”میں نے برصغیرکے کونے کونے کا
سفر کیا ہے۔ میں نے اس ملک میں بہت دولت، اتنی اخلاقی قدریں دیکھیں ہیں۔
یہاں کے لوگ بہت بلند دماغی صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ اس دوران میں نے کبھی
کوئی ایسا شخص نہیں دیکھا جو کہ فقیر یا چور ہو۔ہم اس ملک کو کبھی بھی فتح
نہیں کر سکیں گے جب تک کہ ہم اس قوم کی ریڑہ کی ہڈی نہ توڑ دیں جو کہ ان کی
روحانی اور تہذیبی میراث ہے۔ اور اسی کے لیئے میں یہ تجویز دوں گا کہ ہمیں
سب سے پہلے مسلما نوں کے پرانے اور دیرینہ تعلیمی نظام کو بدلنا ہو گااو ر
ان کی تہذیب کو بھی، یہاں تک کہ برصغیرکے رہنے والے یہ نہ سمجھ بیٹھیں کہ
ہر غیر ملکی اور انگریز قوم ان سے کہیں بہتر ہے۔ وہ اپنی توقیر سے ہات دھو
بیٹھیں گے اور یہ قوم اور ان کی تہذیب ویسی ہی بن جائی گی جیسا ہم انہیں
بنانا چاہتے ہیں – یعنی ایک مکمل زیر تسلط قوم “۔یہ بات1835میں لارڈ
میکاؤلے نے برطانوی پارلیمینٹ سے خطاب کرتے ہوئے کہی تھی۔یہ اس وقت کا ذکر
ہے جبکہ برصغیر سے مسلمان حکمرانوں کیا دور حکومت کا وقت قریب تھا اور وہ
1857کی جنگ عظیم طرف بڑہ رہے تھے۔
اقبال نے اپنے کلام میں جابجا مغربی تہذیب و تمدن کی خامیوں پر نکتہ چینی
کی ہے اور مسلم معاشرے کو ان کے مضر اثرات سے بچنے کی تلقین کی ہے۔ یہ بہت
د کھ کی بات ہے کہ مشرقی ممالک اپنی نا سمجھی کے باعث تہذیب ِ مغرب کی
اندھے میں پھنستے چلے جا رہے ہیں۔انگریز ہمیں سیاسی، اقتصادی، معاشرتی
اورنفسیاتی طور پر کمزور کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہا ہے۔ انگر یزی رسم و
رواج ہمیں دین و دنیا اور ہمارے مذہب سے بہت دور لے جا رہا ہے۔ہمارے شعور
کو ختم کر رہا ہے۔اور ہمیں تباہی کے راستے پر لے جا رہا ہے۔ہمیں دینی
تعلیمات،ہماری ثقافت، رسم و رواج ہماری تہذ یب کو کھو کھلا کر رہا ہے۔
آج بھی انگر یزوں اور انگر یزی تہذیب ہم پر غالب ہے۔ہم لوگ اپنی تمام تر
تہذیب کو بھول کرغیر ملکی تہذیب اپنانا پسند کرتے ہیں۔ہماری زندگی کے ہر
پہلومیں انگریزوں کا عکس نظر آتا ہے۔ہمارے رہن سہن ،لباس سے لے کر ہمارے
بات کرنے ،چلنے ،اٹھنے اور سونے الغرض زندگی کے ہر پہلو میںانگریزی تہذیب
کی جھل دیکھتی ہے۔ہمارے ملک کا ہر جوان اور بوڑھا اپنے ملک میں محنت کرنے
کوگریز کرتا ہے اوراپنے ملک میں جن کاموں میں شرم محسوس کرتا ہے بیرون
ممالک ان ہی کاموں کو باعث فخر سمجھتا ہے۔فیشن کے معاملے میں بھی انگریزی
ملبوسات کو ہی ترجیح دی جاتی ہے۔
غیر ملکی عناصر اپنی تمام تر پالیساں ہمارے دماغیوں پر مسلط کر رہے ہیں۔اور
ان تمام چیزوں کو ہماری ضرورت بنادیتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنے مقاصد
کو کامیاب بناتے ہیں۔مو بائل فون کمپنیاں اور کیبلز اس کی عام ترین مثالیں
ہیں۔اور یہ تمام چیزیں ہمیں ناکارہ اور بے بس بنانے میں اہم کردار ادا کر
رہی ہیں۔اور ہماری جڑوں کو کمزور کر رہی ہیں۔ہمارے دشمن ہمین اپنا غلام بنا
کر رکھنا چاہتے ہیں اور وہ اس مہم میں کامیاب بھی ہو رہے ہیں۔
اگر ہم تاریخ کاجائزہ لیں تو ہیں پتا چلتا ہے کہ جابر بن حیان کیمیا کے
تجربات کے لئے باقاعدہ اور الگ تجربہ گاہ بنائی اور نظریات کو تجربات کے
ذریعے پرکھا ۔محمد بن موسی الخوارزمی جو کہ ایک عظیم ریاضی دان تھے۔محمد بن
زکریا جو کہ اعلٰی پائے کے طبیب تھے۔ابو القاسم مجریطی نے جانوروں کے بارے
میں تحقیقات کیں۔اور ان کے علاوہ یعقوب کندی، علی ابن الطبری، شریف ادریسی،
ابو ہاشم خالد، محمد بن زکریا الرازی،ابو علی حسن بن حسین ابن الہیشم،
لفارابی، بوعلی سینا، اصطرلابی، ابن مسکویہ، القندی اور ابن رشد جیسے عظیم
سائنس دان مسلمان ہی تھے اور ا نہوں کی کوششوں کے مرہوں منت یہ آج دنیا
یہاں تک پہنچی ہے۔ ان عظیم لوگوں کی کاوشوں کے بغیر مغربی ملک سائنسی
ارتقاءاور بلندی پر نہیں پہنچ سکتے تھے۔تاریخ گواہ ہے کہ آج دنیا میں جتنی
بھی ترقی ہو رہی ہے وہ ان کی ہی وجہ سے ممکن ہوئی ہے۔آج تک دنیا میں جو بھی
نئی دریافت ہو تی ہے ان کا اصل سہرا ان تمام مسلمان سائسدانوں کے سر ہی
جاتا ہے۔
کیوں ہم زندگی کے ہر کام ہر پہلو میں ان لوگون سے پیچھے ہیں؟کیوں ہم اپنی
ثقا فت اپنی تہذیب سے دور ہوتے جا رہے ہیں؟کیوں ہم غیر ملکی عناصر کو
کامیاب ہونے دے رہے ہیں؟کیوں ہم لوگ غلامیوں کی زندگی گزارنے کو اہمیت دیتے
ہیں؟ہم یہ کیوں بھول جاتے ہیں کی ہمارے پاس ان سے زیادہ عقل سوچ شعور اور
زیادہ قابلیت ہے؟ آج سارے مسلمان ممالک زندگی کے ہر شعبے میں دوسری طاقتوں
سے بہت پیچھے ہیں۔ سوائے ایران اور ترکی سب ہی سائنس اور ٹیکنولوجی کے ہر
شعبے میں کوئی خا ص کام نہیں کررہے۔ پھر سوائے ایران کے یہ تمام مما لک آج
بھی بھی معاشی اور صنعتی مقابلہے میں اس دنیا کی طاقتور مغربی تہذیب کے
پنجہ میں پھنسے نظر آتے ہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ مسلمان خواب غفلت سے بیدار
ہو کر اس دنیا میں اپنا مقام پیدا کریں۔اور اس دنیا کو بتائیں کہ ہم کسی سے
کم نہیں ہیں۔دنیا میں صرف مسلمانوں کا ہی بول بالا ہے۔مشرق سے مغرب اور
شمال سے جنوب صرف مسلما نوں کا ہی راج ہو۔اور ایک بار پھر مسلمان دنیا میں
اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوائے۔
یا رب دل مسلم کو وہ زندہ تمنا دے
جو قلب کو گرما دے، جو روح کو تڑپا دے |