"پس یہ حقیقت ہے کہ جسے اللہ
ہدایت بخشنے کا ارادہ کرتا ہے اس کا سینہ اسلام کے لیے کھول دیتا ہے اور
جسے گمراہی میں ڈالنے کا ارادہ کرتا ہے اس کے سینے کو تنگ کردیتا ہے اور
ایسا بھینچتا ہے کہ اسلام کا تصوّر کرتے ہی اسے یوں معلوم ہونے لگتا ہے کہ
گویا اس کی روح آسمان کی طرف پرواز کررہی ہے۔ اس طرح اللہ حق سے فرار اور
نفرت کی ناپاکی ان لوگوں پر مسلّط کردیتا ہے جو ایمان نہیں لاتے"(الانعام:125)۔
سینہ کھول دینے سے مراد اسلام کی صداقت پر پوری طرح مطمئن کردینا اور شکوک
و شبہات اور تذَبذب و تردّد کو دور کر دینا ہے۔اس کے برخلاف وہ لوگ جن کے
دلوں پر زنگ چڑھ گیا ہو وہ حقیقت کو نہیں دیکھ پاتے اور سچائی ان پر واضح
نہیں ہوتی اور اس کی وجہ بس ایک ہے کہ وہ خود سچائی کے حصول کے خواہاں نہیں
ہوتے۔وہ آنکھ رکھتے ہیں لیکن بے نور، دل رکھتے ہیں لیکن مردہ اور دماغ
رکھتے ہیں لیکن غور و فکر کی صلاحیت سے عاری ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ قرآن
اس انداز سے کرتا ہے۔کہا کہ:" یہ لوگ جنھوں نے خدا کے بتائے ہوئے طریقے پر
چلنے سے انکار کردیا ہے ان کی حالت بالکل ایسی ہے جیسے چرواہا جانوروں کو
پکارتا ہے اور وہ ہانک پکار کی صدا کے سواکچھ نہیں سنتے۔یہ بہرے ہیں ،
گونگے ہیں، اندھے ہیں، اس لیے کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی"(البقرہ:۱۷۱)۔
"یا پھر ان کی مثال یوںسمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہورہی ہے اور اس کے
ساتھ اندھیر ی گھٹا اور کڑک اور چمک بھی ہے، یہ بجلی کے کڑاکے سن کے اپنی
جانوں کے خوف سے کانوںمیں انگلیاں ٹھونسے لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق
کو ہر طرف سے گھیرے میں لیے ہوئے ہے۔چمک سے ان کی حالت یہ ہو رہی ہے کہ
گویا عنقریب بجلی اِن کی بصارت اچک لے جائے گی۔جب ذرا کچھ روشنی انہیں
محسوس ہوتی ہے تو اس میں کچھ دور چل لیتے ہیں اور جب ان پر اندھیرا چھا
جاتا ہے تو کھڑے ہو جاتے ہیں۔اللہ چاہتا تو ان کی سماعت اور بصارت بالکل
سَلب کر لیتا،یقینًا وہ ہر چیز پر قادر ہے "(البقرہ:۰۲-۹۱)۔دین حق سے
برگشتہ منافقین راہ سے بھٹک جانے والے ایک مسافر کی مانند ہیں جو اندھیرے
بیابان میں موسلادھار بارش میں گھرا ، تیرہ و تار بادلوں کی شدید بارش،
بجلی کی تڑک اور چمک اور بادلوں کی گرج اور کڑک سے خوف زدہ کانوں میں
انگلیاں دئے کھڑا ہوکہ کہیں موت بجلی بنکر پیکر وجود کو بھسم نہ کردے
بجلیاں چمکتی ہیں تو چند قدم آگے بڑھاتا ہے اور پھر اندھیرا پھیل جاتا ہے
تو ٹھٹک کر رک جاتا ہے۔ در اصل منافقین اپنے ظاہری ایمان کے سبب اسلامی
معاشرے میں جب سیاسی اور معاشرتی ماحول سازگار ہو آرام و سکون کی زندگی
گزارتے ہیں لیکن شک کا اندھیرا اور کفر و نفاق کی گرج اور چمک، سختیاں آتے
ہی ان کے باطن کو جو کفر سے معمور ہے ظاہر و آشکار کردیتی اور ان کی تمام
قوت عمل کو سلب کرلیتی ہے چنانچہ اگر خدا چاہتا تو آغاز کار میں ہی ان کے
نور کو چھپن لیتا اور لباس اسلام پہننے سے پہلے ہی وہ معاشرے میں برہنہ
ہوجاتے مگر آزمائش کے لئے خدا نے کچھ دنوں کی مہلت دیدی اور انہیں اپنے
اقتدار و اختیار کے گھیرے میں لیکر آزاد چھوڑدیا تا کہ ان کا باطن پوری طرح
آشکار ہوجائے چنانچہ حق کی کرنیں راہ میں اجالے بکھیرتیں تو وہ چند قدم چل
پڑتے لیکن نفاق کی ظلمتیں انہیں جلد ہی تاریکیوں میں ڈھکیل دیتی ہیں اور
اسلامی معاشرے کی مشکلات کا خوف انہیں بہانے بنانے اور راہ سے بے راہ
کردینے پر مجبور کردیتا ہے۔پہلی مثال ان منافقین کی تھی جو دل میں قطعی
منکر تھے اور کسی غرض و مصلحت سے مسلمان بن گئے تھے۔ اور یہ دوسری مثال ان
کی ہے جو شک اور تذبذب اور ضعفِ ایمان میں مبتلا تھے، کچھ حق کے قائل بھی
تھے، مگر ایسی حق پرستی کے قائل نہ تھے کہ اس کی خاطر تکلیفوں اور مصیبتوں
کو بھی برداشت کر جائیں۔ اس مثال میں بارش سے مراد اسلام ہے جو انسانیت کے
لیے رحمت بن کر آیا۔ اندھیری گھٹا اور کڑک اور چمک سے مراد مشکلات و مصائب
کا وہ، ہجوم اور وہ سخت مجاہدہ ہے جو تحریکِ اسلامی کے مقابلہ میں اہل
جاہلیّت کی شدید مزاحمت کے سبب سے پیش آرہا تھا۔ مثال کے آخری حِصّہ میں ان
منافقین کی اس کیفیت کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ جب معاملہ ذرا سہل ہوتا ہے
تو یہ چل پڑتے ہیں ، اور جب مشکلات کے دَل بادَل چھانے لگتے ہیں، یا ایسے
احکام دیے جاتے ہیں جن سے ان کے خواہشاتِ نفس اور ان کے تعصّبات ِ جاہلیت
پر ضرب پڑتی ہے ، تو ٹھِٹک کر کھڑے ہو جاتے ہیں۔
ٰٓایک رُسوا کن انسان کی کہانی!
1968 میں کیمبرج یونیورسٹی میں حصول تعلیم کے دوران سلمان رشدی بائیں بازو
کی جماعت میں شمولیت اختیار کر لیتا ہے۔ انہی ایام میں اس میں شوق پیدا
ہوتا ہے کہ کوئی آرٹسٹک کام کرے۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ ایک چھوٹی
ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں نوکری کر لیتا ہے اور اسی دوران اپنا پہلا ناول
لکھنا شروع کر دیتا ہے جو ایک مسلمان روحانی شخصیت سے متعلق تھا۔ تاہم وہ
اسے پبلش کرانے میں ناکام ہوتا ہے۔ اسی طرح اسکی دوسری کتاب "گریموس کی
کہانیوں کا مجموعہ" بھی خاص مقبولیت حاصل نہیں کر پاتی۔ وہ مایوس نہیں
ہوتا۔ پانچ سال بعد 1981 میں اس نے اپنا ناول "آدھی رات کے بچے" پبلش
کروایا۔اس ناول نے برطانیہ کی مطبوعات کی توجہ اپنی جانب مبذول کرا لی۔ یہ
ناول انڈیا کی آزادی کی کہانی ہے جو ایک مسلمان نوجوان کی زبانی بیان کی
گئی ہے۔ تاہم اس ناول میں بھی مسز اندرا گاندھی کو بیوہ خطاب کرنے اور اس
وقت کی انڈین حکومت کو تنقید کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے ہندوستان میں
شدید اعتراض کا باعث بنا۔ اسی طرح رشدی نے 1983 میں اپنے ناول "Shame" میں
بعض پاکستانی شخصیات پر تنقید کی تھی، خصوصا اس میں بے نظیر بھٹو کو غیر
اخلاقی الفاظ سے یاد کیا تھا جس پر پاکستان میں اس پر پابندی لگا دی گئی۔
سلمان رشدی کی عادت رہی ہے کہ وہ شخصیات یا مذاھب و ادیان کی توہین کر کے
شہرت حاصل کرنے کی کوشش کرے۔ بالآخر اس لعین نے اپنی جوانی کی خفیہ اوصاف
کو منظر پر لاتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں
گستاخی کی۔ 41 سال کی عمر میں رشدی نے اپنا ناول "شیطانی آیات" لکھ کر پانچ
لاکھ برطانوی پاونڈ کی صورت میں ایک ارب مسلمانوں کی اذیت اور دل آزاری کا
انعام وصول کیا۔ شیطانی آیات میں ایک من گھڑت اور ضعیف روایت کا حوالہ دے
کر سرکار دوعالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی گئی
ہے۔ 547 صفحات پر مشتمل ناول "شیطانی آیات" سب سے پہلے انگریزی زبان میں 26
ستمبر 1988 کو پینگوئن پریس کے ایک شعبے "وائکنگ" نے شائع کیا۔ سلمان رشدی
انڈین نژاد مسلمان ہے اور برطانوی شہریت کا حامل ہے۔ یہ ناول اسکی پانچویں
تصنیف تھی۔ رشدی نے یہ ناول وائکنگ پریس کے یہودی سربراہ "گیلن ریٹیکن" کی
سفارش پر 5 لاکھ 80 ہزار برطانوی پاونڈ کے عوض لکھا۔ اتنی پرُخرچ اور مہنگی
کتاب کی کوئی مثال اس سے پہلے موجود نہیں۔ شروع ہی میں میڈیا کی زبردست
توجہ کا مرکز بن گئِی اور بہت سے ممالک میں بڑی تعداد میں اس کے نئے نئے
ایڈیشن شائع ہوئے۔ آہستہ آہستہ اس کتاب کے انتشار پر مسلمانوں کی صدائے
احتجاج بلند ہو نے لگی۔ بریڈفورڈ کے شہر میں کچھ مسلمانوں نے اس کتاب کے
سینکڑوں نسخے جلا ڈالے۔ پاکستان اور بھارت سمیت تمام مسلمان ممالک میں
مسلمانوں نے مظاہروں کی صورت میں اپنے غم و غصے کا اظہار کیا جن میں کئی
افراد شہید بھی ہوئے۔ آخر کار 14 فروری 1989 کو امام خمینی رحم اللہ علیہ
نے سلمان رشدی کے ارتداد کا تاریخی فتویٰ صادر کر کے اسے واجب القتل قرار
دیا جس نے اسکی آسودہ زندگی کو جہنم میں تبدیل کر دیا۔ امام خمینی ؒ کے
فتوی کے بعد کے ایام سے متعلق اپنی یادداشتوں میں رشدی لکھتا ہے: "بار بار
اپنی رہائش گاہ کو تبدیل کرنا پڑتا ہے"۔ امام خمینی ؒ کے فتوے کے نتیجے میں
برطانوی پولیس اسکی حفاظت کا ذمہ لیتی ہے، یہ صورتحال بالآخر اس کی بیوی کی
طلاق کا باعث بن جاتی ہے۔ واضح رہے کہ ابھی تک چار بیویاں اس سے طلاق لے
چکی ہیں۔ امام خمینی ؒ کے فتویٰ کے فورا بعد رشدی روپوش ہو گیا اور برطانوی
پولیس نے نامعلوم مقامات پر اسکی حفاظت کا ذمہ لیا۔ اسکی حفاظت کا سالانہ
تخمینہ تقریباً ایک کروڑ پونڈ لگایا گیا ہے۔ یہاں تک کہ شہزادہ چارلس نے
ایک مرتبہ کہا: "سلمان رشدی برطانوی ٹیکس دھندگان کیلئے ایک غیرمعمولی بوجھ
بن چکا ہے"۔ برطانوی ہوائی سروس "برٹش ایئر ویز" نے 1998 تک اپنے جہازوں
میں سلمان رشدی کے سفر پر پابندی لگائی ہوئی تھی۔ اسی طرح " کینیڈا ایئر
لائنز" نے چند سال پہلے اپنی کمپنی میں رشدی کے سفر کو ممنوع قرار دیا تھا۔
رشدی نے عالم اسلام کے غم وغصے کے باوجود اپنی کفر آمیز کتاب کی مزید اشاعت
جاری رکھی۔ جب برطانوی حکومت اس کتاب کے سستے ایڈیشن کو پبلش کرنے پر آمادہ
نہیں ہوئی تو رشدی نے اسے امریکہ لے جا کر اسے سستی قیمت پر پبلش کروایا۔
اس نے اپنی تازہ کتابوں میں سے ایک میں اپنی ذلت آمیز زندگی کے کافی پہلووں
کو اجاگر کیا ہے۔ اٹلی کے مسلمانوں کے ہاتھوں اپنی کتاب کے اٹالین مترجم کے
زخمی ہونے، جاپانی مسلمانوں کے ہاتھوں اس کتاب کے جاپانی مترجم کی ہلاکت
اور ناروے کے ناشر پر حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ ملعون کچھ یوں لکھتا
ہے: "جس دن ناروے کا ناشر گولیوں کا نشانہ بنا وہ میری زندگی کا بدترین دن
تھا"۔ تنہائی کے ان ایام میں اس نے صرف 20 دنوں میں 13 مرتبہ اپنا ٹھکانہ
تبدیل کیا۔ اسکی زندگی کی فضا کچھ اس طرح ہو چکی ہے کہ اپنی بیوی نے بھی
اسے چھوڑ دیا اور اخباروں میں اسے بزدل کے نام سے موسوم کیا گیا۔ کہتے ہیں
کہ برطانیہ میں موجود صورتحال سے بچنے کی خاطر چند سال بعد رشدی نے امریکہ
کی طرف فرار اختیار کیا۔ تاہم وہاں بھی مسلمانوں کے انتقام کے خوف سے
امریکی پولیس کا سہارا لینے پر مجبور ہے تاہم یہ گستاخ اس دنیا میں سزا سے
اگر بچ بھی جائے، کم از کم جہنم اس کے انتظار میں تو ہے ہی۔
رُشد و ہدایت سے عاری!
درج بالا کہانی میں جس رسوا کن انسان کا تذکرہ کیا گیا ہے اُس اور اُس جیسے
لوگوں کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ: "جن لوگوں کو توراة کا حامل بنایا گیا
تھا مگر انہوں نے اس کا بار نہ اٹھا یا، ان کی مثال اس گدھے کی سی ہے جس پر
کتابیں لدی ہوئی ہوں۔ اس سے بھی زیادہ بری مثال ہے ان لوگوں کی جنہوں نے
اللہ کی آیات کو جھٹلا دیا ہے ۔ایسے ظالموں کو اللہ ہدایت نہیں دیا
کرتا"(الجمعة:۵)۔ یعنی جس طرح گدھے پر کتابیں لدی ہوں اور وہ نہیں جانتا کہ
اس کی پیٹھ پر کیا ہے ، اسی طرح یہ توراةکو اپنے اوپر لادے ہوئے ہیں اور
نہیں جانتے کہ یہ کتاب کس لیے آئی ہے اور ان سے کیا چاہتی ہے۔پھر کہا کہ ان
کا حال گدھے سے بھی بد تر ہے وہ تو سمجھ بوجھ نہیں رکھتا اس لیے معذور ہے۔
مگر یہ سمجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ توراة کو پڑھتے پڑھاتے ہیں۔ اس کے معنی سے
ناواقف نہیں ہیں۔ پھر بھی یہ اس کی ہدایات سے دانستہ انحراف کر رہے ہیں،
اور اس نبی کو ماننے سے قصداً انکار کر رہے ہیں جو تورة کی رو سے سراسر حق
پر ہے۔ یہ نا فہمی کے قصور وار نہیں ہیں بلکہ جان بوجھ کر اللہ کی آیات کو
جھٹلانے کے مجرم ہیں۔پس یہی حال ہے آج ان بد کردار لوگوں کا بھی جو اسلامی
نام رکھنے کے باجود اسلام اور اس کی بنیادی تعلیمات پر عمل پیرا نہیں
ہیں۔پھر ان کے دل اس قدر سخت ہو چکے ہیں کہ وہ اللہ اور اس کے رسول اور اس
کی کتاب کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ یہ اللہ کی رسی
ہے جس کو وہ دراز کیے جارہا ہے، وہ چاہے تو ان کی تمام قوت عمل سلب کر لے
اور یہ کہیں کے بھی نہ رہیں۔یہی وہ لوگ ہیں جو رشد و ہدایت سے عاری ٹھہرے،
جو تمام تر صلاحیتیں حاصل کرنے کے باوجود رسوا اور ذلیل و خوار ہوئے اور جن
کی دنیاو عاقبت برباد ہو چکی ہے۔ پھر اگر ان ناعاقبت اندیشوں کی کوئی طرف
داری کرے تو وہ کیا کہلائے گا! |