قدسیہ ممتاز
کبھی ہنگامہ ہائے حیات سے فرصت پا کر،بس یونہی ایک مشغلے ایک وقت گذاری کے
طور پر،آئینے کے رو برو ہو جائیں اور اپنے عکس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
دیکھیں یا آئینہ بھی میسر نہیں کہ روز روز کی شرمندگی سے بچنے کے لئے اسے
یوں الٹ کر رکھ دیا ہو جیسے بعض طلاق یافتہ جوڑے اپنی شادی کی تصویر الٹ کر
رکھ دیتے ہیں کہ دوبارہ اس غلطی کے ارتکاب کی تحریک نہ ہو۔تو کوئی ہم نشین،
کوئی ہمدم دیرینہ تو میسر ہوگا ہی جس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر یہی عمل
کیا جا سکتا ہے۔اب دیکھئے اور انصاف کیجیے۔کیا آپ وہی ہیں جو کچھ سال پہلے
تھے؟یہ تھکی تھکی، الجھی الجھی آنکھیں،یہ نا ملائم نقوش،یہ پژمردہ
خدوخال۔یہ آپ تو نہیں محض آپ کا سایا ہیں۔تو پھر کیا کیجیے؟؟بہت آسان
ہے۔سار ا الزام وقت کے سر دھر دیجیے کہ ظالم گزرتا ہی چلا جاتا ہے۔ایک پل
نہیں ٹہرتا اورکبھی ایک سا نہیں رہتا۔آخر ایسے ہی کسی مایوس لمحے میں شاعر
نے کہا تو تھا۔
میںوہ پتھر ہوں کہ دہقان ازل نے جس کو
گردش وقت کی گوپھن میں گھما کر پھینکا۔۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمدم دیرینہ کو قصہ پارینہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔جو کل تک
دانت کاٹی روٹی کھاتے تھے ، آج ایک دوسرے کو کاٹ کھانے کو دوڑتے ہیں۔کل
جنہیں دیکھے بغیر نیند نہیں آتی تھی، آج منوں مٹی تلے جا سوئے اور ہم زندہ
ہی نہیں ، خوش بھی ہیں۔تو کیا یہ وقت ہے جو گزرتا چلا جاتا ہے؟ایک پل نہیں
ٹہرتا اور کبھی ایک سا نہیں رہتا؟؟
ذرا اپنے تصور کو وسیع کیجےے۔اپنی ذات سے اور اپنی حقیر سی محبتوں اور
نفرتوں سے بلند ہو جائیے۔گردش ایام کو کہیے کہ ذرا پیچھے کی طرف لوٹ جائے
اور دیکھئے کہ ہم کیا تھے اور کیا ہوگئے۔
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے ایک ٹوٹا ہوا تارا!
یہ ہم ہی تو تھے کہ کسریٰ کے دربار میں قیمتی قالین نیزوں کی نوک سے چھلنی
کرتے گزرتے چلے جاتے تھے اور پیشانی پہ شکن تک نہ پڑتی تھی۔
یہ ہم ہی تو تھے کہ بپھرے ہوئے دریائے نیل میں ایک رقعہ ڈالتے تھے اور وہ
کبھی اپنے کناروں سے چھلکنے کی جسارت نہ کرتا تھا۔یہ ہم ہی تھے کہ ارد گرد
لاکھوں مربع میل کے علاقے ہمارے زیر نگین تھے۔یہ ہم ہی تھے کہ خراج وصول
کرتے تھے،مال غنیمت سمیٹتے تھے لیکن ہمارے دستر خوان پر سوائے کھجور اور
زیتون کے کوئی اور سالن نہ ہوتا تھا۔ہمارا امیر رات کی بچی ہوئی روٹی پانی
میں بھگو کر کھاتا تھا اور دنیا پر حکومت کرتا تھا۔
اور آج یہ ہم ہی ہیں کہ قصر ابیض میں کوئی کالا متمکن ہو یا گورا،ایک فرمان
جاری ہوتا ہے اور ہم اپنے ہی ہم وطنوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ان کے حوالے
کر دیتے ہیں۔ایک صوتی حکم نامہ موصول ہوتا ہے اور اپنی راہداریاں اپنی ہی
زمین پامال کرنے کے لیے کسی بے نتھنے سانڈ کے لئے کھول دی جاتی ہیں۔یہ ہم
ہی ہیں کہ عین ہمارے قلب میںخنجر کی طرح ایک نا جائز ریاست پیوست کر دی
جاتی ہے اور ہم مذمتی قرارداتیں پیش کرنے کے علاوہ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ ہم
ہی ہیں کہ ہر جگہ ذلیل و خوار ہیں اور ہمیں کہیں پناہ نہیں ملتی!
ہے جرم ضعیفی کی سزامرگ مفاجات
تو انصاف سے کہئے۔کیا یہ وقت ہے جو ٹہرتا ہی نہیں،گذرتا ہی چلا جاتا ہے اور
کبھی ایک سا نہیں رہتا؟ یا یہ ہم ہیں کہ بدلتے ہی چلے جاتے ہیں،سرابوں کے
پیچھے بھاگتے ہیں اور وہ بن جاتے ہیں کہ اپنی صورت نہیں پہچانی جاتی۔
تو کبھی ہنگامہ ہائے حیات سے فرصت پا کر،بس یونہی ایک مشغلے، ایک وقت گزاری
کے طور پر،آئینے کے رو برو ہو جائیں اور اپنے عکس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر دیکھیں کہ یہ ہم ہی ہیں؟اور ہاں، آئینہ میسر نہ ہو تو ہمدم دیرینہ کو
تلاشنے کی کوشش نہ کیجیے کہ وقت کہ ساتھ وہ بھی بدل چکا ہے۔ |