میری نظروں کے مقابل سے نہ جانا
منظر....!!
دُنیامیں بسنے والے کروڑوں انسانوں میں سے ہر انسان اپنی زندگی کو فلاح و
کامرانی سے ہمکنار کرنا چاہتا ہے۔ چونکہ اِس کی زندگی اپنے ہم نفسوں کے
ساتھ باہمی لین دین سے عبارت ہوتی ہے ، چنانچہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ
باہمی لین دین کی شریانوں میں ہمیشہ ایمانداری و وفا داری کا تازہ اور گرم
خون دوڑتا رہے۔لیکن جذبات نہیں حقائق کہتے ہیں کہ آج ایسا نہیں ہے۔ عصرِ نو
کاانسان چاہے دُنیاکے کسی بھی خطے میں بستا ہو، متنفّرہے، جھنجلایا ہوا
ہے،اپنے ہم نشینوں کا شاکی ہے۔جس معاشرے کا وہ پروردہ ہے اُسی سے خوف کھایا
ہوا ہے۔کیوں کہ سوسائٹی میں کون، کس وقت، کس سے بے وفائی کربیٹھے گا ، کہنا
مشکل ہے۔عرش اعظم سے نازل شدہ قرآن مرض کی تشخیص نہایت سادہ الفاظ میں مگر
موثر طور پر کرتا ہے۔وفا شعاری کے معاشرے سے رخصت ہوجانے کے طاقتور اسباب
کی نشان دہی کرتا ہے۔ بے یقینی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں تراسیویں سورة
المطففین کی پہلی تا چھٹی آیات ہمارے لیے روشن چراغ کی طرح جل اُٹھتی ہیں:
” تباہی (ہی تباہی) ہے کمی Short Measureکرنے والوںکے لئے، یہ لوگ (ایسی
خصلت کے حامل ہوتے ہیں کہ)جب انسانوں سے ناپ کر (کچھ )لیں تو پورا پورا لیں،
اور جب ناپ کر یا تول کر دینا پڑجائے،توناپ یا وزن کے دوران(ہی اِن کے
لیے)خسران پیدا کردیں۔(یہ کیسی غیر اخلاقی روش ہے اِن کی!)، کیا سوچتے نہیں
یہ لوگ کہ ”یومِ عظیم “کو یہ مبعوث کیے جائیں گے(اپنی بعثتِ اوّل کی اِن بے
ایمانیوں کی پرسش کے لیے!)، ایک ایسے دن جب انسانیت رب العالمین کی بارگاہ
میںکھڑی ہوئی ہوگی !!!“
اِن آیات میں ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی سخت گرفت کے ساتھ شدید سرزنش
کی گئی ہے۔ صاف الفاظ میں کہا گیا ہے کہ کس طرح یہ لوگ لینے میں تو پورا
پورا لینا چاہتے ہیں، مگر جب دینے کی باری آتی ہے تو بڑی ڈھٹائی سے کمی کر
جاتے ہیں یا ڈنڈی مارجاتے ہیں، گھٹا کر دیتے ہیںیاکمتردرجے کی شے سے تبادلہ
کردیتے ہیں۔کیا ہمارے معاشرے میں لین دین کے معاملات میں بددیانتی کے یہ
مکروہ مظاہرے اوربے ایمانی کے یہ منظر عام نہیں ہیں!! کسیVolumetric Scale
کے ذریعہ وزنWeight یا تول کا معاملہ ہو یاکسی بھی Linear Scale کے ذریعہ
ناپ یا Measurement کا معاملہ ہوہر جگہ بددیانت انسان کی کوتاہ نظریاں صاف
دکھائی دیتی ہیں۔بات دراصل یہ ہے کہ انسان کی مفاد پرستی اُس کی عجلت پسندی
کے سبب ہے کہ وہ جلد از جلداپنی زندگی میں مال و دولت کی ریل پیل دیکھنا
چاہتا ہے چاہے وہ کہیں سے بھی اور جس ذریعہ سے بھی فراہم ہو سمیٹ لی جائے۔
فطرتِ انسانی میں موجود عجلت پسندی کی طرف پچہترویں سورة القیامہ کی بیسویں
اور اکیسویں آیات اشارہ ملتا ہے: ”ہر گزنہیں۔ (تمہاری سوچ اور رویہ غلط ہے
دنیاوی اسبابِ (عاجلہ کی محبت میں تم(بڑی عجلت کے ساتھ) گرفتار ہوتے ہو
اور(کچھ تاخیر سے ملنے والے)آخرت( کے انعامات) کو(یکسر) نظر انداز کر دیتے
ہو۔“
یہ ایک ابدی حقیقت ہے کہ ہمارے لینے اور دینے کے پیمانوں میں توازن نہیں
ہوتا۔ چھوٹے سے فائدے کے لئے ہم بے پناہ حریص بنتے نہیں چوکتے۔فریق مقابل
کا نقصان کرنے میں کبھی ہمیں تامّل نہیں ہوتا۔اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ
ہماری” دور کی نظر“ کمزورہے۔ اپنی عقل وفہم کی نظر سے ہم حیات اُخروی کو
”دور سے“ دیکھ نہیں پاتے۔ تدبر فی القرآن کے ذریعے ہی ہم نظر کے اِ س نقص
کو ختم کرسکتے ہیں۔اِس کے لیے ان آیات کی وسعتِ معانی و مفاہیم تک رسائی
اور اسکی گہرائیوں میں غوطہ زنی ضروری ہے ۔ اِس کے منشاءسے قریب تر ہونے کی
سعی نہایت اہم کام ہے۔سمجھنے کی سب سے اولین بات یہ ہے کہ ان آیتوں کو صرف
کسی کاروباری لین دین کے معاملہ کی حد تک محدود نہ کر لیا جائے۔ محض بنئے
کی دوکان یا اِس کی ترازو تک یا سوداگروں کی سوداگری تک محدود سمجھنا ہماری
بھاری غلطی متصور ہوگی۔دراصل یہ آیات انسانوں کی نفسیات کے مکمل جغرافیے کو
ظاہر کرتی ہیں، جس میں صرف اتنی بات نہیں ہے کہ ہم لیتے وقت پورا پورا لینا
چاہتے ہیں اور دینے کی باری آتی ہے تو کمی کرجاتے ہیں۔بلکہ اِس میں یہ بات
بھی شامل ہے کہ ہم اپنا حق لینے کے لئے جتنے حساس اور فکر مند رہتے ہیں،
دوسروں کا حق ادا کرتے وقت ہم میں وہ فکر اور وہ سنجیدگی باقی نہیں رہ
پاتی۔ اکثر تو انسان صرف اپنے لینے پر ہی اور اپنے حقوق کی فراہمی پر ہی
نظر رکھتا ہے۔ دینے کے معاملے میں اور لوگوں کے حقوق ادا کرنے کے معاملے
میں کوتاہ دست اور کوتاہ بین ثابت ہوا ہے۔اِس سے بڑھ کریہ کہ اگر خالص
کاروباری نکتہ نظر سے نفسیات کا یہ دائرہ مزید پھیلتا چلا جاتا ہے تو اُس
کی سوچ اُس سے کہنے لگتی ہے کہ آخر جب مجھے ہی پورا نہیں مل رہا ہے، تو میں
کیوں دوسروں کو پورا دوں!!
ایک حقیقت یہ بھی ہے اور دلچسپ بھی کہ آج کی خالص مادہ پرست(صحیح الفاظ میں
مفاد پرست )حریصِ زر دنیا کے تمام مہذب معاشرے Weight & Measurementکے
قوانین بنا رکھے ہیں، جن کے نفاذ کی کئی ایجنسیاں بھی کام کرتی رہتی ہیں۔
صابن کی ایک ٹکیہ کے ریپرپر بھی اس کا وزن درج ہوناضروری قراردیا گیا ہے۔
لیکن حقیقتِ حال بالکل دوسری ہوتی ہے۔ عموماً معمولی منفی یا مثبت
Variation کی حد تک فرق کی اِجازت مل ہی جاتی ہے ، مگر واقعتا ہوتا کیا
ہے،ہم سب جانتے ہیں۔ Variations مثبت نہیں،منفی ہوتی ہیں۔آخر اس کی وجہ کیا
ہے؟”یوم ِ عظیم “ پر ایمان لانے والا کوئی صنعت کارکیا اِس کی جرآت کر سکتا
ہے!!کسی فیکٹری کا مالک صاحبِ ایمان ہو تو کیا وہ اپنی فیکٹری سے کوئی ایسا
پروڈکٹ نکال سکتا ہے جس کے وزن میں منفی Variationپایا جائے۔ کیا جواز
ہوگا، بجز اِس کے کہ اُسے بھی دنیا کے ساتھ چلنا ہے اور ”یوم عظیم“ پر
ایمان کے باوجود وہ اِس کے تقاضے پورے کرنے سے قاصر ہے۔!! اسی لئے رب
تعالیٰ نے نہایت واضح الفاظ میں، جیسا کہ ہم نے عرض کیا، انسان کی اِس
نفسیاتی بیماری کی وجہ بتائی ہے۔” کیا سوچتے نہیں یہ لوگ کہ ”یومِ عظیم “کو
یہ مبعوث کیے جائیں گے(اپنی بعثتِ اوّل کی اِن بے ایمانیوں کی پرسش کے
لیے!)، ایک ایسے دن جب انسان رب العالمین کی بارگاہ میں کھڑے ہوں گے۔“
سچی بات تو یہ ہے کہ احکم الحاکمین کی طرف سے مطلق یہ اجازت نہیں کہ ہم
نسلِ انسانی کے افراد کے ساتھ لین دین کی مذکورہ بے وفائیاں اختیار کرتے
پھریں اور مسلسل کرتے رہیں؟ یہ بات بھی تو ہے کہ جس کسی کے بھی سلسلے میں
یہ رویہ برتاجائے گا وہ لازماً حضرتِ آدم علیہ السلام کی ہی اولاد میں سے
ہوگا۔ہمیں جس رب العالمین نے زندگی بخشی ،اُسی رب العالمین نے اُس کی بھی
تخلیق کی ہے۔ ظاہر ہے اپنے مظلوم بندے کو احکم الحاکمین عدل و قسط سے کبھی
محروم نہیں رکھے گا۔ کیا وہ اپنی ہی مخلوق میں سے کسی کی حق تلفی برداشت
کرے گا؟کسی کا حلف تلف کرنے والے کو وہ معاف کر دے گا؟کیا ہم یہ سمجھتے ہیں
کہ لین دین کے یہ مکروہ کھیل گرفت میں آئے بغیر رہ جائیں گے؟ انسانیت کوحشر
کے برپا ہونے کی حقیقت کو اورمالکِ یوم الدین کی عدالت عالیہ کو بڑی
سنجیدگی سے لینا ہے۔
بعض لوگ اِس خام خیالی میں ہمیشہ مبتلا رہے ہیں اور آج بھی ہیں کہ اگر ہم
ڈنڈی نہیں ماریں گے اور تجارت میں اصولوں کی بات کریں گے تو کیا خاک تجارت
کر پائیں گے!! دراصل یہ کم عقلی اور کوتاہ فہمی کی بین دلیل ہے۔ اِس حقیقت
پر چاہے کوئی ایمان لائے یا نہ لائے، انسانوں کے رزق اور اِس کے وسائل کی
فراہمی کے تمام تر معاملات رب تعالےٰ کے دستِ شفقت و رحمت کی گرفت میں ہیں۔
وہ اَلرَّزَّاقُ ذُوالقُوَّ ةِ المَتِینہیں۔ترتالیسویں سورةالزخرف کی
بتیسویں آیت میں کتنی عظیم حقیقت کس شان سے ارشاد فرمائی گئی ہے:”(بڑے
شہروں کے یہ بڑے لوگ) اب کیاتیرے رب کی رحمت(اور سامانِ زندگی) کی تقسیم
کاری Distribution(کا کام کریں گے، کیا یہ کام) انسانیت کے سپرد کردیا گیا
ہے؟ (تقسیمِ رحمت تو سراسر ہماری جانب سے ہوتی ہے، ) ہم نے حیاتِ دُنیوی
میں اِن انسانوں کی معیشت (اور ساز و سامانِ زندگی) اِن کے درمیان تقسیم کر
رکھی ہے اورہم نے اِن کے بعض افراد کے درجات کو(معیشت اور سازو سامانِ
زندگی Means of livelihoodکے معاملے میں) اِن کے بعض دیگر افراد پررفعت
بخشی ہے، تاکہ اِ ن کے بعض(صاحبِ مال)ا فراد کے اور بعض دیگر (اصحابِ حاجت)
کے مابین تعاونِ باہمی کی فضاءہمواررہے اور(حقیقت یہ ہے کہ) تیرے رب کی
رحمت(ہی میں سامانِ)خیر موجود ہے،(اور یہی رحمتِ خیراور ارفع ہے ) اُس(مال
و دولت ) سے جو(تیرے شہر کے یہ بڑے) لوگ اِکٹھا اورamassکرنے میں مصروف
ہیں(اور جنہیں تعاونِ باہمی اور فیصلے کے دن سے.... ذہناً و عملاً ....کوئی
سروکارنہیں)۔“
سوچئے کہ دنیا کا کوئی شخص، ہر صبح روزی روٹی کی یا اپنے رب کے فضل کی تلاش
میںجب اپنے گھر سے روانہ ہوتا ہے تواُس کے خواب بھی وہی ہوتے ہیں جو دیگر
افراد کے ہوتے ہیں! مگر شام کوجب وہ اپنے گھر لوٹتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اُس
کے پاس وہ نہیں ہوتا جو دوسرے کمائے ہوئے ہوتے ہیں، یا دوسروں کے پاس وہ
نہیں ہوتا جو یہ خود کما چکا ہوتا ہے۔ جتنا کچھ اسکے رب نے اسے عطا کردیا،
اُسے وہ لے کر چلتا بنا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو اس دنیا کا ہر انسان ضرور
کروڑپتی بن جاتا!!
کاروباری مزاج کے نمائندے کا یہ اندیشہ خام کہ ناپ تول میں ایمانداری نقصان
کی موجب بن جائے گی دراصل قرآن کے اعلان ذَلِکَ خَیر وَاَحسَنُ تَاوِیلاً
کی(نعوذ بااللہ ) نفی متصور ہو سکتی ہے۔اِس لیے اپنے نظریات و خیالات کی
تطہیرکی ہمیں فکر کرنی چاہیے اور اللہ کے غضب سے ڈرنا چاہیے۔ستراویں سورة
اسریٰ کی پیئتیسویں آیت میں رب تعالیٰ کا حکم کس قدر صاف ہے :”اور(جب )ناپ
کر دینا ہوتو(پیمانوں کو) پورا پورابھر کر(Full measureکے ساتھ) دیا
کرو،اور تولو تو(ایسی)ترازو سے(تولو)جو(اپنے تول میں) سیدھی(Straightاور
Accurate Scale والی) ہو۔یہ (ایک عملِ) خیر ہے(جوخود تمہارے اپنے مفاد میں
بھی بہتر) اور انجام ِ کار کے اعتبار سے بھی یہی احسن(طریقہ) ہے۔ “
دراصل خالق کائنات نے پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کو قانونِ عدل کے
مطابق بنا یا ہے، جس کی اصل ”وزن اور میزان“ ہے۔ مثلاً ہم اپنے ہی بدن پر
موجود اِن دو آنکھوں کی پتلیوں کو دیکھ لیں جن میں ایک ملی میٹر کا ہلکا سا
فرق بھی آجائے تو، انسانی خوبصورتی میں زبردست فرق پیدا ہو جائے گا۔ دو
پیروں میں عدل و توازن نہ رہے تو انسان کی چال ہی بدل کر رہ جائے ۔ انسانی
بدن کے اعضاءکا یہ توازن، اشرف المخلوقات کو” وزن اور میزان“ کے تئیں حساس
اورسنجیدہ بننے پرآمادہ نہ کرے تو یہ بڑی بد بختی کی بات ہوگی۔پچپنویں سورة
الرحمٰن کی ساتویں تا نویں آیات اِسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتی ہیں:” اور
اُس نے آسمان کو رفعت بخشی اور(اِس کی پائیداری کے لیے کائنات میں) میزان
وضع کی(جو ہر شے میں اعتدال کی ضامن ہے)۔تم بھی میزان(کے معاملے) میں
طغیانی (و سرکشی کی روش اِختیار )نہ کرنا۔ اور(ناپ)تول (کے معتدل نظام کو)
( عدل و)قسط کے ساتھ قائم کرتے رہنا اور(بذاتِ خود)میزان (ہی) کو خسارہ
پہنچانے کے موجب کبھی نہ بننا۔“کیوں کہ کائنات کی ہر چیز عدل و توازن پر
قائم ہے۔آسمان، سورج، چاند، سیارے ، ستارے،کہکشائیں، غرض کے ہر شے ہمیں
متوازن ومعتدل دکھائی دیتی ہیں۔انسان کی عقل اور جسم کے لیے قطعاً یہ
گنجائش نہیں کہ وہ غیر متوازن سوچے اور غیر معتدل رویہ اختیار کرے۔اُس کی
سوچ کی کوئی لہر، اُس کے جسم سے سرزد ہونے والا کوئی عمل ربِّ کائنات کی
نگاہ سے کبھی اوجھل نہیں ہو سکتا؟ہمیں آج، ابھی اور اسی لمحہ اپنی ذات کے
بارے میں،اپنے متعصبانہ رویوں کے بارے میں ، اپنے برتاﺅ اور اپنی سوچ کے
بارے میں، اپنے معاملات اوراپنے رجحانات کے بارے میں ازسر نو غورکرنے کی
شدید ضرورت ہے۔ نفس کی کھیتی میں اُگ آنے والے جذبات و احساسات کے نوکیلے
کانٹوں کونکال پھینکنے کی ضرورت ہے۔ جسے ہم تزکیہ نفس کہتے ہیں وہ اِسی طرح
ممکن ہے۔ضروری ہے کہ شعور کی آنکھیں کھل جائیں۔ آئیے،ایک بار اور ہم اپنے
سبق کو دہرالیتے ہیں،ہم سورةِ شریفہ کے پیغام کی عطربیزی سے اپنے مشامِ جاں
کو معطر کر لیتے ہیں اور،ایک بارپھر اپنی روح کی فرحت کا سامان کرتے ہیں:
اگر ہمارا رویہ یہ ہوکہ:....ہم ساز و سامان کی ادائیگی تو پوری کرلیں،مگر
جواباًسامان گھٹا کر دیں! ....جب لینا ہو تو پیمانے الگ ہوں اورجب دیا جائے
توالگ پیمانے!....ہمیں توکوالیٹی عمدہ چاہئے، مگرہمارے نوٹ اصلی نہ
ہوں!....ہم اپنے قرضہ جات کی وصولی کے لئے تو ضرور حساس بنے رہیں، مگر
دوسروں سے لیے گیے قرض کی ادائیگی کی فکر نہ ہو!.... لوگوں سے شفقت
وایمانداری کی ہماری فرمائش توہو، مگر خود دوسروں کے ساتھ بدسلوکی اپنے
اوپر جائز کرلیں!....ہم اپنی شریک حیات سے چاہیں کہ وہ ہماری وفا شعار بنی
رہے، لیکن خود ہم بے وفائی کے پیکر بن جائیں!....ہم ملک کی سرزمین کے تمام
وسائل و ذرائع سے فائدہ تواٹھاتے رہیں، مگرملک کے تئیں وفاداری ہمیں ناگوار
گزرے، اِس کے متنوع ٹیکسوں کے چور بن جائیں!....ہمیںخود کی عزتِ نفس کی فکر
تو خوب ہو ، مگر دوسروں کی تذلیل کرنے میں ہمیں باک نہ ہو!....ہم خود اپنی
جان ، عزت اور آبرو کومحفوظ رکھنے کے خواہشمند رہیں، مگر دوسروں کی جان،عزت
وآبرو کے ساتھ کھلواڑ ہمارا شیوہ بن جائے۔!....ہمیں اپنے حقوق تو پورے پورے
چاہئیں، مگر دوسروں کے حقوق کی ادائیگی کی کوئی پرواہ نہ ہو!ایسی ذہنی
ساخت،ایسی نفسیاتی بیماریاں ،اس طرح کی گھناﺅنی ترجیحات اور ایسے مکروہ
اخلاق و اعمال کیوں کر لائقِ تحسین ہو سکتے ہیں؟قرآن اِن پر حیرت کا اظہار
کرتا ہے:” کیا سوچتے نہیں.... نہیں یقین رکھتے یہ لوگ کہ.... ”یومِ عظیم
“کو یہ مبعوث کیے جائیں گے، اُٹھائے جائیں گے(اپنی بعثتِ اوّل کی اِن بے
ایمانیوں کی پرسش کے لیے!)، ایک ایسے دن جب ساری انسانیت رب العالمین کی
بارگاہ میںکھڑی ہوئی ہو گی۔“
کیسے ممکن ہے کہ ہم انسانوں کا حق مارتے رہیں جو ہم ہی جیسے ہیںاوررب
تعالیٰ اس کا نوٹس نہ لے اور ہمیں محاسبہ سے آزاد کردے!اگر ہم اپنی ذات میں
اپنے آپ سے، اپنے گھر میں اپنے اہل وعیال سے، اپنے ماحول میں اپنے رشتہ
داروں سے، اپنے دفتر میں اپنے رفقاءسے،اپنے بازاروں میں اپنے گاہکوں سے ،
الغرض اپنی ذمہ داریوں میں اپنے رب کے وفادار نہ ہوں تو کیا ہمارا رب ہم سے
نہیں پوچھے گا کہ:” تمہارا کیا خیال ہے ، کیا تمہیں دوبارہ اٹھایا نہیں
جائے گا؟ کیا تمہیں قیامت کی حشر سامانیوں سے تحفظ مل گیا ہے؟کیا تم نے”یوم
عظیم“ کو کوئی آسان سادن سمجھ لیا ہے؟ کیا انسانیت ہمارے آگے گھٹنوں کے بل
نہیں کھڑی ہو جائے گی؟ کیا تم نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ تمہارے قول و عمل کے
ہمارے پاس رکارڈ نہیں ہیں؟یہ کہ کیا تمہارا حساب ہوچکا ہے؟ اورسب سے بڑھ
کریہ حتمی سوال کہ کیا ہم رب العالمین، مالکِ یوم الدین نہیںہیں؟ کیاانصاف
ہمارا شیوہ نہیں ہے؟کیا تمہیں ” یو م عظیم “ کو ہمارے سامنے کھڑے ہوکر حساب
دینے کا کوئی احساس نہیں ہے؟دراصل یہ وہ چبھتے ہوئے سوالات ہیں، جن کے
مقابلے کے ہم متحمل نہ ہو سکیں گے کیوںکہ یہ نہایت چونکا دینے والے
مگرحقائق پرمبنی سنجیدگی کے حامل سوالات ہوں گے ۔سوال یہ ہے کہ کیا اِن کے
جواب”یوم عظیم“کو ہم سے بن پڑیں گے۔ظاہر ہے جب ہمارے ذہن ماﺅف ہو جائیں گے
تو یہ سوالات ہم سے اِس دنیا میں بھی اوجھل رہیں گے اور دُنیائے اُخروی
میںبھی ہمیں برداشتہ خاطر کردیں گے۔
کہاں ہیں وہ سینے جن میں ندامت کی کوئی لہر جاگ جائے۔ کہاں ہیں وہ دل جن
میں اپنے شفیق و کریم رب سے خواہشِ درگزری کی کوئی چنگاری موجود ہو اور ایک
بھڑکتے شعلے میںتبدیل ہونے کے لیے بے تاب نظر آتی ہو اورکہاں ہیں وہ لب
جہاں سے ایسی پکار بلند ہوتی ہو جو آسمان کو چیر تی ہوئی اپنے رب کے
دربارمیں پہنچ جائے اور گڑ گڑاتے ہوئے عرض کرے کہ : اے میرے رب.... اے میرے
مالک.... میری درگزری کی خواہش اگر قابلِ اعتنا ءہے تو میری ندامتوں کو
شرفِ قبولیت بخش دیجیو!....کیوں کہ مجھے خبر نہیں کہ زندگی کے کتنے ہی
معاملات میں اورنہ جانے کہاں کہاں میں نے ڈنڈی ماری ہے اورتو ہی اور بس تو
ہی علیم و خبیر ہے۔ |