پاکستان میں انقلاب کیوں ضروری ہے

تمام انسانی تاریخ میں دو الفاظ کی شعوری یا لا شعوری طور پر بڑی قدر و اہمیت رہی ہے اور آج بھی ہے ایک اصلاحات اور دوسرا انقلابات ۔

جب بھی کوئی سماج جمود کا شکار ہوتا ہے تو اس میں ترقی کی رفتار نہایت کمزور پڑ جاتی ہے جس سے اس میں اصلاحات اشد ضروری ہوجاتی ہیں جو اس سماجی جمود کو توڑ کر ارتقا کو جاری رکھتی ہیں جس سے اس نظام کی میعاد مزید بڑھ جاتی ہے ۔ اسطرح انسانی معاشرے ترقی کی طرف بڑھتے رہتے ہیں یہ اصلا حات تب تک کار آمد ہوتی رہتی ہیں جب تک کسی سماج میں ان اصلاحات کی گنجائش ہوتی ہے یہ گنجائش اس وقت تک کسی بھی نظام میں رہتی ہے جب تک رائج الوقت نظام کے اصول وضوابط سے مرتب ڈھانچہ تمام سماجی وسائل کی ترقی میں رکاوٹ اور ان پر بوجھ نہیں بنتا اس کی نشو نما اور بڑھوتی کا باعث ہو تا ہے ۔ لیکن ایک وقت پر جا کر جب سماجی نظام کا ڈھانچہ ان پیداواری قوتوں کی طاقت یاانکی پھیلاو کو کنٹرول اور منظم کرنے میں بری طرح فیل ہو نے لگتا ہے جس سے زائد پیدا وار کے بحر ان امڈ آتے ہیں ان پیداواری قوتیں کی وسعت موجودنظام کے ڈھانچوں سے تجاوز کرنا شروع کر دیتیں ہیں اور یہ پیداواری رشتے نظام کی بنیادوں کو ہی چیلنج کردیتے ہیں تب رائج الوقت نظام اپنی زندگی کے لیے سماجی ارتقا کے مدمقابل آکر کھڑا ہو تا ہے اور بڑی بے رحمی سے وسائل اور پیداواری زرائع کو برباد کرنا شروع کر دیا ہے ۔ پھر اس رائج الوقت نظام کے اندر اصلاحات ناکام اور بے سود ہو نا شروع ہوجاتیں ہیں سماج میں بہتری کے لیے کی جانے والی ہر اصلاح اپنے منفی اثرات مرتب کرتی ہے سماج کو آگے لے جانے کی بجائے پسماندگی میں لے جاتی ہے ترقی کی بجائے پستی میں دھکیل دیتی ہے ۔

جدلیاتی قانون کی رو سے اب دلیل اپنی عدم دلیل میں تبدیل ہو جاتی ہے ۔ یعنی ہر بہتری کا قدم سماج کی ابتری کا باعث بنتا ہے ۔ کیونکہ اب یہ نظام تاریخ میں اپنا وقت پورا کر چکا ہے اس مرحلے پر سماج میں اصلاحات کی ہر گنجائش ختم ہو جاتی ہے ۔ اور جب سماج میں اصلات کی گنجائش ختم ہوجاتی ہے تب انقلاب کی گنجائش پیدا ہوتی ہے ۔

تحریکیں جنم لیتی ہیں بغاوتیں ابھرتیں ہیں ماضی کی پارٹیاں دم توڑنے لگتی ہیں روائتی قیادت سر بازار ذلیل و سوا ہو جاتی ہیں ۔ ماضی کی ہر قدر ، ریت و روایت ،سماجی معاشی اور سیاسی فلسفے ، رشتے غرض پورا نظام اور اس کا ترتیب و تشکیل دیا ہوا ماضی کا دیو ہیکل اور ناقابل تسخیر سماج آج ریت کی دیوار کی طر ح زمین بوس ہوتا چلا جاتا ہے ۔ پورے سماج کو انارکی ، سیاسی ،معاشی ، سماجی مسائل کا اژدھا نگلنا شروع کر دیتا ہے ۔ ایک بے چینی اور انتشار ہر طرف پھیل جاتا ہے ۔ حکمران آزادی اور جبر کے، جمہوریت اور آمریت کے تمام حربے استعمال کر چکے ہوتے ہیں ۔

سماجی بربادی ہوتی ہے جو بڑھتی ہی چلی جاتی ہے یہ کسی بھی نظام کی ناکامی ، تباہی اور موت کی آخیری ہجکیاں ہوتی ہیں جب نظام ناکام اور حکمران نامراد ہوتے ہیں ۔

اسی ذلت، زوال اور اندھیری رات کے آخیری پہر میں نئی سحر کی پوح پھوٹتی ہے تبدیلی کی نئی امیدیں اور امنگیں ابھرتی ہیں جس کے لیے نئی انقلابی اور عوامی پارٹیاں بنتی ہیں اور نئی قیادتیں روشناس ہوتی ہیں۔ طبقاتی جنگ کا آغاز ہوتا ہے ۔ انقلاب اور رد انقلاب کا میدان لگتا ہے ۔ دیر یا بدیر ٹھوس سچ نظریات کی فتح ہوتی ہے ۔ یہ تاریخ میں غیر معمولی واقعات ہوتے ہیں جب ایک نئے انقلاب کی بنیاد پڑتی ہے پرانا نظام اور اس کے حکمران تاریخ کی ردی کی ٹوکری میں جا گرتے ہیں ۔ انقلاب سماج کو تعمیر و ترقی کی نئی جہتوں سے آشکا ر کرتا ہے ۔

معاشرے میں ایسی انسانی عظمت کے احساس کو اجاگر کرتا ہے جس کا وہ ماضی میں تصور بھی نہیں کر سکتا تھا ۔ انقلاب ترقی کی منازل کو چھلانگوں میں عبور کرتا ہے ۔ یہی انقلاب ہوتا ہے اور یہی اس کا مقصد بھی ہے ۔ تمام تاریخ میں انسانی معاشرے نے اسی طرح اپنے ارتقا کو جاری رکھا اور یہی آج تک کی انسانی اور سماجی ترقی کی ٹھوس بنیادیں ہیں جو غلام داری سے جاگیرداری پھر سرمایہ داری اور آج کی عالمی مالیاتی نظام تک پھیلی ہوئی ہیں اور یہی سماجی سائنسی قوانین آج سماجی ارتقا کے لیے سوشلزم کی پکار کر رہے ہیں۔

تمام انسانی سماجوں میں ہر انقلاب کی بنیادوں میں بل واسطہ یا بلا واسطہ مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت ہی کی اذیت ہوتی ہے ۔ جب کوئی نظام اور اس کے حکمران اس کے حل میں نااہل اور ناکام ہوتے ہیں تو پھر عوام اور محنت کش طبقہ انکے خلاف لڑنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔

کوئی انسان بھی شوق سے انقلاب نہیں کرتا اور نہ ہی کرنا چاہتا ہے کیونکہ عام حالات میں انسان کی فطرت قدامت پرست ہے وہ آخیر تک رائج الوقت نظام میں ہی زندہ رہنے کی کوشیش کرتا ہے لیکن تمام تر کوشیشوں کے بعد ایک وقت پر انقلاب اس کی ضرورت بن جاتی ہے اس کے علاوہ اس کے پاس کوئی دوسرا حل نہیں ہوتا اپنی زندگی کو جاری رکھنے کے لیے ہر متبادل دم توڑ جاتا ہے تو پھر عوام کی اپنی زندگی کو قائم رکھنے کی جدوجہد شعوری یا لا شعوری طور پر انقلاب کے راستے پر چل نکلتی ہے اور یہ ناگفتہ باحالات ہی ہوتے ہیں جو عوام کو مجبورا انقلاب کی جدوجہد میں دھکیل دیتے ہیں ۔ اصل میں انقلاب زندگی کے لیے جدوجہد کا نام ہی ہے ۔

آج پاکستان سمیت تمام ترقی پذیر ممالک اور امریکہ یورپ سمت تمام ترقی یافتہ ممالک میں معاشی ، سماجی اور سیاسی بنیادی مسائل ہیں جو ناقابل حل ہو چکے ہیں عالمی حکمرانوں کی تمام تر کوشیشوں کے باوجود بے روزگاری ، غربت اور مہنگائی یہ تین بنیادی مسائل ہیں جو بڑھتے ہی جا رہے ہیں ان کی تمام اصلاحات اور آئے دن کی قلابازیاں کسی مداری سے کم نہیں ہیں لیکن سماجی معاشی مسائل ہیں کہ زخم سے ناسورہ بنتے جا ر ہے ہیں ۔ان مسائل کے حل کا دنیا کے کسی ایک حکمران کے پاس پروگرام تو کیاکوئی خواب اور کوئی امید بھی اب باقی نہیں رہی ہے ۔ اور نہ ہی انکے پاس کوئی عوام کے لیے دلاسا اور تسلی ہے ۔

موجودہ مقامی اور سامراجی حکمرانوں کا اپنا اعتماد اور یقین بھی مالیاتی نظام سے اٹھ چکا ہے ۔ وہ بوکھلا چکے ہیں اور بلبلا رہے ہیں ۔ انکی عقلوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے اور وہ پاگل کتوں کی طرح لڑ رہے ہیں ۔
شرح منافع کی ہوس اور ملٹی نیشنل کے پاس اندھی دولت کے ارتکاز نے معاشی بحرانوں اور سماجی تباہی کو اس کی آخیری حدوں تک پہنچا دیا ہے ۔ اور یہی آج مقامی اور عالمی سیاسی اور سماجی شدید عدم استحکام کا باعث ہے ۔ آج جہاں ایک طرف مہنگائی بے روز گاری غربت بڑھ رہی ہے وہاں دوسری طرف حکمران اور ان کی ریاستیں اور انکے ادارے آپس میں دست و گریباں ہیں اور ترقی پذیر ممالک میں انکی لڑائی اکثر خونی شکل اختیار کر جاتی ہے جس کی غمازی آج پاکستان کے حالات کر رہے ہیں کھبی حکمران نمائندوں کا قتل اور کھبی انکے ٹوٹتے اور بنتے اتحاد لا چاری ، مجبوری اور بے بسی کا تماشہ ہیں ۔

یورپ میں یونا ن ، آئرلینڈ ، پرتگال، سپین کے بعد پھر یونان دوالیہ ہو چکے ہیں ۔ اٹلی بھی دیوالیہ کی لائن میں ہے جو یونان سے تین گناہ بڑی معیشت ہے ۔ اسے کون اور کیسے بچائے گا ۔ یہ بڑا اور اہم ترین سوال ہے جس کے جواب سے کوئی بھاگ نہیں سکے گا پھر برطانیہ بھی آن ٹارگٹ ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ ۔ وغیرہ ۔

دنیا کی بڑی ترین معیشت امریکہ بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے ۔ قرضوں میں پلس ٹریپل اے کا حدف کراس کر چکا ہے ۔ اس کے قرضے اس کی جی ڈی پی کے پچاس فیصد سے تجازو کر رہے ہیں لیکن امریکہ یونان نہیں ہے عالمی معیشت کا بادشاہ ہے ۔ اس کے ایک بینک ،، لہمین،، نے دنیا بھر میں سرمایہ داری کی تیس سالہ تاریخ کا بڑا ترین بحران پیدا کر دیا۔ اور اگر امریکہ دوالیہ ہوتا ہے پھر کیا ہو گا جس کے آثار بعید نہیں ہیں؟وہ کیا کہتے ہیں ۔ ضنم ہم تو ڈوبے ہیں تمہیں بھی لے ڈوبیں گئے ۔

امریکن صدر اوبامہ نے حال ہی میں کہا ہے کہ امیر لوگ بھی اس موجودہ بحران کو تقسیم کریں اور اس کا کچھ بوجھ اٹھائیں اوبامہ کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکی معیشت کے بحران نے یا تو اوبامہ کی مت مار دی ہے یا پھر یہ بہت سادہ ہے جو وہ لگتا نہیں ۔ کیونکہ دولت مند صرف دولت کمانا جانتے ہیں دان کرنا نہیں اگر وہ اس طرح خرچ کریں گئے تو کمائیں گئے کہاں سے اور اگر وہ ایسے شریف ہوں تو دنیا میں کھبی کوئی بحران آئے ہی نا اوبامہ کی یہ بات احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ہے ۔

دولت کی غیر مساوی تقسیم اور بڑھتی طبقاتی خلیج نے تمام دنیا کو جہنم بنادیا ہے آج کے تمام مسائل کی جڑ بھی یہی ہے اورتما م انسانی تاریخ اسکی گواہ ہے کہ حکمرانوں اور دولت مند کھبی بھی اپنی مراعات اور سماجی وسائل پر اپنے جبرانہ قبضے سے کھبی بھی رضا کارانہ دست بردار نہیں ہوئے بلکہ عوام نے ہمیشہ اپنے حقوق چھین کر ہی حاصل کیے ہیں ۔

اینگلز نے ایسے ہی نہیں لکھا تھا کہ اب انسانیت کا مستقبل سوشلزم یا بربر یت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔ جس کو لینن نے مزید آگے بڑھاتے ہوئے سامراج سرمایہ داری کی آخیری منزل میں لکھا تھا کہ اب جوں جوں سرمایہ داری کے خاتمے کا عرصہ لمبا ہوتا جائے گا توں توں یہ زیادہ بھیانک اور خونی ہوتی چلی جائے گئی ۔ کیا آج کے حالات و واقعات اسے ثابت نہیں کر رہے؟ ۔

انسانی تاریخ اور اسکے سائنسی ارتقا سے ناواقف آج چند پارٹیاں یا لیڈر پاکستان میں جاگیرداری کے خلاف انقلاب فرانس کا نعرہ لگاتے سنائی دیتے ہیں ۔ یہ درست ہے کے انقلاب فرانس نے عالمی سرمایہ داری کو ابھرنے میں ٹھوس سماجی بنیادیں مہیا کیں تھیں اوریہی حضرات یہ دلائل بھی دیتے ہیں کہ پاکستان میں آج جاگیرداری ہے اور ہمیں کلاسیکل دیانیدار ، امانیدار ، انصاف پسند اور جمہوری سرمایہ داری کی ضرورت ہے انکی عقل شاید گھاس کھانے گئی ہے جس سے یہ ایسی باتیں کر رہے ہیں کیونکہ ایک طرف یہ عالمی جمہوریت کے چیمپین اور سر چشمے امریکہ یا یورپ کے خلاف باتیں کرتے ہیں انکی عراق ، افغانستان ، لیبیا میں سامراجی جارحیت کے خلاف بولتے ہیں انکی تیل کی حوص اور دوسری منڈیوں پر قبضے کے خلاف پراپیگنڈہ کرتے ہیں اس کا یہ مطلب ہے کہ انکی یہ تمام الفاظی اور تحریکیں جھوٹی، منافقانہ اور دیکھاوئے کی ہیں (شاید اس لیے کہ درپردہ یہ ان سے مالی یا دوسرے مفادات لیتے ہیں) اور جب یہ انہیں کو ہی نہیں مانتے تو پھر انکے نظام کو کیوں مانتے ہیں۔

جس سرمایہ داری کی یہ بات کرتے ہیں جو نجی ملکیت اور شرح منافع کا نظام ہے جو منڈی پر انحصار کرتا ہے اور آج تمام مقامی اور عالمی بحرانوں کی بنیادی وجہ بھی یہی بازاری معیشت کا نظام ہے جس میں دولت کاا رتکاز چند ہاتھوں میں مرکوز ہونے سے عوام میں غربت پھیلنے سے قوت خرید کا ختم ہو جانا ہے ۔ جس سے منڈی میں سرد بازاری ہے پیداوار نہیں بکتی سرمایہ داروں کو مطلوبہ منافع حاصل نہیں ہوتے ۔

جبکہ دوسری طرف پیداواری قوتیں بہت ترقی یافتہ اور طاقت ور ہیں جو وافر مقدار میں چیزیں پیدا کر رہی ہیں اور انکی کھپت نہ ہونے سے زائد پیداوار کی بہتات ہے اور یہی زائد پیداوار کا بحران ہے جو تمام عالمی بحرانوں کی بنیادی وجہ ہے۔ جیسے ہم بے رحیم اور سنگدل کہتے ہیں کیونکہ آج ایک طرف دنیا کی اکثریتی عوام بنیادی ضروریات کے ہاتھوں مر رہی ہے جبکہ دوسری طرف ہر سال ہزاروں ٹن گندم ، دوھ ، چاول ، گوشت ،مکھن اور دوسری بے شمار اشیا ئے صرف کو صرف اس لیے سمندروں میں ضائع کیا جاتا ہے کہ منڈی میں پیداوار کی قیمتیں نہ گر جائیں اور دولت مندوں کے منافع کم نہ ہو جائیں ۔

لاگت کو کم کر کے نفع کو بڑھانے کے لیے غیر معیاری اشیا بنائی جاتی ہیں مزدوروں کی چھانٹیاں کی جاتیں ہیں انکی اجرتیں کو کم کیا جاتا ہے جس سے منڈی میں قوت خرید مزید گرنے سے منڈی کی اکانومی مزید برباد ہوتی چلی جاتی ہے جس طرح آج ہو رہا ہے ۔

اسی غیر معیاری اور سستی لیبر کی بنیاد پر آج چین کا حکمران طبقہ ایک بڑی طاقت بن کر ابھرا ہے جہاں مزدوروں کا زبردست استحصال کیا جاتا ہے ۔ اور اب عوام پر اس گھناونی استحصالی بیماری کی وبا پوری دنیا میں سرائیت کر چکی ہے ۔ جو عالمی مالیاتی اور سیاسی عدم استحکام کا سبب ہے ۔

اور ہم پاکستان میں اس کے نہ پورے ہونے والے خواب دیں رہے ہیں ۔ اگر ہم پاکستان کا حقیقی اور سنجیدہ تجزیہ کریں تو ہم پر یہ ثابت ہوگا کہ پاکستان میں کلاسیکل جاگیرداری جس کا ڈنڈ ھورہ پیٹا جا رہا ہے یہ سرے سے ہے ہی نہیں ، بلکہ پاکستان میں کمزور جاگیرداری اور گماشتہ سرمایہ داری ہے ۔ جس میں مضبوط اور فیصلہ کن رشتے سرمایہ داری کے ہیں نہ کہ جاگیرداری کے کیونکہ اگر پاکستان میں کسان ہڑتال کردیتے ہیں یا کسی بھی زرعی پیداوار کی قلت ہو جائے تو اسے کچھ دیر میں درآمد کر لیا جاتا ہے اور یہ نظام کو جام نہیں کرتی لیکن اگر بجلی ، پانی ، گیس ، تیل ، ٹیلی فون ، ریل و ہوائی سفر ، ٹرانسپورٹ ، وغیرہ مکمل بند ہوجائے تو پھر فورا ہر چیز بند ہو جائے گئی ہر پہیا روک جائے گا پورا نظام بے کار اور اپائج ہو جائے اور یہ ہے صنعت اور اس کی طاقت جو پاکستان جیسے کمزور سرمایہ دارانہ ملک میں بھی طاقت ور ترین ہے ۔ اسی لیے پاکستان میں بھی انقلاب کی شکل فرانس انقلاب نہیں بلکہ غریب اتحاد انقلاب ہی ہوسکتاہے ۔ کیونکہ یہاں کی قومی بوژوازی جو اول ہے ہی نہیں اور جو نام نہاد ہے وہ جدید سرمایہ داری کی تاریخ کا بہت دیر سے حصہ بنی جب سرمایہ داری کا آخیر وقت تھا اور جب کوئی خود مر رہا ہو وہ بھلا کسی کو کیا زندگی دے گا بلکہ وہ خود مرنے سے پہلے دوسرے کو مار دے گا جو اس سے مدد مانگے گا۔ اس لیے پاکستان کے حکمرانوں کو یہاں پاکستان میں سرمایہ درانہ نظام قائم رکھنے کے لیے عالمی منڈی میں ایک حقیر اور سستی تحائف کی حیثیت اختیار کر نی پڑی ۔ اسی لیے عالمی مالیاتی نظام کے مرنے کا تعفن سب سے زیادہ پاکستان یا ترقی پذیر ممالک میں زیادہ اٹھ رہا ہے کیونکہ عالمی منڈی کے سمندر میں بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو کھا کر ہی زندہ رہتی ہیں ۔

اس پس منظر اور موجودہ حقائق میں عمران خان یا ایم کیو ایم کا جاگیرداری کے خاتمے اور انقلاب فرانس کا نعرہ آج ایک رجعتی اور پسماندہ نعرہ ہے جو آج قابل عمل نہیں ۔ بلکہ صرف اور صرف ایک جمہوری اور عالمی اشتراکی انقلاب ہی پاکستان کی واحد ضمانت ہے ۔ تاریخ نے جس کے کندھوں پر قومی جمہوری انقلاب کے فرائض کی ادائیگی کا بوجھ بھی لاد دیا ہے جس سے ہم شاید کھبی بھی پیچھا نہ چھوڑوا سکیں ۔ ایک حقیقی غریب اتحاد انقلاب کے لیے مارکسزم پر ناقابل تسخیر کیڈرز کی اکثریت پر مبنی ایک انقلابی پارٹی ناگزیر ہے جس کے بغیر کوئی عوامی انقلاب اپنی آخیری اور حقیقی منزل حاصل نہیں کرسکتا جس کی آج واضح مثال عرب انقلاب کی ہے جو مارکسی پارٹی کی عدم موجودگی میں رسوا ہو رہا ہے ۔ وگرنہ عرب انقلاب کی غریب اتحاد تکمیل کے لیے چوبیس گھنٹے بھی زیادہ تھے لیکن پاکستان میں آج اس انقلابی پارٹی کی ایک مضبوط اور ان مٹ بنیاد قائم ہوچکی ہے جو آنے والے وقت میں اپنا لینن اسٹ اور ٹراٹسکی اسٹ فریضہ سر انجام دے گئی جس کو دنیا دیکھے گئی کیونکہ لازم ہے ہم بھی دیکھیں گئے وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے ۔

اور اگر آج ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ داری مزید چلنے سے قاصر ہے تو پھر پسماندہ اور کمزور ممالک میں یہ کیسے چل سکتی ہے اس لیے جو بھی غریب اتحاد انقلاب کے علاوہ کسی اور انقلاب کا نعرہ مارتے ہیں وہ ماسوائے دھوکہ دہی اور جعل سازی کر رہے ہیں تاکہ انکے اپنے مالیاتی مفادات محفوظ رہیں اور یہ عوام کو ان نعروں سے بیوقوف بنا کر سرمایہ دارانہ استحصال کے جبر کو قائم رکھ سکیں جس کی وجہ سے پاکستان کی اکثریتی عوام بھوک ننگ سے مار رہی ہے ، بے روزگاری کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہے ، جدید اور اچھا علاج ومعالج ماضی کا شاید کوئی قصہ ہو ، شہری صفائی نام کی کوئی چیز نہیں ، پاکستان آج ایک غربت اور غلاظت کا ڈھر ہے جو بڑھتا ہی جا رہا ہے ، کراچی اور پورے پاکستان سے امن کی فاختا ئیں ہمیشہ کے لیے کوچ کر گئی ہیں ، سیاسی اور معاشی استحکام کا لفظ لغت سے خارج کردیا گیا ہے عوام کی زندگی کسی عذاب ، دکھ اور تکلیف سے کم نہیں لیکن حکمران اپنی لوٹ مار ، عیاشیوں اور خرمستیوں میں مشغلول ہیں ۔لیکن عوام ابھی مر نہیں اور نہ ہی کھبی مر سکتی ہے وہ مذاحمت کر رہی ہے بے شک یہ مذاحمت ابھی کمزور ہے لیکن یہ ہمیشہ کمزور نہیں رہے گئی۔انقلاب زندہ باد ۔ غریب اتحاد انقلاب زندہ باد
Ahmed Ali
About the Author: Ahmed Ali Read More Articles by Ahmed Ali: 3 Articles with 2027 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.