بہت سے مغرب نواز دانشور مسلمانوں پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ یہ خود نا اہل ہیں اور
اپنی ہر ناکامی پر مغرب کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں فی الحقیقت دنیا فتح کرنے کا
جنون بڑی پرانی بات ہے اور اسی وجہ سے بادشاہتیں ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتی رہیں
اور دنیا کا امن برباد کیا جاتا رہا ۔
حملہ آور جہاں کہیں جاتے لوٹ مار قتل و غارت گری کا بازار گرم کردیتے اور کمزوروں
کو غلام بنالیتے اس طرح بنی نوع انسان حرص وہوس کی اس دنیا میں اذیتوں سے نبرد آزما
رہا ہے نبیؐ کی آمد اوراعلانِ نبوت کے بعد اس دنیا نے ایک انقلاب دیکھا جس نے کفر و
جہالت کی تاریکی دور کر کے صلح جوئی اور امن و آشتی کا پیغام دیا ۔
ظلم و استبداد کے اُس دور میں قیصرو کسریٰ کی عالیشان حکومتیں ہوتی تھیں مگر عام
انسان کی زندگی ذلت اور غم الم سے عبارت تھی ۔ نبیؐ ﷺکے مدینہ حجرت کرنے سے پہلے
مدینہ کے دو قبائل اوس و خزرج آپس میں جنگ و جدل میں مشغول رہتے تھے ۔ اور آبادی غم
و اندوہ بھوک افلاس میں مبتلا رہتی تھی ۔ مدینہ میں یہودی آباد ہوگئے تھے اور اپنی
سازشوں سے لڑاتے اور اپنا اسلحہ فروخت کرتے تھے ۔ دونوں قبائل اگر چہ ایک ہی بزرگ
کی دو اولادوں میں سے تھے مگر ان کی زندگی ایک عذاب میں مبتلا تھی ۔
اللہ رب والعزت کی رحمت جوش میں آئی اور یہ دونوں قبائل آپؐ ﷺ پر ایمان لے آئے ،
اور نبی ؐ ﷺ کو مدینہ آنے کی دعوت دی آپؐنے مکہ کے لوگوں کے ظلم و استبداد سے
پریشان ہو نے پر اللہ کے حکم سے حجرت کی اور مدینہ تشریف لے گئے ۔ اور آپؐ ﷺ کی
مدینہ آمد پر اُن لوگوں نے اللہ رب العزت کی طرف سے ہونے والی رحمتوں کو محسوس کیا
۔ مگر یہ جنگ اور ریشہ دوانیاں تو جاری تھیں ، دونوں قبائل اپنی مشکلات کی شکایت
آپؐ سے کرتے اور آپؐ نے اللہ رب العزت کی حکم سے یہ راز افشا ں کیا کہ ان دونوں
قبیلوں کو کون لڑا رہا تھا ، اور اس طرح یہودی آبادی کو انکی ریشہ داوانیوں کے سبب
وہاں سے نکل جانے کو کہا گیا اور وہ اپنا مال و اسباب حتیٰ کہ اپنے مکانو ں کی
کھڑکیاں اور دروازے بھی نکال لے گئے جس کا قرآنِ کریم میں بھی تذکرہ ہے ریشہ
دوانیوں کی یہودی کاروائیاں آج بھی اپنی پوری شدو مد سے جاری ہیں اور ساری دنیاکو
لڑانے کیلئے یہ اسلحے کے بڑے سپلائر ہیں ۔
یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ دنیا میں مسلمان ایک بڑی اکثریت ہیں اور اللہ نے ان کو
دیا بھی بہت ہے لہذا ان کی مصنوعات کے لئے مسلمان ممالک اور مسلم آبادیاں ہی ایک
بڑی مارکیٹ ہیں لہذا وہ اپنی مصنوعات کی فروخت کے لئے کوئی بھی طریقہ فرو گذاشت
نہیں کرتے ہیں ، سازشیں کرتے ہیں منصوبے بناتے ہیں لوگوں اور قوموں کو لڑاتے ہیں
اور اپنی مصنوعات فروخت کرتے ہیں ۔
شاید کہ آپ یقین کریں کہہ وہ اس حد تک جا پہنچے ہیں کہ آبادیوں میں وائرس پھیلاتے
ہیں پھر ان سے بچت کے لیے خود ہی دوائیں فروخت کرتے ہیں ، اشتہار بازی سے اپنی
چیزوں کا فروخت کرنا ایک الگ بات ہے مگر انکے دیئے ہوئے نت نئے نظریات بھی ان کی
اقتصادیات کے زیرِ اثر ہوتے ہیں مثال کے طور پر ایک زمانہ میں پوڈر کے دودھ کو ما ں
کے دودھ کاحقیقی بدل بتاتے رہے مالتھس کا نظریۂ آبادی انسانیت کی بھلائی میں نہ تھا
اس کے پیچھے بھی اقتصادی فوائد چھپے ہوئے تھے جو آج ظاہر ہو گئے ہیں ۔
یہودی یہ سمجھتے ہیں کہ دنیا کی بہت بڑی آبادی پر قابو پانا ان کے لئے بہت مشکل
ہوگا تو دنیا کی محدود آبادی پر وہ اپنی باد شاہت قائم کر کے تمام اسباب دولت پر
قبضہ کر لیں گے اور ان کی یہ ہوس کسی صورت کم ہونے والی نہیں ہے ، اسی لیے قرآ ن
میں سورۃ تکاثر اُتاری گئی ہے اور یہ مزید اور مزید کا سلسلہ اس کے قبر تک جانے پر
بند نہیں ہوتا پھر قبر کا گڑھا اس کو حقیقت سے آگاہ کر دیتا ہے ۔
اللہ رب العزت نے مسلمانوں کو کتابِ ہدایت (قرآنِ کریم ) دے کر اس دنیا میں آزمائش
کی اس زندگی کو پر امن بنانے کے طریقے سکھائے ہیں اور انسانیت کی مدد کے لئے اپنے
دین کی تبلیغ اور اس کو نافذ کرنے کے عمل کو فرض قرار دیا ۔
جب مدینے میں اسلامی ریاست کا قیام عمل میں آگیا تو حکمِ ربّی ہوا کہ دنیا کو اللہ
کے دین پر آنے کے لئے کہا جائے لہذا اس مقصد کے لئے آپؐ نے اُس دور کے حکمرانوں کو
خطوط لکھے بادشاہوں کی طرح اسلام کا مقصد سلطنتوں پر قبضہ نہیں تھا بلکہ کمزورں پر
طاقتور کے ظلم و استبداد کو روکنا تھا انسانی مساوات کی بنیاد پر نظامِ انصاف قائم
کر نا تھا ، یہ وہ نقطۂ آغاز تھا جہاں سے اسلام نے ان ظالموں کو للکارہ اور کہا کہ
اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام قائم ہوگا اس کے خلاف یہود نے مسلمانوں کے ساتھ دشمنی
کی اور ان کو مٹانے کیلئے سازشیں تیار کیں ۔
اپنی طاقت کے بل بوتے پر انہوں نے پوری دنیا پر یلغار کی اور اپنی نام نہاد دانشوری
کا سکہ جمایا اور بزور خود یہ طے کر دیا کہ یہ دنیا پر حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے
ہیں اور ساری دنیا کو ان کا محکوم ہونا چاہیئے اور آج تک یہ اپنے اس مفروضے پر قائم
ہیں ، اور اپنی کامیابی کے لئے یہ مکرو، فریب ، منافقت اور جھوٹ کے ذریعے اپنی کار
گزاری دیکھاتے رہتے ہیں ، یہ اپنے عمل میں پر عزم ہیں اور نظمِ مسلسل کے تحت اپنی
نسل کے تواتر سے کام کر رہے ہیں جبکہ مسلمان قرآن سے غفلت کے مرتکب ہوئے اور دنیا
کے کھیل تماشوں میں کھو گئے اور اپنی سلطنت برقرار نہ رکھ سکے ۔ انصاف ان کا طریقہ
تھا جو بے انصافی پر ڈٹ گئے ، حرص وہوس اور خود غرضی کو اپنا شعار بنالیا عقل و
دانشواری کے لئے اپنی کتاب چھوڑی اور غیر مسلموں کی دانش پر ایمان لے آئے تو آج
مسلمانوں کا جو حشر ہے یہ ان کے اعمال کا منطقی نتیجہ ہے، مسلمان بادشاہوں کی بد
اعمالیوں کے سبب ان کا کیا انجام ہو ا کہ ہندوستان پر باہر سے آکر انگریز مسلط
ہوگئے اور مسلمان حکومتیں آپس میں لڑتی رہیں اور پورا ہندوستان کھو دیا ۔
اللہ رب ولعزت نے رحمت فرمائی اور ان ہی انگریزوں سے جان چھوٹی ۔ پاکستان عطا ہوا۔
غلامی سے آزاد ہوئے پینسٹھ سال (65) ہوگئے مگر اب تک ذہنی غلامی سے آزادی نہیں ملی
۔
اللہ نے اس مرض سے نجات کے لئے جو کتاب دی تھی اسے ہم نے طاق پر جزدانِ حریرو ریشم
میں رکھ چھوڑا ہے ، پھر بھلا ہماری بیماری کا علاج کیسے ہو سکتاہے ۔ آج ہمارے
دانشور اس قدر کنفیوژ ہیں کہ اسلام ان کی سمجھ سے باہر ہے ۔ بہت سے اسلامی احکام کو
گورے کی عقل سے دیکھتے ہیں اور یکسر رد کردیتے ہیں مثال کے طور پر کثرت اولاد کی
ضرورت ، مصلحت اور حکمت سے قطعی منکر ہیں جب کہ درودہ شریف میں ہمیشہ اس کی دعا
کرتے ہیں ۔ روس اور امریکہ کے مقابلے میں افغان کثرت اولاد کا بڑا کردار رہا ہے یہ
بھی طرفہ تماشا ہے کہ دانشور ہیں ، فلسفی ہیں، مصنف ہیں ، اینکر پرسن ہیں ، ہر قسم
کی قابلیت سے مزیّن ہیں مگر نماز میں کیا پڑھتے ہیں یہ نہیں معلوم ۔ بچپن سے رٹ لیا
ہے وہی دوہرائے جارہے ہیں ان کی نظر میں قرآن اور نماز سمجھے بٖغیر ہی پڑھنا موجب
ثواب ہے ۔ جب دنیا بھر کے علوم پر اپنی دسترس کے لئے بہت سی کتابیں پڑھ ڈالی ہیں
سائنس کی برتری کا شور مچاتے ہیں اور قرآن سے نعوذبااللہ سمجھے بغیر پڑھنے پر ہر
قسم کے فائدے کا حق جتا تے ہیں ان کی عقل پر جتنا ماتم کیا جائے بہت کم ہے ۔
آئیے آپ کو بتاؤ ں کے دنیا بہت تیز ہے آپ نے سنا ہوگا کہ انیسو تہتر ۱۹۷۳ ء میں
اسکائی لیب خلاء میں بھیجی گئی تھی اور کوئی چھ سال بعد اس کے گر نے کا بڑا چرچہ
تھا ، پاکستان میں بھی لوگ بہت خوفزدہ تھے یہ در اصل دنیا کا ایک سر وے تھا جس میں
دنیا کا نقشہ بنایا گیا اور یہ بھی معلوم کیا گیا کہ اس زمین میں معدنیات کے خزانے
کہاں کہاں ہیں اور پھر اسی کے مطابق دنیا کا سیاسی نقشہ بدلنا شروع ہوگیا جو ہم آج
تک دیکھ رہے ہیں اور ابھی اور بہت سی تبدیلیاں سامنے آئینگی ۔ ہر کسی کو اپنی دانش
سے ترقی کرنے کا حق ہے لیکن دوسروں کے حقوق کے غصب کرنے کا کوئی حق نہیں لیکن یہودو
نصاریٰ کی یہ کوشش ہے کہ تیل کے ذخائر ہوں یا سونا چاندی کے سب پر انکا حق ہے اور
اسی تناظر میں دنیا کے سیاسی نقشے تبدیل کیے جارہے ہیں ۔ امریکہ پر کیا آفت نازل
ہوئی تھی کہ و ہ ویتنام کی جنگ میں جا پڑا ، اور کس قدر ذلت اُٹھائی ایک مرتبہ
کیوبا کی جان کو پڑگیا اور ذلت اس کا مقدر ہوا ۔ مزید جھوٹ بول کر عراق پر حملہ آور
ہوا ،اسکا بھی کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہ نکلا تھا کہ اس نے افغانستان کو پاکستان پر
چڑھائی کرنے کیلئے ایک ذریعہ بنایا ،غریب افغانوں نے اس کو دھول چٹا دی اب بڑے
دعوٰے سے رُخ ایران کی طرف ہے۔
یہ لوگ پردے میں رہ کر اپنے مطلب کے کام دوسروں سے کرواتے ہیں پوری پوری آبادیاں
خریدلیتے ہیں اور کچھ اس طرح مینیپولیشن کرتے ہیں کہ جس سے کام کرواتے ہیں اس کو
بھی نہیں پتا چلتا اس طرح سے قوموں میں گروپ بناکر آپس میں لڑاتے ہیں جس کی مثال
ہمارے ہاں خود کش بمباراور فرقہ وارانہ فساد ہیں۔
اگر ہمارے دانشور متذکرہ بالا دانشوری پر ہمارا مذاق اُڑانا چاہیں تو حق بہ جانب
ہیں مگر میں ان کی اس بات پر متفق نہیں ہوسکتا کہ یہ سب قدامت پسندی کا نتیجہ ہے در
اصل اس خرابی یہ ہے کہ ہم نہ اپنی کتابِ روشن کو نہ تو پڑھتے ہیں اور نہ اقوام عالم
سے رابطے رکھنے کے اصولوں پر عمل کرتے ہیں ۔
اسلام نے ایک بنیادی اصول بنادیا کے کافر اور مشرک تمہارے دوست نہیں ہوسکتے ظاہر ہے
جو اللہ کا نا فرمان ہے وہ انسانیت سے بھلا کیسے محبت کر سکتاہے وہ منافقت کے ذریعہ
سوائے تباہی اور بربادی کے کچھ نہیں کرسکتے ، یہ اپنی مفاد کی خاطر اندھے ہوجاتے
ہیں اور دوسرے کا کوئی لحاظ نہیں کرتے ۔
یہودو نصاریٰ سے کامیاب برسرِ پیکار ہونے کے لئے اللہ سے جنگ روکنی پڑے گی جوکہ ہم
سود خوری کے ذریعے جاری رکھے ہوئے ہیں اور اہنی خواتیں کو حجاب میں لانا پڑیگا ،
گورا خوب سمجھتا ہے کہ ان اعمال سے اس کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے اسی لیے وہ اس کو
انتہا پسندی کہتا ہے، مگر ہمارے دانشور ابھی عقل سے پیدل ہیں ۔ کبھی کسی نے گورے کی
انتہا پسندیوں کی فہرست بنائے ہے ، لاکھوں انسانوں کا قتل کیا غریب انسانیت کی مدد
ہے ۔ |