ورجن گلیکٹک کا نیا خلائی جہاز

خلائی جہاز بنانے والی کمپنی ورجن گلیکٹک نے ایک ایسے خلائی جہاز کا نمونہ پیش کیا ہے جو جلد ہی عام لوگوں کو خلائی سیر پر لے جائے گا۔

اسپیس شپ ٹو نامی یہ خلائی جہاز اسپیس شپ ون نامی خلائی جہاز کے نمونے پر بنا ہے۔ یہ ایک ایسا خلائی شٹل ہے جسے خلا میں اڑنے سے پہلے ایک راکٹ سے اوپر اٹھایا جاتا ہے۔

ورجن کا یہ خلائی جہاز 2010 میں مسافروں کو خلا میں لے جانے کا کام شروع کرے گا۔ یہ جہاز میں ایک وقت میں آٹھ مسافروں کو خلا کی سیر کرائے گا۔
ورجن کے مالک سر رچرڈ برانسن کا کہنا ہے کہ خلا کے شعبے میں تجارت کے بہت عمدہ مواقع ہیں۔ انہوں نے نیویارک میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ’میرے خیال میں یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اس منصوبے کا زیادہ سے زیادہ تجارتی فائدہ اٹھاسکیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب رہے تو بہت بڑی تعداد میں پرائیوٹ سیکٹر خلائی تکینک اور خلائی شعبے میں پیسہ لگانے کے لیے آگے آئیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر پرائیوٹ سیکٹرز خلائی شعبے میں سرمایہ کاری کرتے ہیں تو اس سے موبائل فون اور انٹرنیٹ تکینک پر پرائیوٹ سیکٹر کی جانب سے ہونے والی سرمایہ کاری کو خاصی ٹکر مل سکتی ہے۔

خلائی جہاز کو اڑانے میں مدد کرنے والا راکٹ جہاز وائٹ کنگ ٹو (WK2) کو بنانے کے لیے ورجن گلیکٹک نےخلائی جہازوں کے مشہور ڈیزانر بورپ روتان کی خدمات حاصل کی ہیں۔

وائٹ کنگ ٹو جلد ہی بن کر تیار ہو جائے گا اور کہا جارہا ہے کہ آئندہ برس وہ تجرباتی پرواز کرنا شروع کردے گا۔ ورجن گلیکٹک کے مطابق اسپیس شپ ٹو 60 فیصد بن چکا ہے۔

اسپیس شپ ٹو اور وائٹ کنگ ٹو دونوں کو مسٹر روتان کی کیلیفورنیا میں واقع کمپنی روتانس اسکیلڈ کمپوزٹ میں بنایا گیا ہے۔ یہ خلائی جہاز دو پائلٹوں سمیت چھ مسافروں کو لے کر اڑے گا۔ شروع میں یہ لوگ نیو میکسیکو صحرا میں بنائے گئے ایک خلائی مرکز سے اڑیں گے اور جہاز کی پرواز کی مدت ڈھائی گھنٹے کی ہوگی۔

ایس ایس ٹو میں اڑنے والے مسافروں کو 110 کلومیٹر کی اونچائی پر خلا میں لے جایا جائے گا۔ جہاں سے وہ کچھ منٹوں تک بے وزن ہونے کا احساس کریں گے اور وہاں سے وہ زمین کا موڑ اور خلا کا کالا پن دیکھ پائیں گے۔

اس جہاز میں سیٹ پانے کے لیے ایک مسافر کو 20،000 امریکی ڈالر دینے ہوں گے۔ ورجن گلیکٹک کا کہنا ہے کہ ابھی تک 200 سے زائد افراد نے جہاز میں اڑنے کے لیے سیٹوں کی بکنگ کرالی ہے جبکہ 85،000 افراد نے رجسٹریشن کے لیے درخواست دی ہے۔

سر رچرڈ کا کہنا ہے کہ اس خلائی جہاز کو صنعتی ضروریات اور محققین کے لیے استعمال کے لیے بھی استعمال کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا ’جہاں تک سائنس کا سوال ہے اس سسٹم سے محققین پہلے سے کہیں زیادہ خلا میں جانے کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ خلا میں تجرباتی سیر سے زمین کے موسم اور دنیا کے بارے میں جتنے بھی سوال ان کے ذہن میں ہیں ان سب کو حل کرنے میں انہیں مدد ملے گی۔‘

ایس ایس ٹو کے جس ماڈل کو بدھ کو رونمائی کی گئی ہے وہ سپیس شپ ون کا بہتر ماڈل ہے جسے 2005 میں کسی بھی پرائیوٹ کمپنی کے ذریعے بنائے جانے والے پہلے کامیاب خلائی جہاز کا 10 ملین ڈالر کا ایکس خطاب ملا تھا۔

ان دونوں ماڈلز میں بنیادی فرق لمبائی کا ہے۔ 60 فٹ لمبا ایس ایس ٹو پرانے ماڈل سے دوگنا لمبا ہے۔ ورجن گالیکٹک نے ایک بیان میں کہا ہے۔’اس جہاز میں پرانے ماڈل سپیس شپ ون والی غلطیوں کو نہیں دوہرایا گیا بلکہ ورجن گلیکٹک کی مارکیٹ ریسرچ سے پتہ چلنے والی خلا بازوں کی ضروریات اور مستقبل میں خلا بازی کے تجربے کو بہتر بنانے والی ساری سہولتوں کو دھیان میں رکھ کر یہ ماڈل بنایا گیا ہے۔
YOU MAY ALSO LIKE: