ہٹلر کے دور میں وزارت اطلاعات
کے شعبے نے جنم لیا ۔جس کا بانی پال جوزف گوئبلز تھا۔وہ سچ کو جھوٹ اور
جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کا ماہر تھا۔اُس کا کہناتھا کہ آپ سچ میں جھوٹ کی
اتنی آمیزش کر دیجئے کہ وہ جھوٹ لگنے لگے اگر ایسانہ ہوسکے تو کم ازکم اتنا
ضرور کیجئے کہ لوگ اس معاملے کی حقانیت کے بارے میں شکوک وشبہات میں
پڑجائیں‘اس سے آپ کا نصف کام ہوجائے گا۔
پروپگینڈہ سے مُراد ہے کسی خبر کی اس طرح تشہیر کرنا کہ گلی گلی اس کا
چرچاہوجائے اور وہ بات زبانِ زد عام ہوجائے۔یاد رکھیئے جھوٹ پر مبنی مشہور
بات ہی معاشرے کو بوکھلاہٹ کا شکار بناتی ہے اور عدم اعتماد کی فضاقائم
کرتی ہے۔اور کسی بھی معاشرے کی بنیادیں ہلانے کیلئے اتناکافی ہے کہ اس کے
لوگوں کو عدم اعتماد کی فضامیں جھونک دیاجائے ۔باقی کی تباہی وہ خود مول لے
لیتے ہیں۔خیر تو بات ہورہی تھی خبر کی مارکیٹنگ کی تو اس کی بنیاد 1936میں
رکھی گئی ۔اور اس کی وجہ یہ بنی کہ اس کا بانی گوئبلز اپنے والد کے ساتھ اس
کے کارخانے میں گیا۔اس کے اباجان نے اُسے معلومات فراہم کرنے کی غرض سے
مشینوں کے کمرے میں لے کرجانے کا سوچا۔اور چند لمحوں میں فیصلہ کرنے کے بعد
باپ بیٹا کھٹاکھٹ کے شوروغل میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے ۔یہ مشینوں
والا کمرہ تھا اور گوئبلز کا باپ اُسے مشینوں کی نوعیت‘کام اور قسموں سے
آگاہ کررہاتھا۔لیکن گوئبلز کی سمجھ دانی میں سوائے ابا کے ہاتھ
ہلانے‘دیکھنے اور پرزہ جات کی حرکت سے پیدا ہونے والی آوازکے ماسوا کچھ نہ
پڑا۔اور وہ یہ سوچنے پرمجبورہوگیاکہ اگردوافراد کے مابین جاری بات چیت کے
دوران اگرجھوٹ پرمبنی باتوں‘بے ربط آوازوں اور حقائق کے برخلاف صداﺅں کا
شور اُٹھادیاجائے تو یقینی طور پر مذاکرات کی گھتی اُلجھی رہے گی اور دونوں
کے پلے ککھ بھی نہ پڑے گا۔بس پھر دنیاکو ایک نیافلسفہ مل گیا۔پروپیگنڈہ کو
خالق مل گیا۔اور یوں ہٹلر کا یہ ساتھی اطلاعات ونشریات کا پہلاوزیر مقرر
ہوا۔اور اُس دور میں اس وزارت کو پروپیگنڈا وزارت کانام دیاگیا۔آج تک جتنے
بھی وزیر اس عہدے پر قائم رہے دوسوکے قریب ممالک میں جتنی بھی نشریات کی
وزارتیں ہیں وہ درحقیقت گوئبلز ہی کی مرہون منت ہیں ۔اور تقریباسبھی ممالک
میں اس پیشے سے منسلک وزارتیں اپنے بانی کے دیئے ہوئے اصولوں پرعمل پیرا
ہیں ۔حالانکہ جو کچھ اُس نے مرتے دم کہاتھا اس پر کسی کی نظرہی نہیں پڑتی۔
گوئبلز نے اپنے دور اقتدار میں ادب‘ڈرامہ‘صحافت‘ریڈیواورفلمی دنیاکو
پروپیگنڈہ کیلئے اس طرح استعمال کیا کہ خلقِ خدا کی حیرت کی انتہانہ
رہی۔جسے نظریے ‘جس فلسفے کو چاہتا جھوٹ ثابت کردیتا ۔مخالفین کا دامن گرد
آلود کردیتااور اپنے حامیوں کے خارداردامن کو پھولوں سے ایسے بھرتاکہ
خوشبوکوبکوپھیل جاتی۔اور اپنی مہارت پر نازاں رہتا۔گوئبلز اپنا تجربے کی
بنیاد پر کھنگارے بغیر کہتا”سیاست کی دنیا میں حقائق تلاش کرنا قریباً
ناممکنات ہی میں شمارہوتاہے“۔چند عشرے قبل ایک شاعر نے کہاتھا
میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو
گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں
لیکن گوئبلز نے کم وبیش آج سے ستر برس قبل عالمی سیاست کے بارے میں
کہاتھا”سیاست دان اگر فرشتہ بھی ہو اور وہ مشرق کو مشرق اور مغرب کو مغرب
بھی کہ رہاہو تو اُس کی بات پر مکمل بھروسہ نہ کیجئے گا کیونکہ سیاستدان کا
سچ کبھی پورا سچ نہیں ہوتا“(لیکن لگتاایسے ہے جیسے ُاس نے یہ پاکستانی
سیاست کا کچاچٹھہ کھولنے کیلئے کہاتھا)۔
اب ذرا اس کی تخلیق کی موجودہ صورتحال کا اپنے ملک کے طول واطراف میں جائزہ
لیتے ہیں۔پی ٹی وی کی ابتداءسے انتہاتک کا سفر قدرے معتدل ہے ۔بس فرق یہی
ہے کہ ضیاءکہ دور میں دوپٹہ سرک جانے پر شورمچاتھا اور اب تو مختلف چینلز
پر بہت کچھ سرک رہاہے اور کان پر جوں تک نہیں رینگتی ۔ڈینگی کی وباءکچھ اس
طرح بڑھاچڑھا کر پیش کی گئی کہ بڑے شہروں کا کاروبار زندگی مفلوج ہوکررہ
گیا۔گو کہ اس سے فوائد بھی معاشرے کی جھولی میں گرے لیکن کانٹوں کی بہتات
نے انگوروں کی بیل کو زخمی کردیا۔چند ماہ قبل ملک کے معروف اینکر اور
کالمسٹ کے پروگرام میں جب ایک مزاح نگارو اصلاحی تجزیہ کار سے پوچھاگیاکہ
معاشرے میں محبت ناپیدہوتی جارہی ہے‘خوشیاں کھوچکی ہیں‘ اسی کی وجہ کیاہے
؟تو برجستہ جواب ملا تمام چینلز بند کر دیجئے خوشیاں لوٹ آئیں گی۔دھما کہ
کہیں ہوتاہے اور اس نمک مرچ لگاکر ایسے بیان کیاجاتاہے کہ گھروں میں بیٹھے
بچے‘بوڑھے اور خواتین تک سہم جاتے ہیں ۔اور پھر تجزیہ کاری کی ضرب اس قدر
سنگین ہے کہ لوگوں میں اُمید کی کرن غائب ہوتی جارہی ہے۔عدم اعتمادی کے بعد
نااُمیدی ایسے ہی ہے جیسے جلتی لکڑی پر تیل ڈالا جارہاہو۔ابھی حال ہی میں
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کی دواﺅں سے ری ایکشن کا مسلئہ اتنااچھلاکہ
خداکی پناہ۔پکڑدکڑ اور مسلسل نیوزالرٹ چلانے سے نہیں بلکہ مربوط حکمت عملی
اور مثبت ردعمل سے مسائل حل ہوتے ہیں ۔مجرم کا تعین ہونا باقی ہے مگر
پاکستانی ادویات کی بڑی کمپنیاں ہماری نااہلی کے باعث بدنام زمانہ عورت کی
مانند ہوچکی ہیں۔ان کی ساکھ اندرون ملک اور بیرون ملک گرچکی ہے۔میمو گیٹ ہے
کہ اچھل کود رہاہے ۔نجانے ”میمو“ کا ”گیٹ “کب کھلے لیکن عوام تو ہلکان ہو
رہی ہے ناں ۔اور ماشااللہءمرکزی کردار ادا کرنے والے آئی ۔ایس ۔آئی کے
مخالف ہیں اور کوئی نہیں منصور اعجاز ہیں جی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ میڈیا نے معاشرے کو شعوردیا۔لیکن اکثراوقات
یہ بات سننے کو ملی کہ فلاں چینل یا فلاں اخبار میں آنے والی خبر یہ چلنے
والی بریکنگ نیوز حقائق سے کوسوں دور تھی۔آپ خود سوچیئے کہ اگر ڈرائیونگ
سیٹ پر کسی نااہل فرد کو بٹھا دیاجائے تو اس کا کیا نتیجہ نکلے گا۔یا بچوں
کو آگ سے کھیلنے دیاجائے تو اس کا کیابنے گا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام
چینلز اور اخبارات اپنے نمائندگان کاچناﺅ سوچ سمجھ کر کریں وگرنہ کرائے کے
قاتل اور( کرپٹ )رپوٹرر میں کوئی فرق نہ رہے گا۔اور اسکے ساتھ ساتھ اینکرز
‘میزبان وغیرہ کے کردار وگفتار اور اکاﺅنٹس و اثاثہ جات کی بھی چھان بین کی
جائے۔اور اپنی ہی تہذیب وثقافت کو پروان چڑھائیں بجزاس کے کہ ہنس کی چال
سیکھنے کی خواہش رکھنے والے کوے کی مانند ہم اپنی چال ہی بھول بیٹھیں۔میری
یہ رائے ہرگز نہیں کہ میڈیا کو تہس نہس کر دیاجائے‘ اُسے چرچ‘مندر یا مسجد
بنادیاجائے ۔بلکہ تمام اداروں یا درسگاہوں سے مساوی سلوک رکھنا ہی اس کا
نصب العین ہوناچاہیئے اور بلاشبہ کسی حدتک اس پر عمل بھی کیاجاتاہے لیکن
ابھی بہت کچھ سیکھنا سکھانا باقی ہے۔
اب پال جوزف گوئبلز کے آخری لمحات پر نظر ڈالتے ہیں جو آج کی سیاست وزرد
صحافت(آپ کا دل رکھنے کیلئے صحافت کے ساتھ” زرد“ لفظ کا اضافہ کیاہے) کیلئے
عبرت بھی ہیں ‘نصیحت بھی ۔لیکن اگر کوئی سمجھے۔۔۔جنگ عظیم دوم اپنے اختتامی
مراحل میں داخل ہوچکی تھی۔ہٹلر ہی کامورچہ ایساتھا جسے گوئبلز اپنے لیئے
محفوظ ترین پناہ گاہ سمجھتا لہذا وہ ہٹلر کے مورچے میں اہل وعیال سمیت پہنچ
گیا۔ہٹلر کی خود سوزی کے بعدگوئبلز اور اس کی اہلیہ میگدا نے اپنے چھ بچوں
کو زہر دیاجو اُن کے سامنے تڑپ تڑپ کر اس جہان سے رخصت ہوگئے۔اور اس کے
فورا بعد پال جوزف گوئبلز نے اپنے گارڈ کو آرڈر دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں گولی
ماردی جائے یوں اپنے ہی گارڈ اور اپنے ہی حکم کے تحت وہ یکم مئی انیس سو
پینتالیس کو مرگیا۔مرتے وقت اس کے الفاظ تھے ”میں آج اس نتیجے پر پہنچا ہوں
کہ سچ سچ ہوتاہے اور جھوٹ جھوٹ“۔مزید گویاہوا”آپ سچ کو کچھ وقت کیلئے جھوٹ
اور جھوٹ کو کچھ دیر کیلئے سچ ثابت کر سکتے ہیں ‘مگر سچ کو عمر بھر کیلئے
جھوٹ اور جھوٹ کو عمر بھر کیلئے سچ ثابت نہیں کرسکتے“۔لہذا ارباب اختیار
‘معاشرے کے تمام افراد اورخصوصی طور پر میڈیاسے منسلک افراد سے گذارش ہے کہ
بات ناپ تول کر کیجئے (یہ عرضی ان کے واسطے ہے جو موت کے بعد حساب کتاب کا
یقین رکھتے ہیں)۔اور اس تول میں مفاد کی ڈنڈی ہرگز استعمال نہ کیجئے۔ |