"سانچ"
اباجی کیلے کھا لو بہت اچھے ہیں یہ دو سیب بھی لے لو میں نے بس میں خریدے
تھے ہم فجر کے وقت سے بس میں بیٹھے ہوئے تھے اماں کہتی تھی تیرے ابے کو آٹھ
بجے وہاں لایا جائے گا جلدی جانا ہے ورنہ ملاقات نہیں ہوگی لیکن تجھے تو یہ
بہت لیٹ لے کر آئے ہیں بڑے دنوں بعد تجھے دیکھا ہے اب کب گلے سے لگاﺅ گے
مجھے نیند نہیں آتی تیرے بغیر رات کو جب گلی میں کتے بھونکتے ہیں تومجھے
بہت ڈر لگتا ہے میں روتی ہوں ماں کاکے کوسلا کر مجھے اپنی گود میں لے لیتی
ہے ابا جی آپ گھر آکر کیوں نہیں سوتے پہلے تو ہر رات کو کام سے فارغ ہوکر
آجاتے تھے کیا اب رات کو بھی کام کرنے لگے ہو ؟تجھ سے چلا تو صحیح نہیں
جاتا انھوں نے تیرے ہاتھوں کوکیوں زنجیر سے باندھا ہوا ہے ایسی زنجیر تو ہم
اپنی بھینس کو دھیان سے باندھتے ہیں کہ کہیں اسکے گلے پر نشان نہ پر جائیں
انھوں نے تیرے دونوں ہاتھوں کو باندھ کر تالا بھی لگا رکھا ہے ابا تیرے سے
چلا تو جاتا نہیں پھر کیوں یہ سب کچھ؟ جی ہاں ایسے سینکڑوں درد بھرے جذباتی
واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں جب سینٹرل جیل ساہیوال سے اوکاڑہ پیشی کے لیے
قیدیوں کو لایا جاتا ہے سب سے انسانیت سوز لمحہ تو وہ ہوتا ہے جب کوئی
معذور قیدی (ٹانگوں سے معذور) کو ہتھ کڑی لگا کر لایا جاتا ہے اور پیشی
بھگتنے کے لیے پورا خاندان کرب اور بے بسی کی سولی پر چڑھا ہوتا ہے عدالت
سے باہر قیدی کے رشتہ دار خاطر تواضع میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے ان معزز اہل
کاروں کی جنھوں نے اس کے عزیز کو مضبوط زنجیروں میں جکڑ رکھا ہوتا ہے کاش
وطن عزیز میں قانون کے رکھوالوں کو کوئی یہ باور کروا دے کہ تم کو غنڈوں ،چوروں،
ڈاکوﺅں،دہشت گردوں کو پکڑنے اور معصوم شہریوں کی جان ومال کی حفاطت کی ذمہ
داری سونپی گئی ہے ناکہ شریف شہریوں کو ڈرانے دھمکانے کی ،معذوروں سے تو
کوئی بھی مذہب اور قانون ایسے وحشیانہ سلوک کی اجازت نہیں دیتا ہم تو اس
دین کے ماننے والے ہیں جو جانوروں سے بھی رحم دلی سے پیش آنے کا حکم دیتا
ہے پھر میرے وطن میں ایسا کرنے والے یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ ایک دن اُس
کی عدالت بھی لگے گی جہاں کوئی سفارش کوئی پرچی نہیں چلے گی جو ذمہ داریاں
کسی کو سونپی گئی ہونگی انکا حساب لیا جائے گا |