محمد نورالدین مصباحی
آج ہندوستانی مسلما نوں کی زبوں حالی پر تبصرہ و تجزیہ بلا تفر یق مذہب و
ملت تقریبا ہر کس و نا کس کا مو ضوع سخن بنا ہوا ہے لیکن ان سب کے با وجود
اگر یہ کہا جا ئے تو بیجا نہ ہو گا کہ اس پر سنجید گی سے کچھ مثبت پیش قد
می کا گراف اب تک صفر رہا ہے ۔اگر صرف معا شی زبوں حالی کی بات کریں تو اس
میں مسلما نو ں کے چندذاتی طبقات مثلا ورجن اور چلیا کے علاوہ ہر طبقے نے
آج اس میدان بلا خیز میں دلتوں کو بھی کوسوں پیچھے چھو ڑ دیا ہے۔ میر ا
یقین ہے کہ اگر اسے درست تحقیق و انکشاف کے ترا زو سے پر کھا جا ئے تو بہت
ممکن ہے کہ یہ غربت وافلاس کے عالمی ریکار ڈز کو بھی توڑدیں جس کی سب سے
بڑی وجہ یہ ہے کہ ہندوستان جیسے ملک میں غر بت کو کبھی بھی سیا سی مفاد پر
ستی سے سے پرے ہوگر سنجیدگی سے نہیں لیا گیا اور اس سیا سی چپقلش اور
اقتدار کی ہوس نے ہمیشہ ہر لحاظ سے صرف غریبوں کا ہی خون کیا ہے ،کیوں کہ
چاہے معاملہ افراط زر کا ہو یا پھر اشیا کی گرا نی کا سب میں صرف غریب ہی
پستے ہیں۔ حکو مت کی اسی گندی ساکھ نے عوام کو ہمیشہ یہی اشارہ دیا ہے کہ
دنیا کے سب سے امیر ترین ملک میں ہی سب سے غریب افراد بستے ہیں اور یہ
حقیقت بھی ہے کہ سر زمین ہند میں غریب ہی امیروں کو مزید امیر بنا رہے ہیں
کیوں کہ یہاں شخصی اجارہ داری ملکی معیشت پر بھی غالب ہے، جس سے ملک کی
ساری آمدنی صرف چند ہا تھوں میں سمٹ کر رہ جا تی ہے ،اس موقعے سے اگر یہ
بھی کہیں تو خلط مبحث نہ ہو گا کہ عوام الناس اور بالخصوص مسلما نوں کا آج
اس دورا ہے پر پہونچ جا نے کی واحد وجہ فلسفہ اسلام کے خلاف خالص خود ساختہ
نظاموں کی با لا دستی ہے ، جس میں ہر جگہ انسانی تلون کوہی فو قیت دی جا تی
ہے ۔
آج ہندوستان میں تقریبا ایک عرب اکیس کروڑ سے زیا دہ افراد بستے ہیںلیکن
صرف چند ہی سر آسمان کی بلندیوں پر ہیں ورنہ بقیہ کی تو صحیح سے زمین پر
بھی پاؤں نہیں ٹکتے ان میں اکثریت کو دو وقت کی روٹی بھی میسرنہیں ہو تی ۔آبا
دی کے صرف بارہ لا کھ افرادمعا شی طور پر خوشحال ہیں جو آبا دی کا محض ایک
فیصد حصہ ہے یعنی قو می آمدنی کے تقریبا 30 فیصد حصے پر یہی ایک فیصد طبقہ
قا بض ہے اور بقیہ ۹۹ فیصد آبادی 70 فیصد کے مشترک حصے دار ہیں ،جن میں کچھ
ایسے بھی ہیں جو اس خط سے بھی نیچے ہیں اسی کے ساتھ ”آمدنی اٹھنی خرچہ رو
پیہ “کا معاملہ ان میں سے اکثر کی دامن چولی کا ساتھ ہے ،اگر امیر وغریب
میں بلحاظ شرح آمدنی خر چ کو دیکھیں تو یہاں امیروں کے مقا بلے غریبوں ہی
کو زیا دہ ادائیگی کر نی پڑتی ہے مثال کے طور پر غریب کے مقا بلے دس گنا
زیادہ امیرکواپنی ایس یو وی کے لئے وہی ادائیگی کر نی پڑتی ہے جو غریب کو۔
جبکہ غریب کو اپنی جین سیٹ یا آب پا شی کے مو ٹر ٹنکی کو بھر نے کے لئے
اپنی کئی ضرو رتوں سے سمجھو تہ کر نا پڑتا ہے۔ اس طرح جب امیر وغریب میں فی
شخص آمدنی و خرچ کے لحاظ سے مقا بلہ کیا جا ئے تو دونوں میں آسما ن و زمین
کا فرق صاف دکھتا ہے ۔اسی طرح اقتصادی دوڑ بھاگ میں ہر جگہ غریب ہی ٹھکرا
ئے جا تے ہیں اور وہیں امرا کا پر جوش استقبال کیا جا تا ہے جس کی صاف
ستھری مثال laone وغیرہ کی ہے ۔
نجی معاملات سے لے کر حکو متی مسائل تک ہر جگہ انھیں اپنی کا میا بیوں کے
لئے رشوت کی خطیر رقم ادا کر نا ایک مجبوری سی بن جا تی ہے یا پھر اپنی یا
اپنے اولا دوں کی قسمت سے سمجھو تہ کر نا پڑتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان
میں خط افلاس سے نیچے جی رہے افراد سال بھر میں 9000 ملین صرف رشوت کے طور
پر دے ڈالتے ہیں ۔
اب ایسے پر فتن ما حول میں جہا ں خود ملک کا ایک چو تھا ئی کی یہ صورت حال
ہو وہا ں مشہور زمانہ اقلیت مسلمانوں کی قسمت کا اندازہ لگا نا کیا کچھ
مشکل امر ہے۔ لیکن معاملہ یہیں تمام نہیں ہو تا بلکہ مسلمانوں کے معا شی
زبوں حالی کا آج ان کے مذہبی ،لسانی، سیا سی اور اخلا قی صورت حال پر بھی
گہرے نقوش مرتب ہوے ہیں۔ مذہب کو دیکھیں تو یہاں سب کی تو سب کچھ ہے پر
اپنی کچھ بھی نہیںایک طر ف تو ان کی مذہبی گیتا پر انگلی اٹھ رہی ہے تو
ایوان بالا و زیریں کے ساتھ ساتھ پورا ملک احتجاج میں شریک ہو رہا ہے لیکن
دوسری طرف پوری عمارت ہی منہدم کی جا رہی ہے اور کوئی بات نہیں! ایک طرف
ایم ایف حسین جنھوں نے وطن عزیز کو اپنے فن کے ذریعے رشک لیلیٰ بنا یا تھا
ان کی معمو لی سی اکثر یتوں کی مذہبی دل آزاری نے انھیں اپنی جان کی عصمت
کے لئے وطن عزیز کو خیر آبا د کہنے پر مجبور کیا۔ لیکن دوسری طرف ہندوستان
کی شان و شوکت کا بہا نہ بنا کر کروڑوں لو گوں کی دل شکنی کر نے والے شیطان
رجیم کو آزادی اظہار ا ئے کے نام پر مدعو کیا جا رہا ہے ،کیا اس سے پہلے
انگریزی ادب کے ذریعے ملک کو ثریا کی بلندی عطا کر نے والے دیگر شخصیتیں
ہندی نژاد نہ تھیں ؟لیکن افسوس کہ ہمارے دفاع میں غیر تو غیر اپنے بھی سر
اٹھا نے کی ہمت نہیں جٹا تے ۔رہاسیا ست کا مسئلہ تو اپنی کو ئی پہچا ن ہی
نہیں ،جبکہ ملک کے کئی ایک اسمبلی حلقوں میں مسلمان فیصلہ کن حیثیت رکھتے
ہیں ،مسلما نوں کا اتحاد چونکا دینے وا لے نتا ئج بر آمد کر سکتے ہیں ،ان
کی ایکتا کسی کا کھیل بگاڑ بھی سکتی ہے اور بنا بھی سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک
المیہ ہے کہ فلک شگاف نعروں اور کھوکھلے وعدوں یا پھر چندن کے ہار کی لالچ
دیکر مسلمانوں کا وو ٹ حاصل کرلیا جاتاہے اور صرف انتخابی اکھا ڑ ے میں
تمام پارٹیاں ان کی طرف سبز با غ دکھاکرمتوجہ ہو جاتی ہیں اور پھر انکے
ساتھ وہ ہوتا ہے جس کو بر سوں سے مسلمانوں نے نہ صرف یہ کہ سنا ہے بلکہ
عینی مشاہدہ کرتے آئے ہیں ،حالاں کہ مسلمانوں کواب ہوش کا ناخن لینا ہی
چاہیے کہ سیاسی پارٹیاں جتنا مسلمانوں کے ووٹوں کے رسیاہیں اس سے کہیں
زیادہ وہ ان کے تقسیم و افتراق کے دلدادہ ہیں کیوں کہ انھوں نے ہمیشہ اس
ہدف کو مہمیز بنا یاہے کہ کہیں کو ئی مسلم سیاست مستحکم نہ ہوسکے وہیں
دوسری طرف مسلمانوں کی نادانی یا جہالت کا عالم یہ ہے کہ انھیں اپنی عاقبت
اندیشی کی فکر نہیں ہوتی۔ بعض تو از خود کوئی فیصلہ لینے کی بھی صلاحیت
نہیں رکھتے کہ اپنا قیمتی ووٹ کسے دیں ،اب ایسے وقت میں جو موقع پرچو کا
لگا تے ہوئے ان کا منھ میٹھا کر دے ووٹ اسی کی جھولی میں پڑتاہے ۔لہذا
اتحاد کے پر چم تلے اندرونی و بیرونی تمام تر اختلافات سے اوپر اٹھ کر کچھ
کرنا وقت کی سب سے بڑ ی مانگ ہے ۔
مسلمانوں کے اخلاق و کردار کی بات کریں توآج ہم کہا ں کھڑے ہیں اگر اپنے
مذہب و آئین کے ترازو پر پرکھیں تو ہم صرف اپنی دینی بیزاری کو اپنی تباہی
کا ذمہ دار قرا دے سکتے ہیں ۔اگر چہ آج شعائر اسلام کو دہشت گر دی کی پہچان
بنادی گئی ہے ۔آج ہم اپنے اسلامی تشخص کے ساتھ اپنی ہی سر زمین پر غیروں کی
نگاہوں میں کانٹے کی طرح چبھتے ہیں لیکن یہ ہماری ہی کوتاہیوں کا نتیجہ اور
دین و شریعت سے دور ی کی سزا ہے، کہ ہم نے اپنی قوت و فراست اور مذہبی شعار
کونہیں منوایا،ہم نے اس کے لئے اس سرزمین پر اپنی کوئی نئی تاریخ نہیں رقم
کی تو نتیجةًتاریخ کا حصہ بن گئے اور دوسروں کے نشانے لگ گئے۔ ہمیں ہزار ہا
پاکیو ں کے باوجود دہشت گردی کا ناپاک لبادہ اڑھا دیا گیا۔ کیوں کہ آج دنیا
کا پہیہ ”جس کی لاٹھی اس کی بھینس “کے پٹری پر گامزن ہے چونکہ میڈیا میں
ہماری کوئی نمائندگی نہیں اس لئے ہم اپنا دفاع بھی نہیں کر سکتے لہذا آج
ہمیں دینی وعصری تعلیمات کے ساتھ ساتھ سیاسی ،صحافتی اور جدید ذرائع ابلاغ
میں مکمل حصہ داری ہی ہماری پسماندگی کا حل ہے ۔
آج جبکہ حکومت کے تئیں عام رجحان غیر سنجیدہ ہے ہر ایک نے ماضی تا حال تمام
حکومتوں کی پالیسی اور مفاد پرستی کو پہچان لیا ہے ۔مہنگائی کی مار سے زخم
خوردہ تمام افراد نے اپنے تئیں حکومت کی غیر حساسیت کو بھانپ لیا ہے ،ا یسے
مختلف حساس مسائل سے کچلے یہ عام افراد جب مشترکہ سوچ کے تحت اپنے قیمتی
ووٹوں کا استعمال کرتے ہیں تو موجودہ نئے اور پرانے تمام قابل اقتدار
پارٹیوں کو حیرت انگیز طریقے سے بے دخل کر سکتے ہیں۔ کیوں کہ آج تمام
پارٹیوں کا رویہ یہی بتاتا ہے کہ وہ ذاتی مفادات اور کرسی کے داﺅ پیچ میں
بم دھماکے وغیرہ تو چھوڑئیے ایک دو تہائی آبادی کا بھی سودا کر سکتی ہیں۔
کیا یہ حقیقت نہیں کہ بم دھماکہ اور دیگر فرقہ پرستانہ تخریب کاریاں کسی
سیاسی پالیسی کے تحت ہی انجام پاتے ہیں۔ کیا ریزرویشن کا فیصلہ مضحکہ خیز
نہیں جو آدھے گلاس پانی سے غسل کا حکم دینے کے مترادف بھی نہیں ! پھر سلمان
رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے بدنام زمانہ گستاخوں کی ہندوستان جیسی جمہوریت
میں آمد کی اجازت دیکر کروڑوں کی زخم میںنمک چھڑکنا اور پھر آگے چل کر
مسلمانوں کی دفاع کے نام پر ان کی ووٹ بینکنگ کرنا یہ سب کیا اشارے دے رہی
ہیں! کہ ایک طرف درد کی دوا پائی تو دوسری طرف درد بے دوا پائی۔ آج چو ں کہ
پوری، پوری فضا ہی آلودہ ہو چکی ہے ،کوئی سادہ لوحی سے نہ ملک سے غربت کو
دور کرنا چاہتا ہے اور نہ بد عنوانی کو اور نہ ہی فرقہ پرستی کو اور بھلا
یہ ممکن بھی کیسے ہو سکتا ہے جبکہ قائد ہی سراپا آلودہ ہو جب سیاست و حکومت
کی پوری ساکھ ہی کرپٹ ہے گھر کا ہر ہرفرد ہی بد عنوان ہے تو اسکے دفاع
کیلئے اب فرشتے کہاں سے آئیں گے بد عنوانی کی جنگ کیلئے آپسی جنگ کرنی
ہوگی، دوست کو دشمن اور اپنے کو بیگانہ بناناہو گا اور یہ تو تقریبا ناممکن
ہی ہے ۔
لہذا آج ہم سب برادران وطن کو ایک نئی تاریخ جنم دینی ہوگم پورا ماحول ہی
چینج کرنا ہوگا، اگر ہم پاک اور امن و سکون سے جگمگاتا ہوا ہندوستان دیکھنا
چاہتے ہیں۔ مسلمانوں کو کسی صالح اور قوم کے ہمدرد پیشوا کی رہنمائی میں در
در جاکر تفکیری، تعمیری اور تشکیلی مزاج بنا کر تبلیغ بلیغ کرنی ہوگی تب
کہیںممکن ہے کہ ہماری کوئی حیثیت نمایاں ہو سکے ورنہ آج کے اس خود غرضی اور
شخصیت پرستی کے ماحو ل میں جہاںاپنے بیگانے کا فرق بھی ایک سنگین مسئلہ بن
چکا ہے کسی کو اتنی فکرکہاں کہ ہماری بھول چوک ہمیں کتنے عمیق وادی میں دے
مارے گا ہے۔لہٰذا ہمیں کیا کیسے کچھ کرنا چاہیے اور جہالت کی حد تو یہ ہے
کہ رات میں اگر اسکے گلے میں چندن کا فریبی ہارڈال دیا جائے تو آج وہ کہیں
اور تھے کل کہیں اور نظر آنے لگتے ہیںلہذا کسی نیشنل تحریک و تنظیم کی مدد
سے پہلے ایک مستقبل خیزفضا ہموار کرنے کی ضرورت ہے اور پھر سب کو کسی ایک
پلیٹ فارم پر جمع کرنے کیضرورت ہے تب کہیں بات بن سکتی ہے ورنہ صرف تبصرے
سے کوئی فائدہ ہے نہیں۔ آج کسی مشنری کے تحت عملی اقدامات کرنے کی ضرورت
ہے۔
جامعہ حضرت نظام الدین اولیا ء دہلی |