پاکستانی طالبان کےامیرحکیم اللہ محسود ہلاک

میرانشاہ : کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے امیر حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں۔

غیرملکی خبر رساں ادارے نے دعویٰ کیا ہے کہ کالعد م تحریک طالبان پاکستان کے امیر 12 جنوری 2012 ء کو شمالی وزیرستان میں ہونےوالے حملے میں ہلاک ہوگئے ہیں ۔

امریکی خبررساں ادارے نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے طالبان رہنماؤں کی 6 فون کالز کا ریکارڈ کیں ہیں جن سے واضح اشارے ملے ہیں کہ طالبان کمانڈر ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں ۔

ادارے نے اپنی رپورٹ میں مزید بتایا کہ انہیں آڈیو ریکارڈز کے بارے میں معلومات پاکستانی اہلکار نے نام نہ بتانے کی شرط پر دیاجب کہ ایک فون کال پر ایک جنگجو اس معاملے پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بنارہا ہے دوسری کال سے اس کی موت کی تصدیق ہوئی۔

ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان نے امیر اللہ محسود نے خبر کی تردید کرتے ہوئے کہاکہ وہ زندہ ہیں اور تنظیموں سے رابطے میں ہیں ۔

ان کا کہناتھا کہ طالبان کمانڈر12 جنوری کو اس جگہ موجود نہیں تھے جہاں ڈرون حملہ کیا گیا تھاجب کہ ہلاکت کا دعویٰ درست نہیں ۔

یاد رہے کہ 2010ء کے اوائل میں بھی پاکستانی اور امریکی حکام نے حکیم اللہ محسود کی شمالی و جنوبی وزیرستان کی سرحد پر راکٹ و میزائل کےحملے میں ہلاکت کا دعویٰ سامنے آیا تھا جو کہ بعدازاں ان کے زندہ ہونے ویڈیو سامنے آنے پر غلط ثابت ہوا تھا
https://urdu.thenewstribe.com/story/125730#.TxQqv7KHdTE

پاکستان کی سلامتی کے لیے بڑا خطرہ سمجھے جانے والے عسکریت پسند رہنما حکیم اللہ محسسود مبینہ طور پر ایک ڈرون حملے میں ہلاک ہو گئے ہیں۔ پاکستانی خفیہ ایجنسی کے چار اہلکاروں نے ان کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ خس کم جہاں پاک۔ اگر حکیم اللہ ہلاک ہو گئے ہیں تو اس بہزاروں پاکستانی بے گناہوں کے قاتل کا معاملہ اب اللہ کے پاس ہے۔

حکیم اللہ محسود جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے طالبان کمانڈر ہیں جن کو کمانڈر بیت اللہ محسود کی ہلاکت کے بعد تحریک طالبان پاکستان کا نیا سر براہ مقرر کیا گیا تھا اور وہ بیت اللہ محسود کے محافظ اور ڈرائیور بھی رہے ہیں۔ حکومت پاکستان نے ان کی موت یا گرفتاری پر پانچ کروڑ روپے کا انعام مقرر کر رکھا ہے۔

پاکستان میں انٹیلی جنس حکام نے امکان ظاہر کیا ہے کہ مفرور طالبان کمانڈر حکیم اللہ محسود ایک حالیہ امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا ہے۔

غیر ملکی نیوز ایجنسی ’’اے پی‘‘ کو پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ انھوں نے طالبان جنگجوؤں کے ایک دوسرے کے ساتھ نصف درجن سے زائد رابطوں کو سنا ہے جن میں وہ شمالی وزیرستان میں 12 جنوری کو کیے گئے ایک مبینہ امریکی میزائل حملے میں اپنے کمانڈر کی ہلاکت کے بارے میں گفتگو کر رہے تھے۔

ان رابطوں میں کچھ طالبان نے محسود کی ہلاکت کی تصدیق کی جب کہ ایک نے وائرلیس پر اس موضوع پر گفتگو پر تنقید کی۔

اطلاعات کے مطابق کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا ’ٹی ٹی پی‘ کے ایک ترجمان نے اپنے لیڈر کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈرون حملے کے وقت حکیم اللہ محسود اُس علاقے میں موجود ہی نہیں تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستانی خفیہ اداروں نے طالبان رہنماﺅں کی چھ فون کالز ریکارڈ کی ہیں جن سے یہ اشارے ملتے ہیں کہ شاید پاکستانی طالبان کے امیر 12 جنوری کو ہونے والے ڈرون حملے میں مارے گئے ہیں۔ خبررساں ایجنسی کے مطابق حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کا یہ دعویٰ پاکستانی انٹیلی جنس حکام کی جانب سے سامنے آیا ہے جنہوں نے طالبان رہنماﺅں کے درمیان ہونے والے مواصلاتی رابطوں کا سراغ لگایا ہے جن میں کچھ طالبان جنگجو اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ محسسود ہلاک ہوچکے ہیں جبکہ ایک فون کال میں ایک جنگجو اس معاملے پر ریڈیو پر بات کرنے پر دوسروں کو تنقید کا نشانہ بھی بنا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق انٹیلی جنس حکام نے نام ظاہر نہیں کئے ہیں کیونکہ انہیں اس بات بات کرنے کی اجازت نہیں تھی۔ کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان عاصم اللہ محسسود نے گروپ کے امیر کی ہلاکت کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مقام پر موجود ہی نہیں تھے جہاں ڈرون حملہ کیا گیا تھا۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود زندہ ہیں اور تنظیموں سے ان کا رابطہ ہے، ان کی ہلاکت سے متعلق دعویٰ درست نہیں ہے۔

بریگیڈیئر(ر)محمود شاہ نے کہا ہے کہ اس خبر کی ابھی تک تصدیق نہیں ہو سکی اور اگر حکیم اﷲ محسسود مارا گیا ہے تو یہ ایک بڑی خبر ہے کیونکہ اس سے تحریک طالبان ختم ہو جائے گی کیونکہ تحریک طالبان بہت کمزور ہو چکی ہے۔

اگر حکیم اللہ محسود ہلاک ہو چکے ہیں، تو اس سے پاکستانی سکیورٹی فورسز پر دباؤ میں ممکنہ کمی واقع ہو گی اور یہ تنظیم اب اندرونی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائے گی اور دہشت گردانہ کارروائیوں میں کمی واقع ہو گی ۔

دہشت گرد تنظیموں کا تمام تانا بانا ان کے لیڈروں کے گرد ہی گھومتا ہے جو اس تنظیم کو متحد و منظم رکھتے ہیں مگر ان کے جانے کے بعد ، تنظیم کی لیڈری کے بارے میں تنازعات شروع ہوتے ہین اور تنظیم کے اندر مختلف گروپ آپس میں لڑائی جھگڑا شروع کر دیتے ہیں جس سے تنظیم کمزور پڑ جاتی ہے اور اپنی سرگرمیاں رکھنے کے قابل نہیں رہتی۔ ویسے بھی اس طرح کی اطلاعات تھیں کہ حکیم اللہ محسود اور ولی الرحمن میں حکومت پاکستان سے بات چیت کے موضوع پر ناقابل اصلاح اختلافات پیدا ہوچکے ہیں اور دونوں ایک دوسرے کی جان کے دشمن بن چکے ہیں۔

ایک انٹیلی جنس اہلکار کا خبر رساں ادارے سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ہم نے جو گفتگو سنی، اس میں چھ سے سات ٹی ٹی پی ممبران شریک تھے۔ ان میں سے ایک کا کہنا تھا کہ حکیم اللہ محسود میرانشاہ کے قریبی مقام پر ڈرون حملے کا نشانہ بنا۔‘‘

ایک اور انٹیلی جنس اہلکار کا کہنا تھا، ’’ہماری اطلاعات کے مطابق حکیم اللہ نوے اڈہ میں ایک اجلاس کی سربراہی کر رہا تھا۔ یہ علاقہ شمالی وزیرستان کے علاقے دتہ خیل کا ایک گاؤں ہے‘‘۔

طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا کہنا ہے، ’’ حکیم اللہ محسود ابھی تک زندہ ہیں۔ تاہم وہ ایک انسان ہیں اور کسی وقت بھی ہلاک ہو سکتے ہیں۔ وہ ایک جنگجو ہیں اور ہم ان کے لیے شہادت کی تمنا رکھتے ہیں۔‘‘

ترجمان کا مزید کہنا تھا، ’’حکیم اللہ زندہ رہیں یا ہلاک ہو جائیں، ہم جہاد جاری رکھیں گے۔‘‘ احسان اللہ احسان کا بیان بڑا مبہم ہے اور اس سے ہر طرح کی تشریحات نکالی جاسکتی ہیں۔

پاکستانی فوج کے ایک سینیئرعہدیدار کا کہنا ہے کہ حکیم اللہ محسود کی ہلاکت کی سرکاری طور پر تصدیق فی الحال نہیں کی جاسکتی۔

حکیم اللہ زندہ ہے یا ہلاک ہوچکے ہیں یہ تو آئندہ چند دنوں میں واضح ہوجائے گا۔ لیکن تجزیہ نگاروں کے مطابق جس مشکل صورتحال کا طالبان کو اس وقت سامنا ہے وہ بظاہر قیادت کا بحران ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کو شاید پہلے اس قسم کے مشکل حالات کا سامنا کبھی نہیں کرنا پڑا جو اب اسے درپیش ہیں۔
Iqbal Jehangir
About the Author: Iqbal Jehangir Read More Articles by Iqbal Jehangir: 28 Articles with 42494 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.