یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری
بدایونی کی ایوارڈ یافتہ کتاب خیرآبادیات سے پیش کیا گیا ہے
خلیفہ ثانی امیر المومنین حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد
امجاد میںدو سگے بھائی بہاء الدین اور شمس الدین ایران سے ہندوستان وارد
ہوئے، شمس الدین نے رہتک کی مسند افتا سنبھالی اور بہاء الدین مدینۃ
الاولیا بدایوں میں فروکش ہوئے، ۱۲؍ویں اور ۱۳؍ویں صدی میں برصغیرمیں شرافت
ونجابت،علم وفضل ،اور وسیع تر دینی وقومی خدمات کے لحاظ سے دو خانوادے
منفرد اور ممتاز نظر آتے ہیں،ایک خانوادۂ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی
اوردوسرا خانوادہ ٔمولانا فضل امام خیرآبادی، آپ کو شاید یہ جان کر حیرت
ہو کہ یہ دونوں عظیم خاندان انہیں دونوں بھائیوں کی اولاد میں ہیں،شمس
الدین رہتکی کی اولاد کا سلسلہ آگے بڑھا تو اس میں شاہ ولی اللہ محدث
دہلوی پیدا ہوئے،دوسرے بھائی بہاء الدین کی کچھ نسلیں بدایوں ہی میں قیام
پذیر رہیں،ان کی اولاد سے ایک بزرگ شیخ عمادالدین بدایوں سے ہرگام منتقل
ہوگئے، اور قاضی ہرگام کے منصب پر فائز ہوئے ،شیخ عمادالدین کی اولاد علم
وفضل اور منصب قضاوافتا سے سرفرازرہی،ان کی اولاد سے ایک فرد شیخ محمد
ارشدنے ہرگام ترک کرکے خیرآباد میں سکونت اختیار کرلی ، مولانا فضل امام
خیرآبادی انہیں شیخ محمد ارشد کے فرزند ہیں۔مولانا فضل امام خیرآبادی کے
سلسلہ اخلاف کو ’’خانوادہ ٔ خیرآباد‘‘اور ان کے سلسلہ تلامذہ کو’’ مدرسہ
خیرآباد‘‘کے نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔یہاں ہم خانوادہ خیرآباد کے چند
نامور افراد کا مختصر تعارف کروائیں گے،تاکہ اس خانوادے کی عظمت وشوکت کا
اندازہ ہوسکے ۔( یہاں صرف اجمالی تعارف مقصود ہے،باقی تفصیلات اس کتاب میں
جگہ جگہ موجود ہیں )
مولانا فضل امام خیرآبادی :آپ کی سنہ ولادت دستیاب نہیں ہوسکی، قیاس ہے
کہ بارہویں صدی کے ربع آخرمیں آپ کی پیدائش ہوئی ہوگی، ملا عبدالواجد
خیرآبادی سے علوم کی تکمیل کی،دہلی آکر ملازمت سے وابستہ ہوئے،پہلے مفتی
ہوئے پھرترقی کرکے صدالصدور کے عہدے تک پہنچے ،دہلی میں درسگاہ آراستہ
کی،اور معقولات کے ایک مخصوص مدرسے کی بنیاد ڈالی، علامہ فضل حق خیرآبادی
اور مفتی صدرالدین آزردؔہ جیسے اصحاب علم وفضل آپ کی درسگاہ سے فارغ ہوکر
نکلے، تصانیف کا ایک قابل قدر ذخیرہ یادگار چھوڑا،جس میں آمد نامہ
اورمرقاۃ جیسی ابتدائی کتابوں سے لے کر منطق وفلسفہ کی منتہی کتب پر حواشی
بھی شامل ہیں،آپ کی جن تصانیف کا تذکرہ ملتا ہے ان میں سے بعض یہ
ہیں:۱۔حاشیہ رسالہ میرزاہد،۲۔حاشیہ میرزاہد ملاجلال،۳۔تشحیذالاذہان فی شرح
المیزان،۴۔ تلخیص الشفا،۵۔حاشیہ افق مبین وغیرہ۔تصانیف میں مرقاۃ کے علاوہ
باقی سب غیر مطبوعہ ہیں،آمد نامہ کے باب پنجم میں اودھ کے بعض علما کا
تذکرہ ہے، یہ حصہ شائع ہوچکا ہے مگر ہماری نظر سے نہیں گذرا٭۔آپ کی درسگاہ
کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جس زمانے میں دہلی علوم
وفنون کا مرکز تھااس وقت منقولات میں شاہ عبدالعزیز اور شاہ عبدالقادر کی
درسگاہیں ہندوبیرون ہند کے طلبہ کا مرکز توجہ تھیں تو معقولات میں درسگاہ
فضل امام ایک امتیازی شان رکھتی تھی۔ آخری وقت میں اپنے وطن مالوف
خیرآباد میں آگئے تھے،یہیں ۱۲۴۴ھ ؍ ۱۸۲۹ء کو وفات پائی،مخدوم شیخ سعد کے
احاطہ درگاہ میںسپرد خاک کیے گئے۔
علامہ فضل حق خیرآبادی:مولانا فضل امام خیرآبادی کے صاحبزادے اور ان کے
علمی وارث وجانشین تھے،آپ کی ذات سے برصغیر میں معقولات کو ایسا فروغ ہوا
کہ لفظ ’’خیرآباد‘‘ علم وحکمت کا استعارہ بن گیا،۱۲۱۲ھ ؍ ۱۸۹۷ء میں ولادت
ہوئی،تعلیمی مراحل اپنے والد مولانا فضل امام کی درسگاہ میں طے کیے، علم
حدیث کی تحصیل شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کی درسگاہ میں کی،بعض حضرات کے
مطابق شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی سے بھی استفادہ کیا،تصوف میں حضرت حافظ
محمد علی خیرآبادی کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا، صرف ۱۳؍ سال کی عمر میں
درسیات سے فراغت پائی اور دہلی میں مسند درس آراستہ کی،ابتدا میں کچھ سال
انگریز کی ملازمت میں رہے اس کے بعد مختلف اوقات میں ریاست جھجھر، الور ،
سہارنپور ، رامپور ،لکھنؤ اور ٹونک وغیرہ میں ملازمت کی،درس وتدریس کا
سلسلہ کہیں بھی منقطع نہیں ہوا، ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف
نمایاں کردار ادا کیا،جس کی پاداش میں مقدمہ چلا اور’’ حبس دوام بعبور
دریائے شور‘‘کی سزا ملی،قید کرکے انڈمان بھیجے گئے،جہاں ایک سال دس ماہ
تیرہ دن اسیری میں رہ کر ۱۲؍ صفر ۱۲۷۸ھ ؍ ۲۰؍ اگست ۱۸۶۱ء کو اس جہان فانی
سے رخصت ہوئے اور اس شعر کو سچ ثابت کرگئے کہ
زندگی اتنی غنیمت تو نہیں جس کے لیے
عہد کم ظرف کی ہربات گوارا کرلیں
تصانیف کا ایک ذخیرہ یادگار چھوڑا،جن میں زیادہ ترکتب منطق ،طبیعات،امور
عامہ،الٰہیات اور علم کلام و عقائد سے متعلق ہیں،تصانیف میں نقل وتقلید
نہیں بلکہ اجتہاد وتحقیق کی شان نظر آتی ہے۔بعض تصانیف کے اسما درج ذیل
ہیں۔حاشیہ افق مبین،حاشیہ تلخیص الشفا،حاشیہ قاضی مبارک،الہدیۃ
السعیدیہ،الجنس العالی،شرح تہذیب الکلام ، الروض المجود ،الثورۃ الہندیہ
وغیرہ٭
عربی کے بلند پایہ شاعر تھے،مولانا عبداللہ بلگرامی کے مطابق آپ کے عربی
اشعار کی تعداد۴؍ ہزار سے متجاوز ہے،جن میں بیشتر نعت رسالت ماٰب ﷺ میں
ہیں،ایک جہان نے آپ سے استفادہ کیا،آپ کے تلامذہ خود اپنے اپنے وقتوں میں
ائمہ فن تسلیم کیے گئے۔
مولانا عبدالحق خیرآبادی:علامہ فضل حق خیرآبادی کے فرزند سعید شمس العلما
مولانا عبدالحق خیرآبادی جنہوں نے اپنی تصانیف اور درسی خدمات سے اس
خاندان کی عظمت کو نہ صرف یہ کہ برقرار رکھا بلکہ اوج ثریا تک پہنچا دیا،
آپ کی ولادت ۱۲۴۴ھ؍ ۹۔۱۸۲۸ء میں ہوئی،جملہ علوم عقلیہ ونقلیہ کی تحصیل
اپنے والد گرامی استاذ مطلق علامہ فضل حق خیرآبادی سے کی، لڑکپن میں ذہانت
اور قابلیت کا یہ عالم تھا کہ اپنے والد کے حاشیہ قاضی مبارک پر محض ۱۴؍سال
کی عمر میں برجستہ اور فی البدیہہ ایک صفحہ لکھ کررکھ دیا(باغی ہندوستان: ص
۱۸۴؍۱۸۵)
۱۶؍سال کی عمر میں تمام درسیات معقول ومنقول سے فارغ ہوئے(مرجع سابق
ص۳۱۴)زمانہ طالب علمی میں جس ’’شاہیں بچہ‘‘ کا یہ حال ہو عمر اور علم میں
اضافے کے بعد اس کی پرواز کہاں تک پہنچی اس کو سمجھنے کے لیے صرف یہ واقعہ
نقل کرنا کافی ہوگا کہ ایک مرتبہ مولوی اکرام اللہ شہابی گوپاموی نے مولانا
عبدالحق خیرآبادی سے پوچھا کہ ’’بھائی صاحب !دنیا میں حکیم کا اطلاق کن کن
پر ہے؟مولانا نے فرمایا’’بھیا ساڑھے تین حکیم دنیا میں ہیں،ایک معلم اول
ارسطو،دوسرے معلم ثانی فارابی،تیسرے والد ماجد مولانا فضل حق اور نصف
بندہ(مرجع سابق ص۱۹۶)
مولانا عبدالحق خیرآبادی کی ساری عمر درس وتدریس اور تصنیف وتالیف میں
گزری،بعض مشہور تصانیف یہ ہیں(۱)حاشیہ قاضی مبارک (۲) حاشیہ غلام یحییٰ
(۳)حاشیہ حمداللہ (۴)حاشیہ میر زاہد امور عامہ ( ۵) شرح ہدایۃ الحکمۃ (۶)
شرح مسلم الثبوت (۷)شرح کافیہ (۸) شرح سلاسل الکلام (۹) الجواہر الغالیہ
(۱۰) رسالہ تحقیق تلازم (۱۱) شرح مرقات (۱۲) التحفۃ الوزیریہ (۱۳) زبدۃ
الحکمۃ (۱۴) حاشیہ عقائد عضدیہ (۱۵) شرح حواشی الزاہدیہ علی ملا جلال وغیرہ
سیکڑوں ہزاروں لوگوں نے آپ کی درس گاہ سے علوم عقلیہ کی تحصیل کی ،جن میں
والیان ریاست اورمقتدر علمی خانوادوں کے افرادکے علاوہ ہندوبیرون ہند کے بے
شمارتشنگان علوم شامل ہیں۔۲۳؍شوال ۱۳۱۶ھ؍۱۸۹۹ء کو رحلت فرمائی،اپنے آبائی
وطن خیرآباد میں مخدوم شیخ سعد کی درگاہ کے احاطے میںسپرد خاک کیے گئے۔
مولانا اسدالحق خیرآبادی مولانا عبدالحق خیرآبادی کے صاحبزاد ے تھے،علم
وفضل میں اپنے آباواجداد کی یادگار تھے، مولانا عبدالحق کے بعد والی ریاست
رامپور نے آپ کو مدرسہ عالیہ کا پرنسپل مقرر کیا مگر بہت کم زندگی لے کر
آئے تھے، والد کی وفات کے صرف ڈیڑھ برس بعد ربیع الآخر۱۳۱۸ھ ؍ ۱۹۰۰ء میں
انتقال ہوگیا،یہ غالباً اس خاندان علم وفضل کے آخری علمی چشم وچراغ تھے،
آپ کے صاحبزادے حکیم ظفرالحق خیرآبادی تھے،مولانا برکات احمدٹونکی سے
تحصیل علم کی،بعد میں طب کو اختیار کیا،اور خیرآباد میں مطب کے ذریعے خدمت
خلق میں مصروف رہے، ۱۳۹۸ھ؍۸ ۷ ۱۹ء میں وفات ہوئی، عین الحق خیرآبادی آپ
کے صاحبزادے تھے،عصری تعلیم کے حصول کے بعد مچھریٹہا راجکیہ ودھیالیہ (ضلع
سیتا پور کے ایک اسکول) میں ٹیچر ہوئے، ۲۰۰۵ئ؍ ۱۴۲۶ھ میں وفات ہوئی، |