اور ارفع مر گئی ۔۔۔۔

ہم ہر روز غربت ،کرپشن ،مہنگائی،بے روزگاری ،ٹارگٹ کلنگ کے نوحے لکھتے ہیں مگر ایک المیہ کہ ہم نے صرف تنقید کو ہی صحافت سمجھ لیاہے۔سیاست دانوں سے لے کر عوام تک اور حکمرانوں سے لے کر اپوزیشن تک ہماری نگاہیں صرف اور صرف منفی پہلوﺅں کی متلاشی رہتی ہیں ۔آج کا ایک اہم ایشو یہ بھی ہے کی ہم نے اصلاحی اور معاشرے کے لئے سود مند ہر ایک چیز کو میڈیا کے ذریعے صحیح معنوں میں اجاگر کرنا چھوڑ دیاہے ۔جب کہ ہمارے ملک میں اب بھی بہت ساری جہگوں پر روشن قندیلیں ،صبح ِ بہاراں کی پیغام رساں ہیں ۔مگر ہم نے کبھی ان کے پیغام کو اس انداز میں سنا ہی نہیں اور یہی وہ بنیادی وجہ ہے کہ جس کی وجہ سے بے شمار صلاحیتیں پروان چڑھنے سے رہ جاتی ہیں۔بہت سارے پیغام ایسے بھی ہوتے ہیں جو فطرت خود کو منوانے کے لئے کسی کے ذریعے عیاں کر دیتی ہے ۔چین نے صلاحیت کی قدر کی اور علم کو عام کیا اور یہ چین دینا کے نقشے پر مستقبل کی سپّرپاور کی حیثیت سے خود کو منوانے والا ہے ۔ہم نے آج تک ان دونوں صلاحیت اور علم کو قدر اور پروان چڑھانے کے کوشش نہیں کی ۔

پاکستان کے نوجوان صلاحیت کاروں میں ایک نام کم عمر ترین مائیکروسافٹ پروفیشنل ارفع کریم کابھی تھا۔ارفع کریم 2فروری 1995کو فیصل آباد کے ایک گاﺅں رمدے میں لیفٹینٹ کرنل امجد کریم کے پیدا ہوئی ،امجد کریم افریقہ میں اقوام ِ متحدہ کی امن فورس میں اپنی خدمات سر انجام دیتے رہے ہیں ۔ارفع نے تین سال کی عمر میں اسکول جانا شروع کیا اور ارفع نے اپنی زندگی کی پہلی دہائی مکمل کرنے سے قبل ہی دنیا کی کم عمر ترین مائیکروسافٹ پروفیشنل کے طورپر مقبولیت کی معراج حاصل کر لیتی تھی ۔اسے صرف دس سال کی عمر میں پرائڈ آف پرفارمنس ملتا ہے جس کے حصول کے لئے لوگ ساری ساری عمر گزار دیتے ہیں۔9سال کی عمر میں کمپیوٹر کی دنیا پر کمند ڈالنے والی یہ بچی نعت خوانی کا مقابلہ ہو ،بحث و مباحثہ ہو وہ اپنے ہم عمروں ،ہم عصروں کو پیچھے چھوڑ جاتی تھی ۔یہی وجہ ہے کہ اسے اس وقت صدارتی ایوارڈ کے علاوہ مادرِ ملت جناح طلائی تمغہ اور سلام ِپاکستان یوتھ ایوارڈ2005ءسے بھی نوازہ گیا ۔ارض ِ پاکستان کی اس ہونہاراور باصلاحیت بیٹی نے اپنی خداداد صلاحیت کے بل بوتے پر کمپیوٹر ٹیکنالوجی کے وسیع میدان میں اپنے نام کی طرح بلند مقام پایا ۔وہ بچپن سے ہی غیر معمولی صلاحیتوں کی وجہ سے باتوں کو سمجھنے اور محسوس کرنے میں کمال رکھتی تھی ۔جب اس نے اسکول میں پہلی دفعہ کمپیوٹر دیکھا تو گھر میں اس کی فرمائش کر دی ،کیا خبر کہ یہ اپنی فرمائش میں نام کمائے گی ۔وہ اپنے اساتذہ کی نگرانی میں اسکول کی چھٹیوں میں صبح 9بجے سے شام 5بجے تک تحقیق کا کام کرتی تھی ۔ باکمال لڑکی اڑھائی سال کی عمر میں جس آواز کو سنتی تھی اسی کی کاپی کر لیتی تھی ۔اپنی دادی کی گود میں چھ کلمے یاد کر لینے والی ارفع نے کمپیوٹر کے عالمی امتحان میں کامیابی حاصل کر کے مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈپروفیشنل ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا تھا ۔

دنیا بھر میں کمپیوٹرز کوچلانے والے نظام ونڈوز امریکی کمپنی مائیکروسافٹ کارپوریشن کی ایجاد ہے ۔اس کے انٹرنیٹ پر چھوڑے گئے سلیبس کے تحت جو کوئی دنیا بھر سے اپنی اہلیت ثابت کرتا ہے اسے” کمپنی مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن ڈیولپر“کی سند عطا ءکرتی ہے ۔اسی لئے دنیا کا امیر ترین شخص بل گیٹس جس نے اب اپنے دولت ویلفئر ز کے لئے وقف کردی ہے ،وہ اس کمپنی کے مالک تھااور اس نے ایک مقابلہ منعقد کروایا اور یوں ارفع کی محنت رنگ لائی اور اس نے انکل سام کے دیس میں پاکستان کا سر فخر سے بلند کر کے اس مقابلے کو جیتا اور 15جولائی 2005ءکو ارفع مائیکروسافٹ کی دعوت پر اپنے والد کے ہمراہ امریکا پہنچی جہاں اُسے اس ادارے کا دورہ کروایا گیا اور یوں ارفع نے بل گیٹس کے ہاتھوں یہ توصیفی سند ”مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ ایپلی کیشن ڈیولپر“وصول کی ۔یہیں پر بل گیٹس نے ارفع سے پاکستان آنے کا وعدہ کیا کہ وہ پاکستان ضرور آئیں گے ۔اس وقت پاکستانی میڈیا نے ارفع کو پاکستانی دوسرا چہرا قرار دیا تھا ۔ارفع جہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی کامیابیوں کی داد لیتی ہے وہیں پر جب وہ چوتھی جماعت کی طالبہ تھی تب اس نے اپنی آواز سے گائیکی مقابلے میں بھی پوزیشن حاصل کی تھی ۔یہی ارفع کریم جو اپنی برتری کے احساس کو یہ کہہ کر اپنے اسکول میں چھپا ئے رکھتی ہے کہ انسان کو جتنا بھی زیادہ مرتبہ ملے وہ ہمیشہ عجزوانکساری میں رہے ۔

22دسمبرارفع کو اچانک مرگی کا دورہ پڑاجس نے اس کے دل ودماغ کو متاثر کیاہسپتال میں اس کی سانس کو مصنوعی نظامِ تنفس کے ذریعے بحال رکھاگیا۔بالآخرارفع 23دن لاہور سی ،ایم ،ایچ میں زیرِعلاج رہنے کے بعد4جنوری کی شام زندگی اور موت کی کشمکش سے آزادی حاصل کر کے اپنے آخرت کے سفر پر روانہ ہوگئی۔ وہ تحفہ ملا تو تھا مگر یہ مل کر زیادہ دیر تک ہمارے پاس رہ نہ سکا
یہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا
کھلا ضرور مگر کھل کر مسکرا نہ سکا

ارفع ایسے پاکستان میں بستی تھی کہ جس کے نظام ِ تعلیم پر طائرانہ نگاہ ڈالی جائے توارفع کی قدر آتی ہے ۔ارفع کے پاکستان میں جس کی کل آبادی 18کروڑ73لاکھ سے تجاوز کر رہی ہے ۔اور اس میں قریبا ً 63فیصد آبادی نوجوانوں کی ہے اوراسی پاکستان میں 7ملین بّچے پرائمری تعلیم سے بھی دور ہیں ۔جب کہ سکینڈری اسکولوں میںقریباً2فیصدداخلے ہوتے ہیں ۔25ملین بّچے اپنی آزاد اور لازمی تعلیم کے بنیادی ،آئینی حق سے محروم ہیں ۔ایسے میں ارفع پاکستان کے لئے کچھ کر گزرنے کے امنگیں اپنے دل میں رکھے ہوئے تھی ۔

قوموں کی ترقی میں تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے انکار ممکن نہیں ۔ارفع جیسی نوجوان نسل باصلاحیت ،محب ِوطن اور تمام مسائل سے آگاہ وقت کو بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں ۔ ارفع کریم پاکستان کے لئے رحمت ہی نہیں نعمت بھی تھی،یہ اٹل حقیقت ہے کہ جب نعمت کی قدر نہ کی جائے تو وہ چھن بھی جاتی ہے ۔اولیاءکی سرزمین سے تعلق رکھنے والے خاندان کی چشم و چراغ ارفع کریم تو ابھی ٹیکنالوجی کے میدان میں اپنی بڑھتی عمر کے ساتھ بہت کچھ کرنا چاہتی تھی ۔ارفع کا جواں عزم تھا کہ پاکستان کو دنیا میں تھرڈ کنٹری کی اصطلاح سے ہم نوجوانوں نے مل کر ختم کرنا ہے اور ثابت کرنا ہے کہ پاکستان میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں صرف قیادت نامی چیز کی کمی ہے ۔اسیاست سے نفرت اور تعلیم سے محبت کرنے والی ارفع دوسرے ممالک سے تعلیم حاصل کر کے پاکستان میں آکر اِسی سر زمین اور انہی ناخواندگی کے پہاڑوں کو کاٹ کر یہیں سے اپنے جیسےدریابہانا چاہتی تھی کیوں کہ وہ جانتی تھی کہ
پہاڑ کاٹنے والے زمین سے ہار گئے
اِسی زمین میں دریاسمائے ہیں کیا کیا

افسوس کہ ہمیں آج تک وہ قیادت ہی نہ ملی جس نے اقبال کے شاہینوں کی صلاحیتوں کو سمجھا ہو۔ پنجاب کے شہباز نے تو اپنی روایت کو قائم رکھتے ہوئے ہسپتال میں جا کر ارفع کی بیمار پرسی کی تھی ۔مگر باقی انقلابی ۔۔۔؟ کہتے ہیں سونے کی قدر سنار اور پانی کی قدر مچھلی جانتی ہے ،اسی لئے بل گیٹس نے ارفع کریم کو 15جولائی 2005کے بعدایک مرتبہ پھر 9جنوری 2012کو یاد کیا اور اس نے اِس خواہش کا اظہار کیا کہ ارفع کریم کو امریکہ لایا جائے وہ اس کاعلاج کروائیں گے ۔یہ وہ بل گیٹس ہیں کہ جن کے اگرہزار ڈالر زمین پر گر جائیں تو وہ اس وجہ سے نہیں اٹھاتاکہ اتنے وقت میں لاکھوں ڈالر کما لے گا ۔وقت کی قدر کرنے والے یہ انگریز اتنے دور بیٹھ کر بھی پاکستان کی باصلاحیت لڑکی کی نہ صرف قدر کرتاہے بلکہ عملا ًوہ کردار ادا کرتا ہے جو ا س ملک میں نوجوانوں کی بات کرنے والے اور انقلاب کے کھوکھلے نعرے لگانے والوں کو کرنی چاہیے تھی ۔انقلاب کے دعویداریہ حقیقت کیوں بھول بیٹھے کہ انقلاب تو ارفع جیسی جواں ہمت لا سکتی ہیں ۔چڑھتے سورج کو سلام کرنے والے کیا انقلاب لائیں گے ؟جو نوجوان اتنا ادراک بھی نہ رکھے کے لال مسجد اور جامعہ حفصہؓ میں بے گناہ بچیوں کا خون کرنے والے کون اور کہاں ہیں ؟اورکس کو اب”انصاف“ کے ترازو میں تُلنے کا خیال آیاہے۔

میں رات دیر تلک ٹی وی سے دورچائے کے گرم گرم گھونٹ کے ساتھ کتاب سے دوستی میں مصروف تھا کہ ایک صحافی دوست کا میسج آیا کہ ”اور ارفع مر گئی “چائے کا کپ تھا کہ وہیں پڑا رہ گیا اور میں خیالات میں اس دوست کو یہی کہتا رہ گیا کہ نہیں ارفع زندہ ہے کیوں کہ ارفع جیسی روحیں زندگی میں کچھ ایسا کر جاتی ہیں کہ مر کر بھی زندہ رہتی ہیں ۔افسوس کہ ہماری قوم میں ایک ایسی نوجوان صلاحیت کار رخصت ہوئی جس کی ابھی بہت ضرورت تھی ۔زیادہ افسوس اس کا کہ اس کی عمر ابھی کچھ زیادہ نہ تھی،تاہم اس نے اس عمر میں بھی ایسا کام کیا جو کئی دوسرے نہ کر سکے گویا اب وہ ہم میں نہیں مگر اس کی یاد ہمارے دلوں میں ہے اور رہے گی ۔
پنچھی اڑ گیا پر ڈالی ابھی تک جھول رہی ہے۔
Azmat Ali Rahmani
About the Author: Azmat Ali Rahmani Read More Articles by Azmat Ali Rahmani: 46 Articles with 59286 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.