وطن عزیز پاکستان جسکی بنیاد ”
پاکستان کا مطلب کیا۔ لا الہ الا اللہ“ کے انتہائی مضبوط ستونوں پر رکھی
گئی جس کی بنیادوں میں لاکھوں شہداءکا لہو شامل ہے، جس کے حصول کیلئے ہمارے
بزرگوں نے اپنے تن، من، دھن کی بازی لگا دی، اس لئے کہ عزت و آبرو اور
آزادی کے ساتھ سر بلندی اسلام کیلئے باوقار انداز کے ساتھ مسلمانان ہند،
حقوق العباد اور حقوق اللہ کو حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بتائے
ہوئے بہترین ضابطہ حیات کے مطابق احسن طریقے سے ادا کر سکیں، جہاں کسی کی
حق تلفی نہ ہو، بلکہ بھائی چارے کی فضاءمیں معاشرہ ایک روشن مثال بن کر
پروان چڑھ سکے،، مگر اپنے قیام کے فوری بعد ہی معمار وطن حضرت قائد اعظم کی
رحلت بعد بد قسمتی سے نوزائیدہ پاکستان وطن دشمن غدار عناصر کے ہاتھ چڑھ
گیا جنہوں نے اس ملک کے بخیے اُ دھیڑنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور قیام سے
لیکر آج تک اسے گِدھوں کی طرح نوچ نوچ کر کھاتے رہے، جس کو روندنے اور
برباد کرنے میں ہر شعبہ ہائے زندگی کے تمام عناصر نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا
اور اس کے معصوم اور بھولے بھالے عوام کو یرغمال بنا کر رکھ دیا اور کرپشن
کی ایسی داستان رقم کی کہ دنیا ورطہ حیرت میں گنگ ہو کر رہ گئی، ان
داستانوں کو وقتاََ فوقتاََ میڈیا نے خبروں کے ذریعے عوام تک پہنچایا مگر
ہمیشہ کی طرح محاسبے کی بجائے ایک دوسرے کا پردہ رکھ کر معاملہ گول کر دیا
جاتا ہے، کیونکہ کرپشن کے اس حمام میں سبھی ننگے ہیں، بلکہ ننگے پن میں بے
شرمی کی تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں، کرپشن کے بدنام زمانہ چیمپیئنز کے
درمیاں ایک طبقہ ورکس ڈیپارٹمنٹس کے ایکسین حضرات کا بھی ہے، جن کے ذمے اس
ملک کی تعمیر و ترقی کا کام ہے، مگر تعمیر و ترقی کی آڑ میں کمال جعلسازی
کے ساتھ شرافت کے لبادے میں اس ملک کو دونو ں ہاتھوں کے ساتھ لوٹ لوٹ کر
جتنا ایکیسن مافیا نے کھایا ہے اتنا شیاد ہی کسی اور نے کھایا ہوِ، ایکسین
مافیا کرپشن اس صفائی سے کرتا ہے کہ اس طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا، گویا
مہذب ڈاکو کا روپ دھارے بیدردی سے وطن عزیز کی جڑوں کو دیمک کی طر ح کھایا
جا رہا ہے اور ان کے سیاہ کارناموں کی بدترین مثالیں بھری پڑی ہیں، گویا
تعمیراتی منصوبوں کا آغاز ہی بد عنوانی سے کیا جاتا ہے، ابتدائی اسٹیبلشمنٹ
سے لیکر آخر تک مطلوبہ لاگت سے کہیں زیادہ رقم مختص کی جاتی ہے تا کہ کھل
کر کھانے کا موقع ملے، پھر اسی پر بس نہیں کی جاتی بلکہ ناقص، غیر معیاری
اور گھٹیا ترین میٹریل کے استعمال سے روڈ یا بلڈنگ کا بیڑا غرق کر دیا جاتا
ہے جو کہ اپنی تعمیر کے بعد کچھ ہی مہینوں میں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتا ہے،
انسان کے فطرتی لالچ کے پیش نظر قبل از تقسیم برصغیر پاک و ہند میں C+W
ڈیپارٹمنٹ کے قیام کے ساتھ ہی تمام متعلقہ انجینئرز کا کمیشن مقرر کردیا
گیا تھا تا کہ وہ دلجمعی سے کام کریں، برسہا برس گزر جانے کے بعد بھی
انگریزوں کے مقرر کردہ قوانین کے مطابق ہی آج بھی کام جاری و ساری ہے، لیکن
لالچ کے اندھے پن نے ایکسین مافیا اور متعلقین اسی ڈی اوز، سب انجینئرز،
سبھی اس حمام میں ننگے ہیں، بلکہ اب تو اس بہتی گنگا میں اوپر سے موجود ایس
ای، چیف انجینئر، چیف سیکرٹری اور سیاسی شخصیات بھی مستفید ہونے لگی ہیں،
تبادلوں کیلئے سیٹیں کروڑوں میں بکنے لگی ہےں، ایسے میں جب اندھا دھند بندر
بانٹ ہو گی تو کام بھی اسی معیار کے ہونگے، جس کی ایک مثال کراچی میں اربوں
روپے کی لاگت سے تیار ہونے والے شیر شاہ پل کی ہے جو اپنی تعمیر کے کچھ
عرصہ بعد گر گیا اور بے شمار قیمتی جانیں بھی ساتھ لے گیا اور قومی خزانے
کا کثیر لاگت نقصاں ہوا جس پر تعمیرات کمپنی کو بلیک لسٹ قرار دے دیا گیا
مگر بد نصیبی کی انتہا دیکھئے اس ناقابل بھروسہ کنسٹرکشن کمپنی کو اسلام
آباد میں زیرو پوائنٹ انٹر چینج کا ٹھیکہ دے دیا گیا، جس نے بے ضابطگیوں
اور بے عنوانیوں کی انتہا کردیا اور ایسی بے ڈھنگی چال سے انٹر چینج کی
تعمیر شروع کی جس میں ابتداءہی سے بہت سی خامیاں موجود تھیں، اپنی مطلوبہ
لاگت سے کہیں زیادہ لاگت میں تیار ہونے والا یہ انٹر چینج اپنی تعمیر کے
مکمل ہونے کے فوری بعد جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے لگا، سڑکوں پر
گڑھے پڑ گئے، بیم اور پلرز بیٹھنے لگ گئے، اور ایسا لگتا ہے کہ شاید ہی کچھ
عرصہ میں یہ بھی کراچی کے شیر شاہ پل کی طرح منہدم ہو جائے گا، زہے نصیب آپ
کو ہمسایہ ملک چین کے دو واقعات سناتا ہوں، ایک مرتبہ چین میں ایک طالب علم
نے ایڈیٹر کی ڈاک میں خط لکھا کہ نئی تعمیر ہونے والی سڑک جگہ جگہ سے بیٹھ
گئی ہے جس میں بارش کی وجہ سے پانی جمع ہو گیا ہے اور انہیں سکول جانے
کیلئے وہاں سے گزرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے نا صرف ان کے کپڑے خراب ہوتے
ہیں بلکہ انہیں شدید دشواری کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے وہ اخبار چیئرمین
چائنہ ماﺅ زے تنگ کی نظر سے گزرا تو ماﺅ زے تنگ اپنی سائیکل پر سوار ہو کر
موقع پر پہنچ گیا، جگہ کا جائزہ لیا، واقع ہی بات سچی تھی اور گزرے والوں
کو دشواری کا سامنا تھا، ماﺅ نے اسی جگہ پر اپنا کیمپ آفس لگایا اور روڈ
بنانے والے تمام متعلقہ ہائی وے انجینئرز کو طلب کر لیا، جان چھڑوانے کیلئے
ہائی وے انجینئرز نے مختلف توضیحات پیش کیں، حتیٰ کہ کچھ نے کہا کہ جناب
نیچے زمین نرم ہے جس کی وجہ سے سڑک بیٹھ گئی ہے، ماﺅ نے کہا کہ زمین کی
فوری طور پر کھدائی کی جائے اور مٹی کے ٹیسٹ کئے جائیں کہ سڑک کیوں بیٹھ
گئی، گہری کھدائی کے بعد تمام انجینئرز کو حکم دیا کہ نیچے اتر کر زمین کا
معائنہ کریں، جیسے ہی وہ لوگ نیچے گئے تو ماﺅ نے اوپر سے مٹی ڈلوا کر گڑھا
بند کروا دیا اور تمام کرپٹ انجیئرز کو زندہ دفن کر دیا، اس بارے میں بیجنگ
کے اس روڈ پر آج بھی ایک تختی آویزاں ہے اور پورا واقع اور انجینئرز کے نام
لکھے ہوئے ہیں، دوسرے واقعے میں سابق وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو
چین کے دورے پر گئے تھے ان کی چو این لائی کے ساتھ میٹنگ چل رہی تھی کہ
اچانک لائٹ آف ہو گئی، چو این لائی نے میٹنگ کینسل کردی اور بھٹو کو ہوٹل
میں بھجوا دیا مگر ٹھیک 1 منٹ بعد بجلی دوبارہ آگئی، لیکن شو این لائی نے
بجلی کے محکمہ کے تمام انجینئرز کو طلب کرلیا وجہ پوچھی گئی تو کوئی بھی
تسلی بخش جواب نہ دے سکا، چو این لائی نے ان سب کو دیوار کے ساتھ کھڑا کروا
کر شوٹ کروا دیا جن کے خون کے دھبوں کے نشان آج بھی وہاں موجود ہیں، اس پر
شیشہ لگا کر اسے بند کر دیا گیا اور اس پر تمام واقع اور انجینئرز کے نام
لکھے ہیں، لیکن دونوں جگہ لکھی گئی تحریروں میں ایک بات مشترکہ طور پر لکھی
گئی کہ ” یہ وہ لوگ ہیں جو چائنہ کا کھاتے ہیں اور اسی کو نقصان پہنچاتے
ہیں“ اس طرح ان کو عبرت کا نشان بنا دیا گیا کہ آج تک چین میں اس طرح کا
کوئی دوسرا واقعہ رونما نہیں ہوا، کاش کے وطن عزیز میں بھی ایسا ہو۔۔۔۔! |