تاریخ سالوں میں ایسے سپوت پیدا
کرتی ہے جوقوم کی تقد یر بدل کررکھ دیتے ہیں۔ایسے لوگ کسی بھی ملک کا سب سے
بڑا سرمایہ ہوتے ہیں۔ایسے لوگ قدرت کی طرف سے کسی بھی قوم کے لیے نعمت سے
کم نہیں ہوتے۔ایسے لوگ اپنی خدمات عوام کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔اور تمام
کام بغیر کسی ذاتی مفاد کے بے لوث خدمت کے جذبے سے سر شار ہو کر سر انجام
دیتے ہیں۔ایسے لوگ عوام کے لیے اندھیرے میں چراغ کی ماند ہوتے ہیں۔اور آنے
والی تمام نسلوں کے لیے آسانیاں پیدا کر دیتے ہیں۔یہ لوگ ہمیشہ اپنے ملک کا
نام روشن کرتے ہیں۔اور تمام نسلوں کے لیے ایک مثال چھوڑ جاتے ہیں اور عوام
ان کو قیامت تک یاد رکھتی ہے۔ایسے لوگ نئی تاریخ رقم کرتے ہیں اور دنیا میں
نیا انقلاب پیدا کرتے ہیں۔پاکستان کی تاریخ ایسے لوگوں سے بھری پڑی ہے یا
ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قدرت اس سرزمیں پر بہت مہربان ہے۔اور اس پاک
سرزمیں پر لاکھوں عظیم لوگ پیدا ہوتے ہیں جو کہ پوری دنیا کے لیے ایک مثال
ہوتے ہیں۔اور زندہ قوموں کا یہ شیوہ ہے کہ وہ ان عظیم ہستیوں کو کبھی
فراموش نہیں کرتیں بلکہ ان کو خراج تحسین پیش کرتیں ہیں۔اور ان کو اپنا
قومی ہیرو مانتی ہیں۔اور ان کی قدر کرتی ہیں۔اور ان کی دی ہوئی نشانیوں کی
قدر کرتی ہیں۔لیکن آج کل ہم لوگوں میں اس چیز کا کافی فقدان دیکھا جا رہا
ہے۔تاریخ میں چند ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جب ان عظیم لوگوں کی قدر نہیں
کی گئی۔اور ان کی خدمات کو فراموش کیا جاتا رہا ہے۔قائد اعظم محمد علی جناح
بانی پاکستان کو زندگی کے آخری ایام میں جب ایمولینس میں سوار کر کے ہسپتال
کی طرف بڑھ رہے تھے۔سڑک پر کافی ٹریفک تھی اور ان کی گاڑی کو جانے کے لیے
راستہ نہیں دیا گیا تھا۔آج کے دور میں بھی چند احمق لوگ ان کو برا بھلا
کہتے ہیں ۔کچھ اس طرح کے الفاظ ہمارے قومی شاعر علامہ اقبال کے بارے میں
بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔حالانکہ انہوں نے ہماری قوم میں اپنی شاعری کے
ذریعے بیداری کا جذبہ پیدا کیا ۔محترمہ فاطمہ جناح جو کہ بانی قائد کی
چھوٹی اور لاڈلی بہن تھیں اور آزادی کی تحریک میں قائد کے شانہ بشانہ تھیں
ساٹھ کی دہائی میں جب الیکشن ہوئے تو وہ چیخ چیخ کو عوام کے سا منے ووٹ کی
التجا کرتی رہیں لیکن وہ کامیاب نہ ہو سکیں۔مولانا لیاقت علی خان بابائے
صحافت اور پاکستان کے پہلے وزیر اعظم کو ایک جلسے میں خطاب کے دوران شہید
کر دیا گیا۔
یہ سب ہمارا کل ہو سکتا ہے لیکن آج نہیں۔نا چاہتے ہوئے بھی ہم سے اس طرح کے
تمام غلطیاں ہوئیں۔
عبدالستار ایدھی خدمت خلق میں مشغو ل ہیں اورانسانیت کی خدمت کے لیے350سے
زائدفلاحی مراکز چلا رہے ہیں۔ڈاکٹر عبدالقدیر جن کی بدولت پاکستان ایٹمی
پاور بنا ۔ہم لوگوں نے ان کی خدمات کو بھی بھلا دیا۔بہت افسوس ہوا جب ان کے
منہ سے یہ والے الفاظ سنے کہ مجھے زندگی میں صرف ایک ہی بات کا افسوس ہے
اور وہ افسوس یہ ہے کہ میںنے اس ملک کے لیے کام کیا۔اور اس ملک نے میری ذرا
بھی قدر نہیں کی۔اس زمین نے زندگی کے ہر شعبے میں قابل قدر شخصیات کو جنم
دیا جنہوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اپنے آپ کو پوری دنیا میں
منوایا۔میوزک انڈسٹری میں ملکہ ترنم نور جہاں جنہوں نے 1965کی جنگ کے دوران
بہت سے گیت گائے جن کی بدولت ہمارے نوجوانوں کے حوصلے اور بھی بلند ہوتے
گئے۔استاد نصرت فتح علی خان جو کہ دینا کے بہترین قوال رہے اور انہوں نے
اپنی قوالی کے ذریعے سینکڑوں لوگ متاثر کیے۔کرکٹ میں عمران خان نے عوام کو
وولڈ کپ اور پھرایشیا کا واحد شوکت خانم کنسر ہسپتال کا تحفہ دیا۔سکوائش
میں جان شیر خان اور جہانگیر خان نے قوم و ملت کا نام روشن کیا۔سنوکر میں
محمدیوسف نے پاکستان کو دنیا میں نئی شان دی۔ہاکی میں ظاہر زمان اور دوسرے
کھلاڑیوں نے ولڈکپ جیتا۔محترمہ بےنظیر نے اپنی پارٹی کی خاطر جام شہادت نوش
کیا۔آئی ٹی کی دنیا میں ارفع کریم نے پاکستان کو نیا نام بخشا۔ہمارے پاک
فوج کے نو شہدا کرام جن کو نشان حیدر بھی مل چکا ہے اورہزاروں دوسرے جوان
جنہوں نے ملک کی بقاءکی خاطر اپنی جان کی قربانی دی۔ان کے علاوہ اور بھی
بہت زیادہ لوگ ہیں جن کی بدولت ہمارے ملک کا نام پوری دنیا میں جانا جاتا
ہے۔
یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے ملک کی تعمیر و ترقی میں دن رات محنت کی اور دنیا
ان کو عظیم کارناموں کی بدولت یاد کرتی ہے۔یہ لوگ ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں ان
کی قدر ہم سب پر لازم ہے۔یہ لوگ ہمارے قیمتی موتی ہیں جن کوسنبھالنا ہمارا
فرض ہے۔زندہ قومیں اپنی روایات،اقتدار، کردار کو ہمیشہ زندہ رکھتی ہیں۔ہمیں
نئی نسل کو بھی ان کے متعلق آگاہی دینی چاہیے۔تعلیمی نصاب میں ان کا ذکر
کرنا چاہیے۔
مختلف تقریبات منعقد کروانی چاہیں۔یہ ہمارے باغ کے پھول ہیں ۔ہمارا ملک ان
کی وجہ سے مہکتا ہے۔یہ ہماری ملکی کتاب کے حسین باب ہیں جن کے بغیر پاکستان
کی کہانی ادھوری ہے۔ہمیں ان کو ضرور یاد رکھنا چاہیے۔اور ان کو خراج تحسین
پیش کرنا چاہیے کہ ان کی محنت کی وجہ سے پاکستان سر اٹھا کر کھڑا ہے۔ہم
فلموں کو نظر آنے والے لوگوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو ویسا
بنا نا چاہتے ہیں لیکن ہم لوگ اپنے قومی ہیروز کو اپنا آئیڈیل نہیں مانتے
ہم اپنے آپ کو ویسا بنا نے کی کوشش ہی نہیں کرتے۔یہ ہمارا قیمت سرمایہ
ہیںہمیں ان کو احسانوں کو یاد رکھنا چاہیے اور ان کا عزت و احترام ہم سب پر
لازم ہے ۔تاریخ ہمیشہ ان قوموں کو یاد رکھتی ہے جو کہ اپنے محسنوں کے احسان
کو کبھی نہیں بھولتی۔ |