یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری
بدایونی مدظلہ العالی کی کتاب تحقیق و تفہیم سے پیش کیا گیا ہے
نکات -
۱- جماعت اہل سنت کے وہ بنیادی عقائد کیا ہیں جن سے وہ دوسری جماعتوں سے
ممتاز ہے ؟
۲-اہل سنت کا غیر اہل سنت سے اختلاف فروعی مسائل میں ہے یا اصولی مسائل میں
؟نیز اختلاف کی نوعیت ہر دو میں کیا ہے؟
۳-اہل سنت کے بنیادی عقائد صرف کتابوں میں ہیں یا خواص وعوام بھی ان عقائد
کی رعایت کرتے ہیں؟
۴- اہل سنت کے عقائد پر مشتمل بنیادی کتابوں کی بجائے عوامی رسم ورواج کی
بنیاد پر اہل سنت کی تفہیم کہاں تک درست ہے؟
۵-جماعت اہل سنت(سواد اعظم )کا وجود عالمی سطح پر کس معیار پر تسلیم کیا
جائے گا؟بنیادی عقائد پر یا فروعی مسائل پر بھی؟
۶-جغرافیائی حالات کے زیر اثر پیدا ہونے والے فروعی اختلافات کی بنیاد پر
تشدد کا مظاہرہ کس حد تک صحیح ہے؟ (ادارہ جام نور)
ایک مرتبہ پھر مولانا خوشتر نورانی صاحب نے نہایت نازک اور حساس موضوع پر
لکھنے کی فرمائش کر کے مجھے ’’گوئم مشکل وگرنہ گوئم مشکل‘‘کی کیفیت سے
دوچار کر دیا ہے ،ایسے نازک موضوعات پر اظہار خیال کرنے کے لیے ’’غریبِ
شہرسخنہائے گفتنی‘‘تو رکھتا ہے مگر اس کے مخاطب کے لیے ’’زباں دانے‘‘ہونا
شرط ہے ،ایک ایسی دنیا میں جہاں رجال کی شناخت حق کے ذریعہ نہیں بلکہ حق کی
شناخت رجال کے ذریعہ کی جاتی ہو وہاں ایسے نازک موضوعات پر اظہار خیال کرنا
سمندر میں رہ کر مگر مچھ کو ’’دعوت مبارزت‘‘دینے سے کم نہیں ہے،بہرحال
خوشتر صاحب کے اصرار پر بہت اختصار کے ساتھ چند اصولی اور بنیادی امور پیش
خدمت ہیں -
(۱)جماعت اہل سنت کوئی نو پیدا فرقہ نہیں ہے کہ اس کے بنیادی عقائدانگلیوں
پر گنا دئے جائیں،بلکہ اس کے عقائد کتاب وسنت کا خلاصہ اور صحابہ وتابعین
رضی اللہ تعالیٰ عنھم کے افکار ونظریات اور اعمال وافعال کا نچوڑ ہیں،اور
انہیں عقائد واعمال پر گزشتہ چودہ سو سال سے امت اسلامیہ کا سواد اعظم
ہے،جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ جماعت اہل سنت کن عقائد کی بنیاد پر
دوسری جماعتوں سے ممتاز ہے ؟ تو میرے ناقص خیال میں اس کا جواب یہ ہے کہ
ہرزمانہ میں جب جب کسی جماعت نے سواد اعظم کے جن عقائد سے اختلاف کیا وہی
عقائد اس دور میں جماعت کا امتیاز اور سنیت کی علامت قرار پائے ،مثال کے
طور پر جس زمانہ میں خوارج نے فتنہ تکفیر برپا کیا تو اس وقت یہی مسئلہ سنی
اور غیر سنی کے درمیان وجہ امتیاز تھا ،یعنی جو مرتکب کبیرہ کی تکفیر نہ
کرتا ہو وہ سنی اور جو مرتکب کبیرہ کی تکفیر کرے وہ غیر سنی،اس کے بعد ایک
دور میں خلق قرآن کا مسئلہ سنیت کی کسوٹی ہوا کرتا تھا،جو قرآن کو قدیم
اور اللہ کی صفت مانے وہ سنی اور جو قرآن کو مخلوق اور حادث مانے وہ غیر
سنی،اسی طرح کسی دور میں مسئلہ صفات باری ،کبھی مسئلہ خلق افعال عباد،کبھی
تاویل،تشبیہ،تجسیم،اور تنزیہ کے مسائل اس جماعت کا امتیازی نشان رہے، یہی
نہیں بلکہ کبھی ایک ہی زمانہ میں دو الگ الگ خطوں میں اس جماعت کے امتیازی
عقائد الگ الگ رہے ،مثلاً جس دور میں ایران وعراق میں شیعہ سنی اختلافات
اپنے عروج پر تھے تو وہاں خلافت وامامت،مسئلہ نقص قرآن،رویت باری ، اور
جواز متعہ وغیرہ کی بنیاد پر آدمی کے سنی اور غیر سنی ہونے کا فیصلہکیا
جاتا تھااسی دور میں بلاد مغرب یعنی اندلس اور مراقش وغیرہ میں ان مسائل سے
عوام واقف ہی نہیں تھے،یہ مسائل صرف مدارس کے اندر علم کلام وعقائد کی
کتابوں میں پڑھے پڑھائے جاتے تھے،اور آج بھی وہ بہت سے مسائل جو کسی ایک
ملکمیں سنیت کے امتیازی مسائل تصور کیے جاتے ہیں دوسرے ملک میں وہ مسائل حق
وباطل کے درمیان خط فاصل تصور نہیں کیے جاتے،مثلاً ہمارے یہاں برصغیر میں
مسئلہ نور وبشراور مسئلہ حاضر وناظر کو ضروریات اہل سنت میں شمار کیا جاتا
ہے جب کہ عالم عرب میں ان مسائل کوحق وباطل کی کسوٹی نہیں سمجھا جاتا ،اسی
طرح لبنان میں حضرت شیخ عبداللہ الحرری اور ان کے متبعین شیخ ابن تیمیہ کی
تکفیر کو دلیل سنیت قرار دیتے ہیں اور جو شخص ابن تیمیہ کی واضح الفاظ میں
تکفیرنہ کرے وہ ان کے نزدیک سنی نہیں ہے جب کہ ہمارے ہندستانی اکابر نے ابن
تیمیہ کی تکفیر میں احتیاط فرمائی ہے اور ان کو صرف ضال ومضل قرار دیا ہے (دیکھیے
المعتقد المنتقدمع حاشیہالمعتمد المستند)-
(۲)جماعت اہل سنت کا غیر اہل سنت سے اختلاف اصولی بھی ہے اور بعض فروعی
معاملات میں بھی ،تا ہم اختلاف کی اصل بنیاد اصول اور عقائد پر ہے،فروع اور
مسائل پر نہیں، آج ہمارا اصل اختلاف عظمت وناموس رسالت پر ہے،اللہ کے رسول
ﷺ کے مقام ومرتبہ،آپ کی شان عالی ،اور فضائل وکمالات کا انکار اور آپ کی
تخفیف شان،گستا خانہ طرزبیان،اور بعض اہانت آمیز عبارتیںاصل اختلاف کا سبب
ہیں مگر کچھ ہماری سادگی اور کچھ حریف کی دانائی کہ اس اختلاف کو محض بعض
فروعی مسائل اور بعض مستحب اور مباح امور کے قبول وردکے تناظر میں دیکھا
جانے لگا-
(۳)تیسرے سوال کے جواب میں مَیں عرض کرونگا کہ کسی بھی جماعت کے عقائد
ومسلک کی تین سطحیں ہوتی ہیں ،ایک تو اس جماعت کا علمی مسلک ہوتا ہے،جو اس
کے اکابر کی کتب میں مرقوم ہوتا ہے ،مسلک کی دوسری سطح وہ ہے جب اس مسلک کے
عقائد ومسائل مناظروں ،اور تقریروں کے اسٹیج پر آتے ہیں ،اور تیسری سطح یہ
ہے کہ جب وہ مسلک عملی طور پر عوام میں پھیلتا ہے -درحقیقت کسی بھی جماعت
کا حقیقی مسلک وہی ہوتا ہے جو اس کے اکابر کا ’’علمی مسلک‘‘ہوتا ہے،مناظرے
کے داؤ پیچ اور خطیبانہ آہنگ کے اپنے کچھ تقاضے اور مجبوریاں ہوتی
ہیں،لہٰذا جب علمی مسلک مناظروں اور خطیبوں کا تختۂ مشق بنتا ہے تو کبھی
شعوری اور کبھی غیر شعوری طور پر اس میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور آجاتا ہے
،اور پھر جب وہ علمی مسلک مناظروں اور جلسوں سے ہوتا ہوا عوام کا عملی مسلک
بنتا ہے تواس کی ہیٔت ہی بدل جاتی ہے،مثال کے طور پر ہمارا علمی مسلک یہ ہے
کہ اولیا کے مزارات پر ’’کپڑا‘‘ ڈالا جا سکتا ہے تاکہ وہ مزار عام قبروں سے
ممتاز رہے ،اور جب تک ایک کپڑا پرانا ہوکر پھٹ نہ جائے اس وقت تک دوسری
چادر ڈالنا بلا ضرورت اور اسراف بے جا ہے،لیکن جب یہی علمی مسلک مناظرے کے
میدان اور منبر خطابت پر آ یا تو اس کے ساتھ یہ ’’قاعدہ کلیہ‘‘بھی شامل
کرلیا گیا کہ نسبت سے شئے ممتاز ہوتی ہے لہٰذا جو کپڑا اولیا کے مزارات پر
پڑا ہو وہ کوئی معمولی کپڑا نہیں بلکہ اس کو اس بزرگ سے نسبت ہوگئی ہے
لہٰذا اب وہ بھی بابرکت ہوگیااور اس کی بھی تعظیم کی جائے گی،جب مناظر سے
سوال کیا گیا کہ لوگ تو چادر چڑھانے سے پہلے ہی اس کی تعظیم کرتے ہوئے اس
کو سروں پر رکھ کر لے جاتے ہیں ،حالانکہ ابھی اس کو صاحب مزار سے نسبت نہیں
ہوئی ہے؟مناظر نے ایک پینترا بدلا اور فوراً ایک ’’معقول جواب‘‘دے دیا کہ
یہ تعظیم ’’مایئول کے اعتبار ‘‘سے ہے ،جب یہ تقریری مسلک عوامی مسلک میں
تبدیل ہوا تواس کپڑے نے چادر اور چادر نے غلاف کی شکل اختیار کر لی،اور اس
کے بعد جو کچھ ہوا اور ہورہا ہے بتانے کی ضرورت نہیں ہے-ایصال ثواب کے
سلسلہ میں ہمارا علمی مسلک کچھ اور تھا ،پھر گیارہویں شریف اور تیجے،
چالیسویںکے تعیین یوم کے لیے مناظرے کے اسٹیج پر تعیین شرعی اور تعیین عرفی
کی بحث چھیڑی گئی،اور اس کے بعد عوامی مسلک میں اس’’ تعیین عرفی ‘‘کا جو
حشر ہوا وہ بیا ن کرنے کی ضرورت نہیں-کہنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی جماعت کا
’’علمی مسلک ‘‘کچھ اور ہوتا ہے اور’’ عوامی مسلک ‘‘کچھ کا کچھ ہوجاتا ہے
،آج جاہل عوام اور بعض سند یافتہ( تعلیم یافتہ نہیں ) علما ومقررین کے
ذریعہ جس قسم کی ’’سنیت ‘‘متعارف کرائی جا رہی ہے وہ میری ناقص رائے میں اس
مسلک اہل سنت سے بہت مختلف ہے جو ہمارے اکابر نے اپنی کتابوں میں درج کیا
ہے (الا ما شا ء اللہ) غالباً اس گفتگو سے اس سوال کا جواب مل گیا ہوگا کہ
’’اہل سنت کے بنیادی عقائد صرف کتابوں میں ہیں یا خواص وعوام بھی ان عقائد
کی رعایت کرتے ہیں؟‘‘
(۴)اہل سنت کے عقائد پر مشتمل بنیادی کتابوںکی بجائے عوامی رسم ورواج کی
بنیاد پراہل سنت کی تفہیم درست ہو یا نہ ہو مگر آج ہمارے مسلک کی تفہیم
اسی طور پر کی جارہی ہے ،اورمیں کسی نہ کسی حد تک اس کا ذمہ دار دانا
دشمنوں کے ساتھ ساتھ بعض نادان دوستوں کو بھی مانتا ہوں -
(۵)فروعی اختلافات دو قسم کے ہیں ،ایک تو وہ جس میں تمام اہل سنت کا متفقہ
موقف ہے،اور دوسرے وہ جن میں خود اہل سنت کے اکابر کے درمیان دو موقف پائے
جاتے ہیں،ایسے فروعی مسائل جن میں اکابر اہل سنت کا اتفاق ہے ان میںتصلب
ہونا چاہیے اور وقت ضرورت ایسے مسائل میں شدت بھی برتی جا سکتی ہے ،لیکن
حکمت اور مصلحت ہر جگہ پیش نظر رہنا چاہیے،نہ ہر جگہ شدت کے مظاہرے کو درست
قرار دیا جا سکتا ہے،اور نہ ہی ایسی نرمی درست ہے جو مسلک کے لیے نقصان دہ
ثابت ہو ،ہاں البتہ ایسے فروعی مسائل جن میں ہمارا اختلاف غیر اہل سنت سے
تو ہے ہی ساتھ ہی ساتھ خود اکابر اہل سنت میں بھی ان مسائل میں دو رائے
پائی جاتی ہوں تو ایسے مسائل میں ضرورت سے زیادہ شدت کا مظاہرہ کرنا خود
جماعت اہل سنت کے حق میں مضر ہے،اس قسم کے فروعی مسائل کی بنیاد پر سنیوں
ہی کو سنیت سے ’’خارج‘‘ اور ’’داخل‘‘کرنا غیر صحت مند طرز فکر ہے اس قسم کی
شدت انہیں لوگوں کو مبار ک ہو جو اہل سنت میں اتحاد واتفاق نہیں چاہتے-
(جام نور مئی ۲۰۰۶ئ) |