سقوط غرناطہ

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

(2ربیع الاول:یوم سقوط غرناطہ کے حوالے سے خصوصی تحریر)

”غرناطہ“مرحوم اسلامی اندلس کا آخری شہر تھاجسے عیسائی افواج نے تاراج کیا۔”غرناطہ“ایک شہر نہیں ایک تہذیب اور ایک عظیم تاریخ کااستعارہ ہے۔مسلمانوں نے کم و بیش آٹھ سوسال یورپ کے اس خطے”اسپین“ پر حکومت کی۔مسلمان جب یہاں پہنچے تو اس خطے سمیت پورایورپ بدتمیزی اور بدتہذیبی کامرکزبناہواتھا۔میلوں مشرق اور میلوں مغرب تک کوئی پڑھا لکھا شخص نہیں ملتا تھابلکہ اپنی جہالت اور کم علمی پر لوگ ناز کیا کرتے تھے،حکمران طبقے کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہ تھابادشاہ تک تعلیم سے نابلد اور مرقع جہالت ہوا کرتے تھے ،خاندان کے خاندان اور قبیلے کے قبیلے سالہاسال گزرجانے کے باوجود کوئی پڑھا لکھا شخص پیدا نہیں کرپاتے تھے۔صدیوں کے اس طویل دورانیے میں یورپ نے کوئی قبل ذکر فلسفی یا دانشور پیدا نہیں کیا اور نہ ہی کسی ایک دو کتابوں کاہی پتہ ملتا ہے جو تاریخ کے اس دور میں یورپ میں تدوین کی گئی ہوں۔

اہل مذہب اس پر مستزاد تھے،کلیسا نے تعلیم و تعلم پر پابندی لگا رکھی تھی،قدیم روم اور قدیم یونان کے عظیم الشان کتب خانے اور فلاسفہ کی تحریریں اور انکا علمی وتہذیبی و ثقافتی سرمایاتہہ خانوں میں بند ہوکر دفن ہوچکاتھااور ہر تخت نشین ہونے والا بادشاہ اہل کلیساکو خوش کرنے کے لیے ان تہہ خانوں کے دروازے پر اپنے نام کا سب سے بڑا تالا لگادیتا تھا۔کلیسا نے غسل کرنے کو گناہ قرار دے رکھاتھا چنانچہ اس آسمان نے وہ وقت بھی دیکھا جب میل ،کچیل ،کیچڑ،گندگی اور بدبو سے بھرے ہوئے لوگ اپنے خدا کے بہت پیارے گردانے لگے اور ناپاکی و غلاظت اورآلودگی اہل مذہب کی پہچان بن گئی۔

مسلمان افواج بحری جہازوں پر سوار ہوکر اسپین کے ساحلوں پر اتریں اور انہوں نے طارق بن زیاد کی قیادت میں یہاں حملہ کیا۔اس ساحل کو اسی مسلمان کمانڈر کے نام سے تاریخ نے اپنی کتابوں میں محفوظ کیاہے اور اسے ”جبل الطارق“سے موسوم کیا۔انگریزوں کے تعصب نے اسکو بگاڑ کربدل دیا اوراب اسے ”جبرالٹر“کے نام سے یاد کیاجاتاہے۔عقلمند لوگوں نے طارق بن زیاد کو مشورہ دیاکہ جہازوں کا رخ الٹا کر انہیں تیار کھڑاکیاجائے تاکہ دیاردشمن سے بھاگناپڑے تو تاخیر نہ ہو۔طارق بن زیاد نے اس وقت جو حکم دیاوہ تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھاگیاہے،اس نے جہازوں پر تیل چھڑک کران کو نذرآتش کروادیا اور افواج کوخطاب کرتے ہوئے کہا کہ اب واپسی کے راستے مسدود ہوچکے ہیں لڑو اور فتح یاشہادت میں کسی ایک کاانتخاب کرو۔

مسلمانوں نے اسپین کو”اندلس“کانام دیااور اس ملک میں شاندار حکومت قائم کی ،بہت مضبوط بنیادوں پر وہاں کا تعلیمی نظام قائم کیا۔اس تعلیمی نظام کی بدولت اندلس میں ایک زمانے میں شرح خواندگی سوفیصد تک پہنچ رہی تھی۔اندلس میں مسلمانوں نے ایسے ایسے تعلیمی ادارے بنائے جن کاشہرہ پوری دنیامیں پہنچا اور ا ن تعلیمی اداروں سے فارغ التحصیل ہونے والوں کی گونج آج تک کے ترقی یافتہ دورکے بین الاقوامی اداروں میں بآسانی سنی جاسکتی ہے۔جامعہ قرطبہ اس وقت دنیا کی سب سے اعلٰی یونیورسٹی تھی،دنیائے عیسائیت کے دو پوپ جو اس مذہب کاسب سے بڑا پروہت ہوتا ہے ،انہوں نے جامعہ قرطبہ سے تعلیم حاصل کی۔اس جامعہ میں داخلے کے لیے کسی قوم ،علاقے یا مذہب کی قید نہ تھی دنیا بھر سے آنے والے تشنگان علم و فن یہاں فیض علم سے بہرہ ور ہوتے تھے۔عبدالرحمن ثالث جو اندلس کا تاریخ بادشاہ گزرا ہے اس نے بغداد سے یہودی طبیب ہشدے بن شبروت کو بلوایا جس نے قرطبہ میں یہودیوں کا طبی تعلیمی ادارہ کھولا۔

اعلٰی تعلیم یافتہ افراد اندلس کے بادشاہوں کے درباروں سے بھاری بھاری وظائف پاتے تھے،بادشاہان وقت ہر اہم مسئلے میں اہل علم و دانش کو شریک مشورہ کرتے۔ابن عربی،عبدالرحمن ابن خلدون اور ابن حزم جیسے نابغہ روزگار اندلس کے ہی سپوت تھے۔اندلس کی لائبریریوں کے تذکرے آج تک کی علمی دنیاؤں میں زندہ ہیں،بڑے بڑے رؤسااپنے گھروں کے اندر ایک ہی رنگ کے کتب خانے بناتے تھے جیسے کسی نواب نے نیلے رنگ کاکتب خانہ بنایا تو کتابوں کی جلدیں ،عمارت کارنگ،فرنیچر کی پالش،قالین،گدے اور تکیے تک سب کچھ نیلے رنگ کاہوتااور ہرہرکتب خانے میں سینکڑوں نہیں ہزارہا کتب ہوتی تھیں جبکہ شاہی کتب خانوں میں کتب کی تعداد لاکھوں تک ہوتی تھی۔کتب خانوں کے اندر ایک کمرہ موسیقی کے لیے مخصوص ہوتا تاکہ تھکاوٹ دور کی جاسکے۔کتب خانوں میں مطالعہ کرنے والے دوردراز سے آتے اور کئی کئی دن قیام کرتے اس دوران انکے قیام و طعام اور کاغذ،قلم اور چراغ وغیرہ سب کچھ میزبان کی طرف سے دےی جاتا۔نوابین جب ملتے تو کتب کی کثرت اور مہمانوں کی آمد پر باہم فخر کرتے تھے۔بادشا اس حد تک علم دوست تھے کہ جس کسی کو بادشاہ سے کوئی کام ہوتا تو وہ سفارش یا مہنگے تحفے پیش کرنے کی بجائے کوئی نادر کتاب پیش کر دیتا اور یہ عمل بادشاہ کو خوش کر دیتا اور اس سائل کاکام آسانی سے ہوجاتا۔

کتابوں کی نقل تیارکرنے والے ”نساخ“کہلاتے تھے ،ہر ہر نساخ نے سوسو شاگرد بٹھا رکھے ہوتے اگر کوئی طالب علم ہزار صفحوں کی کتاب لے کر جاتا اور کہتا کہ مجھے آج شام کے بحری جہاز سے قاہرہ روانہ ہونا ہے اور اس کتاب کی نقل تیار کر دیجئے تو نساخ اسے کہتا نمازپڑھ کر لے جائے گا۔اس دوران وہ نساخ کتاب کی جلد کھول کر اسکے اجزا اپنے شاگردوں کو دے دیتا،یہ نوجوان برق رفتاری سے کتاب کی نقل تیارکرتے آج اتنی رفتار سے لوگ پڑھ نہیں سکتے جتنی تیزی سے وہ لکھ لیاکرتے تھے،تآنکہ نماز سے واپسی پردونوں کتابیں اصل اور نقل نئی جلد میں تیار ہوتیں۔ قرطبہ کے جنوبی محلے میں ایک سو ستر کے لگ بھگ خواتین خط کوفی میں قرآن لکھا کرتی تھیں،ان خواتین کا خط نہایت عمدہ ہوتا تھا اور مردوں کی نسبت سستے ہدیے پرقرآن کا نسخہ فراہم کر دیتی تھیں۔

قرطبہ اندلس کا دارالخلافہ رہا ہے اس کے علاوہ غرناطہ،اشبیلیہ،ملاغنہ اور دانیہ سمیت کتنے ہی خوبصورت شہر اس دور میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آماجگاہ تھے۔اسلامی اندلس میں ہر دوشہروں کے درمیان پکی سڑکیں تھیں اور مسافر دو کوس بھی نہ چلنے پاتا تھا کہ اسے کوئی مسافرخانہ مل جاتاجہاں اسلی مفت خدمت کی جاتی تھی۔سڑک کے دونوں طرف پھل دار درختوں کی لمبی لمبی قطاریں تھیں۔شہروں میں بھی پتھر کی پختہ سڑکیں تھیں ہر گھر والے شام کو رات بھر کیے ایک چراغ روشن کردیتے تھے جس سے گلیاں اور پھر پورا شہر روشن روشن رہتا،دن نکلنے پر ایک گدھاگاڑی والا ہر ہر گھر سے کوڑا اکٹھا کر لیتا۔ہر ہر گھر تک پانی کی فراہمی اور نکاسی آب کا بہترین نظام تھا،مسلمانوں کے بعد عیسائیوں نے ایک علاقے کاآبی نظام کھودا لیکن پھر نہ بناسکے اسکے بعد انہوں نے پھر کسی نظام کو نہیں چھیڑا۔

اندلس میں مسلمانوں کے زوال کے بعد تین سو سال تک جرمنی،اٹلی اور فرانس کے شاہی درباروں میں مسلمانوں کی تدوین کردہ کتب کے یورپی زبانوں میں ترجمے ہوتے رہے،اس مقصد کے لیے وہاں کے بادشاہوں نے بھاری تنخواہوں پر عربی زبان کے ماہرین تعینات کررکھے تھے جنہوں نے سینکڑوں یا ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں کتب کا عربی سے یورپی زبانوں میں ترجمہ کیا۔ان تراجم کے بعد یورپ اس قابل ہو سکا کہ وہ سائنس کے میدان کوئی کارہائے نمایاں سرانجام دے سکے۔مورخین نے ایسے شواہد بھی پیش کیے ہیں جن سے متعصب یورپیوں کی بددیانتی ثابت ہوتی ہے کیونکہ مسلمانوں کی کتب کی کتب کو یورپیوں نے ترجمہ کر کے تو انکو اپنے نام سے منسوب کرلیا اوراندلسی مسلمانوں کی کئی ایجادات تک کوانہوں نے اپنی تحقیق کا نتیجہ قرار دے دیا۔اتنے بڑے پیمانے پر تراجم اور سرقہ کے باوجود آج تک مزکورہ ملکوں کے عجائب گھروں کے تہہ خانے مسلمانوں کی لکھی گئی ان کتب سے بھرے پڑے ہیں جن پر کوئی کام نہیں ہوا۔

آٹھ سوسالہ دور اقتدار میں مسلمان اقلیت میں رہے اور افسوس کی وہاں مسلمانوں کی مقامی نسل تیار نہ ہو سکی ۔مسلمانوں کے باہمی قبائلی جھگڑے اور اقتدار کی رسہ کشی نے انہیں اندر سے کھوکھلا کر دیا۔ہر مشکل وقت میں مشرق سے کمک آجانے پر وہاں کے مسلمان اپنے پاؤں پر کھڑے نہ ہوئے اور ان میں مقابلہ کے لیے اعتماد نفسی ہمیشہ قلت کاشکاررہا۔زن زر اور زمین نے وہاں کے مسلمانوں کو تیزی سے روبہ زوال کرنا شروع کر دیا۔بڑی ریاستوں کے امرا کی سپاہ کی تعداد انکی حرم کی عورتوں سے کم ہوتی تھی اور آہستہ آہستہ ان کے اندر کم علمی،احساس برتری اور تکلفات اس حد تک در آئے کہ قانون خداوندی نے وہاں سے مسلمانوں کا بوریہ بستر گول کر دیا۔مسلمانوں کے دوراقتدارکے خاتمے کے بعد عیسائیوں نے اندلس کی مسلمان آبادی پر اسی طرح ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے اور انکی نسل کشی کرنے کی کوشش کی جس طرح مہذب و متمدن صلیبی افواج نے گزشتہ صدی کے آخر میں بوسنیا ہرزگوینیامیں مسلمانوں کو تختہ مشق بنایااور جس طرح امریکی و یورپی روشن خیال افواج عراق اورافغانستان سمیت پوری دنیا میں درندگی ،سفاکی اور بربریت کی تاریخ رقم کر رہی ہیں۔
Dr. Sajid Khakwani
About the Author: Dr. Sajid Khakwani Read More Articles by Dr. Sajid Khakwani: 470 Articles with 524298 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.