خیرالبلاد۔خیرآباد

یہ مضمون علامہ اسید الحق قادری بدایونی کی ایوارڈ یافتہ کتاب خیرآبادیات سے پیش کیا گیا ہے

کچھ شخصیتیں اپنے عہد،اپنے خاندان،اپنے ماحول اور اپنے وطن سے بڑی ہوتی ہیں،اتنی بڑی کہ وہ اپنے عہد،خاندان، اور وطن سے نہیں پہچانی جاتیں بلکہ ان کے عہد،ان کے خاندان اور ان کے وطن کی شناخت خود ان شخصیتوں کے کارناموں سے ہوتی ہے،علامہ فضل حق خیرآبادی کا شمار بھی انہیں عہد ساز شخصیتوں میں ہوتا ہے،جن کی وجہ سے ان کا عہد،ان کے معاصرین،ان کا خاندان اور ان کا وطن خیرآباد پہچانے گئے،خیرآباد میں یوں تو اولیا ،علما، صوفیہ،شعرا،اور اہل علم وادب کی ایک تعداد صدیوں سے رہی ہے،مگر یہ حقیقت ہے کہ خیرآباد کو شہرت دوام علامہ ہی کی ذات گرامی سے ملی،خانوادہ خیرآباد،مدرسہ خیرآباد،علمائے خیرآباد،خیرآبادی نصاب،خیرآبادی مسلک،خیرآبادی مکتب فکر،خیرآبادی طریقہ درس وغیرہ وغیرہ ان تمام الفاظ کی اضافت ونسبت خیرآباد کی جانب اس لیے کی جارہی ہے کہ خیرآباد کو علامہ فضل حق کی جائے پیدائش ہونے کا شرف حاصل ہے،یہ علامہ سے نسبت ہی کا کرشمہ ہے کہ آج ہندوپاک کے علمی حلقوں سے لے کر جامعہ ازہر کے ارباب فکرونظر کی مجلسوں تک لفظ ’’خیرآباد‘‘منطق وفلسفہ،حکمت وکلام اور عربی شعروادب کے ایک خاص مکتب اور مدرسے کے لیے بطور استعارہ استعمال کیا جاتا ہے۔

خیرآباد ضلع سیتا پور ، اتر پردیش میں واقع ہے،یہ قصبہ سیتاپور سے ۶؍کلو میٹر کے فاصلے پر مشرق کی جانب اور لکھنو سے تقریباً ۷۵؍کلو میٹر کی مسافت پر مغرب میں دہلی لکھنو ہائی وے پر واقع ہے۔

خیرآباد کی قدامت کے تعلق سے سید نجم الحسن رضوی خیرآبادی نے لکھا ہے کہ:
اس قصبہ کی تاریخ بہت قدیم ہے ، تلاش وجستجو سے انکشاف ہوا ہے کہ راجہ بکرما جیت کے دور سے قبل یہاں آبادی موجود تھی، اس وقت اس کا نا م’’چتر ریتہا ‘‘ تھا، پھر راجہ بکر ما جیت کے عہد میں منسا دیوی کی مناسبت سے’’منسا چتر‘‘ کے نام سے موسوم ہوا،عہد اسلامی میں سب سے پہلے حضرت یوسف غازی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رفقا کے ساتھ تشریف لائے ، آپ کی آخری آرام گاہ یہیں ہے … البتہ ملا عبد القادر بدایونی نے منتخب التواریخ میں لکھا ہے کہ اس قصبے کو سلطان ابراہیم بن مسعود بن محمود نے آباد کیا، اس سے پہلے آبادی میں نظم و ضبط نہیں باقی رہا تھا، سلطان ابراہیم نے پوری توجہ صرف کرکے اس کو با قاعدہ آباد کیا اور اغلب خیال ہے کہ اس وقت سے اس کا نام ’’خیرآباد ‘‘ ہوگیا جو اب تک قائم ہے‘‘(خیرآباد کی ایک جھلک:ص:۸؍۹)

سلطان ابراہیم کے بعد خیرآباد مختلف شعبوں میں مسلسل ترقی کرتا رہا ، یہاں کثرت سے اولیا وصوفیہ تشریف لائے،یاد الٰہی اور مخلوق خدا کی فیض رسانی کے لیے انہوں نے خیرآباد کی سرزمین کا انتخاب کیا اور یہیں کے ہورہے،ان کی درگاہیں آج بھی خیرآباد کے تابناک روحانی ماضی کی یاد دلاتی ہیں، ان اہل اللہ میں خصوصیت کے ساتھ حضرت عثمان غزنوی( خلیفۂ حضرت نظام الدین محبوب الٰہی)حضرت مخدوم شیخ سعد الدین ( م : ۲ ۲ ۹ ھ؍۱۵۱۶ئ)عرف بڑے مخدوم صاحب مریدوخلیفہ حضرت شاہ مینا اور حضرت مخدوم سید نظام الدین اللہ دیا عرف چھوٹے مخدوم صاحب (م : ۳ ۹ ۹ ھ ؍ ۵ ۸ ۵ ۱ئ) قابل ذکر ہیں۔

خیرآباد کی خانقاہوں میں خانقاہ حافظیہ اسلمیہ ایک خاص مقام رکھتی ہے،حضرت حافظ محمد علی خیرآبادی قدس سرہ نے حضرت خواجہ سلیمان تونسوی سے اجازت وخلافت حاصل کی اور خیرآباد میں رشدوہدایت کا سلسلہ قائم فرمایا،آپ کے بعد آپ کے برادر زادے حضرت حافظ محمد اسلم خیرآبادی قدس سرہ نے اس سلسلہ کو قائم رکھا،دونوں حضرات خیرآباد میں اپنی خانقاہ ہی میں آرام فرماہیں،یہ خانقاہ ’’خانقاہ حافظیہ اسلمیہ ‘‘ کے نام سے آج بھی موجود ہے جہاں سے رشدوہدایت اور مخلوق خدا کو فیض رسانی کا سلسلہ جاری ہے۔

خیرآباد کی سرزمین شعرو سخن کے حوالے سے بھی مردم خیز ثابت ہوئی،عربی شاعری میں علامہ فضل حق خیرآبادی نے وہ کمال حاصل کیا کہ نہ صرف خیرآباد بلکہ پورے برصغیر کی عربی شاعری کا فخر قرار پائے ،اردو شعرو سخن کے میدان میںبھی فرزندان خیرآباد نے کئی ایک معتبر نام دیے ہیں،ان میں ریاضؔ خیرآبادی اور مضطرؔ خیرآبادی محتاج تعارف نہیں ہیں۔

مولانا سید محمدمیاں نے درست لکھا کہ:
’’ہندوستان کے وہ قصبے جو مردم خیزی میں مشہورہیں ، ان میں ضلع سیتا پور کا قصبہ خیرآباد بھی ہے -اب چودھویں صدی کے ربع آخر میں اس کی حالت کچھ بھی ہو مگر حلقہ درس و تدریس سے تعلق رکھنے والے جانتے ہیں کہ گزشتہ صدی کے آخر تک خیرآباد کو خیر البلاد لکھا جاتا تھا-‘‘
(علماے ہند کا شاندر ماضی :ص۹۴۹)
Muhammad Saqib Raza Qadri
About the Author: Muhammad Saqib Raza Qadri Read More Articles by Muhammad Saqib Raza Qadri: 147 Articles with 407313 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.