ربیع الاول کو جب ہزاروں افراد
پر مشتمل جلوس عید میلاد النبی الحاج محمدصادق بٹ کی رہائش گاہ پر جلسہ سن
رہا تھا،45موٹر سائیکلوں پر سوار 100کے قریب افراد نے مبینہ طور پر جامع
مسجد رحمانیہ جس کا مسلک دیوبند سے تعلق ہے کے سامنے آکر فرقہ وارانہ
اشتعال انگیز نعرے بازی کی،جس پر نماز ظہر میں مشغول نمازی اور اہل محلہ
اشتعال میں آگئے اور سینکڑوں کی تعداد میں تھانہ ڈنگہ کا گھیراﺅ کر کے SHO
کو اندراج مقدمہ کی درخواست دی اور تھانے میں دھرنا دے دیا،تاریخ گواہ ہے
کہ فرقہ وارانہ فسادات ہمیشہ خونی ہوتے ہیں ڈنگہ شہر جس میں تمام مسالک کے
لوگ باہمی رواداری اور محبت سے رہتے ہیں اس میں ایسے واقعات زیادہ پریشان
کن ہیں اگرچہ انجمن تحفظ اسلام عبداللہ یونٹ کا تعلق براہ راست اہل سنت وا
لجماعت کے مرکز جامعہ رضوییہ سے کوئی براہ راست تعلق نہیں لیکن ایک مسلک
ہونے کے باعث خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ دونوں مسالک میں تصادم ہو سکتا ہے،جب
اطلاع ملی تو سنی ایکشن کمیٹی ڈنگہ نے ہنگامی اجلاس کیا جس میں معاملہ کا
جائزہ لے کر اور حالات کی سنگینی کو محسوس کرتے ہوئے فوری طور پر علمائے
دیوبند سے رابطہ کا فیصلہ ہوا،سنی ایکشن کمیٹی کے اراکین میاں خادم
حسین،مولانا محمد رمضان نقشبندی اور میاں محمد عمران ایڈووکیٹ،محمدعمران
اور ماسٹر اختر سمیت تھانہ آئے اور مذاکرات کے بعد صلح کر لی،یہ دونوں طرف
کے اکابرین کی دور اندیشی ہے کہ فرقہ وارانہ کشیدگی پر قابو پانے کی سنجیدہ
کوشش کی گئی، مولانا محمد یوسف رضوان،مولانا اعجاز حمد،حاجی شبیر احمد
نرسری والے،اعجاز احمدڈار،سیدعرفان علی شاہ،مولانا قاضی کفایت اللہ نے جس
طرح مشعل افراد کو قابو میں رکھا اور کثیر مسلک ہونے کی وجہ سے سنی ایکشن
کمیٹی نے جس دانشمندی کا مظاہرہ کیا وہ قابل ستائش ہے اس شہر میں64برس نے
مسالک کے مابین ہم آہنگی ہے جس کے باعث شہر پر امن ہے کبھی کسی جگہ دل آزار
اقدام نہیں اٹھایا گیا اور فکری اختلاف کو ذاتی دشمنی میں بدلنے نہیں دیا
گیا،یہ افسوس ناک واقع کوئی بڑا مخدوش نتیجہ پیدا کر سکتا تھا لیکن اناﺅں
کے بجائے دانائی سے معاملہ سلجھا لیا گیا ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام مسالک
کے اکابرین اپنی صفوں میں شامل انتہا پسندوں پر نظر رکھیں اور ان کو دوسرے
مسالک کی دل آزاری سے روکیں۔ |