادوں کی صف سے الگ تصور کرتے
ہیں، ان کا یہ حسن ظن جہاں میرے لیے وجہ سکون و اطمینان ہے وہیں باعث تشویش
بھی ہے ،کیونکہ اپنے قبیلہ کی تعریف و توصیف میں مبالغہ آمیز مدحیہ
قصائدلکھنے کی روایت تو بہت پرانی ہے، مگر اس پر تنقیدی پیرائے میں گفتگو
کرنا بہر حال دل گردہ کا کام ہے، اس موضوع پر کچھ لب کشائی کرنے میں صد فی
صد امکان ہے کہ مقطع میں کوئی ایسی سخن گسترانہ بات آپڑے، جو تلخ ہونے کی
وجہ سے آسودہ حال مسند نشینوں کی تابندہ وپرنور پیشانی پرسلوٹوں کا باعث
بن جائے، مگر قلم کی اس مجبوری کا کیا کِیا جائے کہ حقائق عموماً تلخ ہی
ہوا کرتے ہیں، لہٰذا میں بلا وجہ کی خوش عقیدگی کا مظاہرہ کر کے کسی معذرت
خواہانہ لب و لہجہ کی ضرورت محسوس نہیں کرتا-
فاش می گویم و از گفتۂ خود دلشادم
بندۂ عشقم واز ہر دوجہاں آزادم
اگر آپ کے اندر اتنی جرأت نہیں ہے کہ جس بات کو آپ حق سمجھتے ہوں اس کو
حق اور جس کو غلط گمان کرتے ہوں اس کو غلط کہہ سکیں تو پھر آپ کو انصاف و
دیانت کا خون کرنے کی بجائے ناقد ومبصر جیسے ذمہ دار منصب کو خیر آباد کہہ
کر قلم رکھ دینا چاہئے-اس نا گوار تمہید کے بعد اب میں اصل موضوع کی طرف
آتا ہوں-
(۱)آج اہل خانقاہ کی نئی نسل کی تعلیم و تربیت اور اخلاق و کردار کا اگر
حقیقت پسندی سے جائزہ لیا جائے تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ عام
طور پر خانقاہی شہزادگان نہ صرف یہ کہ علم دین سے تہی دامن ہیں بلکہ
خانقاہی اخلاق و آداب سے بھی آراستہ نہیں ہیں- اس کے جہاں اور بہت سے
اسباب ہیں وہیں ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ ان شہزادگان کی تعلیم و تربیت کے
سلسلہ میں’’ مکتب کی کرامت‘‘ سے زیادہ ’’ فیضان نظر‘‘ پر تکیہ کرلیا گیا
ہے، علم کی تقسیم علم سینہ اورسفینہ کی طرف کسی اور موقع کے لیے کی گئی
ہوگی، مگر اس کو یہاں چسپاں کر کے یہ تأثر دیا گیا کہ ہمیں کتابوں میں
سرکھپانے کی کیا ضرورت ہے ،ہم تو اہل نسبت ہیں ،ہمیں سینہ بہ سینہ جو علوم
و معارف منتقل ہورہے ہیں ان کے سامنے ہفت خواں بھی طفل مکتب ہے-
خانقاہوں کے موجودہ نظام نے بھی اس سلسلہ میں ایک مؤثر کردار ادا کیا ہے،
کیونکہ یہ ایک ایسا کاروان شوق ہے جس میں ’’حدی خوانی‘‘ کے لیے کسی اہلیت
کی ضرورت ہی نہیں پیش آتی بلکہ زیادہ پڑھا لکھا ہو نا بعض وقت نقصان دہ
ثابت ہوتاہے، ایک پیرزادہ جب اس قسم کے ماحول میں آنکھ کھول کر موجودہ
نظام کے تناظر میں اپنے مستقبل کا جائزہ لیتا ہے تو اس نتیجہ پر پہنچتا ہے
کہ اپنے تابناک مستقبل کے لیے اسے جس چیز کی ضرورت ہی نہیں ہے اس کے حصول
میں وہ کیوں دن رات ایک کرے؟
والدین کی جانب سے آزادی بھی ایک سبب ہے جس کی چند وجوہات ہیں، ایک تو یہ
کہ جب والد بزرگوار کی لوح دل بالکل صاف و شفاف ہے تو پھر ان کو ولی عہد
بہادر کی تعلیم و تربیت سے کیا خاک دلچسپی ہوگی، اگر کچھ حضرات اپنے
شہزادگان کو علم دین سے آراستہ وپیراستہ کرنے کا خواب دیکھتے بھی ہیں تو
ان کو اپنے ’’ تبلیغی دوروں‘‘ ہی سے اتنی فرصت کہاں ملتی ہے کہ وہ صاحبزداہ
کی تعلیم و تربیت کے لیے مطلوبہ توجہ اور نگرانی کی خاطر کچھ وقت نکال
سکیں-
عام طور پر شہزادگان ایسے مدارس میں تعلیم حاصل کرتے ہیں جن کے بانی و
سرپرست خود ان کے والد گرامی ہوتے ہیں، یا پھر وہاں کے اساتذہ ان کے والد
گرامی کے دامن فیض سے وابستہ ہوکر دینی اور دنیاوی فیوض وبرکات حاصل کرتے
ہیں، ایسے ماحول میں شہزادگان کا غیر معمولی ادب و احترام کیا جاتا ہے، بعض
اساتذہ عقیدتاً اور بعض مصلحتاً ان کا ادب و احترام کرنے پر مجبور ہوتے
ہیں، چنانچہ کوتاہیوں پر باز پرس اور لغزشوں پر سرزنش کرنے کی کسی میں ہمت
نہیں ہوتی،یہ غیر معمولی ادب و احترام، لحاظ و پاس اور رعایت و چشم پوشی
حصول علم کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ بنتا ہے-
کچھ شہزادگان کو ان کے جاہل اور غالی قسم کے مریدین و معتقدین بگاڑ دیتے
ہیں،یہ مریدین شہزادگان کے ایک اشارۂ ابرو کے منتظر ہوتے ہیں اور ان کی ہر
جائز و ناجائز خواہش اور حکم کو بجالانا اپنی سعادت و فیروز بختی اور حصول
فیوض و برکات کا ذریعہ سمجھتے ہیں، نو عمری ہی سے دست بوسی وقدم بوسی اور
عمر رسیدہ صاحب دولت و ثروت مریدین کو جب ایک پیر زادہ اپنے آگے جاں نثاری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھتا ہے تو یہ خیال اس کے ذہن میں راسخ ہو جاتا ہے
کہ جب بغیر حصول علم کے یہ کروفر ،جاہ و حشمت اور ادب و احترام ہمارا مقدر
ہے تو پھر پڑھ لکھ کر کیا ہوگا؟
کچھ طلبہ اس لیے بھی تعلیم میں محنت کرتے ہیں کہ ان کو اپنے مستقبل میں فکر
معاش کے لیے علم کی ضرورت ہوتی ہے، مگر خانقاہی شہزادگان کو حصول علم برائے
معاش کی اس لیے فکر نہیں ہوتی کہ نذرانوں کی افراط اور دولت کی فراوانی ان
کو اس فکر سے بے نیاز کردیتی ہے-
(۲) خانقاہی شہزادوں کی تعلیم سے بے رغبتی کی وجہ سے آج خانقاہوں پر سب سے
منفی اثر تو یہی مرتب ہوا کہ خانقاہ دعوت و تبلیغ اور اصلاح و ارشاد کا
مرکز بننے کی بجائے تعویذ گنڈوں اور جھاڑ پھونک کی دکان بن کر رہ گئی ہے،
سنجیدہ،باشعور اور پڑھا لکھا طبقہ خانقاہ اور اہل خانقاہ سے کنارہ کش ہوگیا
،اور خانقاہ میں ہرجا وبے جا بات پر سبحان اللہ ،سبحان اللہ، دریں چہ شک
دریں چہ شک کہنے والے جاہل مریدین و معتقدین کی بھرمار ہوگئی ،ظاہر ہے کہ
جب عقابوں کا نشیمن زاغوں کے تصرف میں ہوگا تو وہاں ہم نشینی کے لیے کوئی
عقابی نگاہ رکھنے والا شاہین صفت کیسے میسر آسکتا ہے؟
(۳) مسند سجادگی پر بیٹھنے کی بنیاد وراثت ہونا چاہئے یا اہلیت؟ یہ سوال
بہت حساس اور نازک ہے ،اس کے جواب میں مَیں اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کہہ
سکتا کہ کوشش یہ ہونی چاہیے کہ وارث کو ہی اہل بنایا جائے-
(۴) تعلیم سے شہزادگان کی تہی دامنی اور اخلاق و کردار سے خالی ہونے کے
باوجود وابستگان سلسلہ اور عام افراد کا ان کے تئیں عقیدت کا مظاہرہ اگر
درست نہ بھی ہو تو اتنا حیرت انگیز نہیں ہے ،کیونکہ یہ لوگ اپنی سادہ لوحی
اور خوش عقیدگی کے ہاتھوں مجبور ہیں- حیرت تو ان صاحبان جبہ و دستار پر
ہوتی ہے جو تقریروں میں گلے پھاڑ پھاڑ کر شیخ ہونے کے لیے عالم ہونے کی شرط
کو اپنی حریف خانقاہ کے شیخ کے لیے بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں ،مگر خود
اپنے مراکز عقیدت کے نام نہاد مشائخ اور ان کے بے علم شہزادگان کی کفش
برداری اور قدم بوسی کو اپنا فخر سمجھتے ہیں- اگر قول و عمل میں اس تضاد کی
گرفت کی جائے تو منطقیانہ داؤ پیچ کے ذریعہ یہ تاویل کردی جاتی ہے کہ یہ
شخصیت کا نہیں نسبت کا احترام ہے-
ناطقہ سر بگریباں ہے اسے کیا کہیے
(۵)خانقاہوں کی نئی نسل کو علم و عمل اور خانقاہی اخلاق و آداب سے آراستہ
کرنے کے لیے بہت مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کرنے کی ضرورت ہے، ہمارے قابل
احترام مشائخ عظام بھی اس طرف خصوصی توجہ فرمائیں اور بے جا لاڈ پیار کی
بجائے اپنے شہزادگان کو اپنی نگرانی میں تعلیم دلوائیں اور اساتذہ کو بھی
چاہیے کہ غیر معمولی ادب و احترام کے بدلے وہ اپنے پیر زادگان کو زیور علم
سے آراستہ کرنے کی مخلصانہ کوشش کریں ،آپ کا بے جا ادب و احترام آپ کے
پیر زادے کے لیے فائدہ مند نہیں بلکہ اس پر ظلم ہے- ویسے میرا ارادہ ہے کہ
مدرسہ عالیہ قادریہ بدایوں شریف میں شہزادگان کے لیے ایک الگ شعبہ قائم کیا
جائے جس میں نہ صرف ان کی تعلیم پر خصوصی توجہ کی جائے بلکہ ان کو خانقاہی
اخلاق وآداب سے مزین کرنے کے لیے سنجیدہ اور مخلصانہ کوششیں کی جائیں-
(جام نور دسمبر۲۰۰۴ئ |