ہماری آنکھیں روزانہ سینکڑوں
مناظر کو ذہن میں نقش کرتی ہیں ۔ان میں سے اکثر وبیشتر بے اثر رہتے ہیں ۔
گہرے نقوش چھوڑنے والے منظر چند لمحوں سے زیادہ اثر پزیر نہیں ہوتے ۔
کیونکہ ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دوسروں میں کیا کمی ہے ۔ہمارے پاس کون کون سی
نعمتیں ہیں ، ان کا شمار کم ہی کیا جاتا ہے ۔اس سے پہلے کہ کچھ اور لکھوں
ایک ماخوذ کہانی پیش کرنا چاہوں گا ۔
بینائی سے محروم ایک لڑکا بلڈنگ کے باہر سیڑھیوں پر پاوّں میں ہیٹ رکھ کر
بیٹھا ایک پلے کارڈ سے آنے جانے والوں سے مدد کا طلبگار تھا ۔جس پر لکھا
تھا کہ
میں اندھا ہوں برائے مہربانی میری مدد کریں ۔
اس کے ہیٹ میں صرف چند سکے موجود تھے ۔ ایک شخص اس کے پاس سے گزرا ۔ جیب
ٹٹول کر چند سکے نکالے اور ہیٹ میں ڈال دئَے۔ پھر اس نے پلے کارڈ کو
اُٹھایا اسے پلٹایا اور چند الفاظ لکھ کر اسے واپس وہیں رکھ دیا تاکہ پاس
سے گزرنے والے نئے الفاظ کو دیکھ سکیں ۔کچھ ہی دیر میں ہیٹ سکوں سے بھر گیا
۔اندھے لڑکے کی مدد میں کافی لوگوں نے پیسے دئیے ۔
اسی دوپہر وہ شخص جو پلے کارڈ پر نئے الفاظ لکھ کر گیا تھا وہاں یہ دیکھنے
کے لئے آیا کہ اب حالات کیا ہیں ۔
لڑکے نے اس کے قدموں کی چاپ سے اسے پہچان لیا ۔اور پوچھا : کیا تم نے ہی آج
صبح میرے کارڈ میں تبدیلی کی تھی ۔تم نے کیا لکھا تھا ؟
وہ شخص بولا میں نے صرف سچ لکھا تھا ۔میں نے وہ کہا جو تم نے کہا ۔ مگر ایک
مختلف انداز میں ۔
میں نے لکھا : آج کا دن بہت خوبصورت ہے ۔ مگر میں اسے دیکھ نہیں سکتا ۔
دونوں تحریروں نے لوگوں کو یہی بتایا کہ لڑکا اندھا ہے ۔
پہلا کارڈ یہ بتا رہا تھا کہ لڑکا اندھا ہے ۔ دوسرے کارڈ نے لوگوں کو بتایا
کہ
تم کتنے خوش قسمت ہو کہ تم اندھے نہیں ہو۔
یہ کہانی سبق دیتی ہے کہ ہمارے پاس جو ہے اس کے لئے ہمیشہ شکر گزار ہونا
چاہیئے ۔ مثبت اور مختلف سوچ کو پروان چڑھائیں ۔ اگر ہم اپنی نعمتوں کو
شمار کریں تو دوسروں کی محرومیوں کا احساس جا گزیں ہو گا ۔ جو قربانی اور
مدد کے جزبے کو فروغ دے گا ۔ ہماری نعمتیں جسمانی اعضاء کی تندرستی سے لے
کر مال و متاع کی فراخی تک وسیع ہیں ۔ کائنات کی وسعت ہماری عقل و شعور اور
اندازے سے بالا تر ہے ۔معاشرہ جب نعمتوں کی شکر گزاری سے محروم ہونا شروع
ہو جاتا ہے ۔ تو بے حسی کے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔میرا کیا اور تیرا کیوں ،
کی تکرار سے اجنبیت کا رحجان پرورش پاتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ غیر مسلم
حکمرانی میں بھی ہر مذہب کے افراد امن وسکون سے زندہ رہتے ہیں ۔ اور مسلم
حکمرانی کے باوجود ایک مذہب کے ماننے والے اپنی حفاظت کا حصار ٹوٹنے نہیں
دیتے ۔
دوسروں پر سبقت لے جانے کا جنون خون کی طرح سر پر سوار رہتا ہے ۔کامیابیوں
کے جھنڈے میدان میں گاڑھ کر لوگوں کے دلوں میں دھاک بٹھانے سے زیادہ نشہ
پاتے ہیں ۔
آئیے دیکھتے ہیں آیات قرآنی میں ہمارے لئے کیا احکام ہیں ۔ اور ان پر ہم
کہاں تک عمل پیرا ہیں ۔
ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ۔ ایک دانہ کی
مانند ہے جس سے سات بالیں اُگیں ہر بال میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لئے
چاہتا ہے بڑھاتا ہے اور اللہ وسعت والا جاننے والا ہے ۔ البقرہ ۲۶۱
جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں پھر نہیں رکھتے خرچ کرنے
کے بعد کوئی احسان ، نہ کوئی تکلیف [ پہنچاتے ہیں] ان کے لئے ان کے رب کے
پاس اجر ہے ، نہ کوئی خوف ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔ البقرہ ۲۶۲
اچھی بات کرنا اور درگزر کرنا بہتر ہے اس خیرات سے جس کے بعد ایذاء دینا ہو
اور اللہ بے نیاز برد بار ہے ۔ البقرہ ۲۶۳
اے ایمان والوں ، خرچ کرو اس میں سے پاکیزہ چیزیں جو تم کماوّ اور اس میں
سے جو ہم نے نکالا تمہارے لئے زمین سے اور اس میں سے گندی چیز خرچ کرنے کا
ارادہ نہ کرو جبکہ تم خود اس کو لینے والے نہیں مگر یہ کہ تم چشم پوشی کر
جاوّ اب جان لو کہ اللہ بے نیاز اور خوبیوں والا ہے ۔ البقرہ ۲۶۷
آج کل تو والدین بھی محنت سے پال پوس کر جوان اولاد سے شکایات کے انبار
رکھتے ہیں ۔ اولاد کے لئے والدین معاشرے میں داخل ہونے کا پہلا دروازہ ہیں
۔ جہاں سے گزر کر پلٹنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے ۔ حالانکہ ہماری کمائی
پر پہلا حق ان کا ہے ۔جنہیں دروازہ کی پرانی چوکھٹ سمجھ کر اپنے نئے گھروں
میں فٹ نہیں کیا جاتا ۔رشتہ دار ، یتیم ، مسکین کا حق تو اس کے بعد رکھا
گیا ہے ۔کہنے سننے میں یہ بات عام ہے کہ معاشرہ بے حسی کا شکار ہے ۔
معاشرہ انسانوں سے بنتا ہے اور انسان ہی غرض ، مفاد اور بے حسی کا شکار ہے
۔خیالات کے خزانے پہلے اپنی خواہشوں سے بھرتا ہے ۔ اوردوسرےکو جزبات کے
پیالے میں مکرو فریب بھر بھر دیتا ہے ۔
اور تمہارے پاس جو کوئی نعمت ہے سو اللہ کی طرف سے ہے ،پھر جب تمہیں تکلیف
پہنچتی ہے تو اسی کی طرف تم روتے چلاتے ہو ۔ النحل ۵۳ |