یوم ویلنٹائن 14فروری کو پوری دنیا میں یوم محبت کے طور پر منایا جاتا
ہے اس کے آغاز کے بارے میں مختلف روایات مشہور ہیں۔ بعض کے نزدیک یہ وہ دن
ہے جب سینٹ ویلنٹائن نے روزہ رکھا تھا اور لوگوں نے اسے محبت کا دیوتا مان
کر یہ دن اسی کے نام کردیا' کئی لوگ اسے کیوپڈ (محبت کے دیوتا) اور وینس (حسن
کی دیوی) سے موسوم کرتے ہیں جو کیوپڈ کی ماں تھی۔ یہ لوگ کیوپڈ کو ویلنٹائن
ڈے کا مرکزی کردار کہتے ہیں جو اپنی محبت کے زہر بجھے تیر نوجوان دلوں پر
چلا کر انہیں گھائل کرتا تھا تاریخی شواہد کے مطابق ویلنٹائن کے آغاز کے
آثار قدیم رومن تہذیب کے عروج کے زمانے سے چلے آرہے ہیں-
' 14فروری کا دن وہاں رومن دیوی' دیوتاؤں کی ملکہ جونو کے اعزاز میں یوم
تعطیل کے طور پر منایا جاتا تھا۔ اہل روم ملکہ جونو کو صنف نازک اور شادی
کی دیوی کے نام سے موسوم کرتے ہیں جبکہ 15فروری لیو پرکس دیوتا کا دن مشہور
تھا اور اس دن اہل روم جشن زرخیزی مناتے تھے اس موقع پر وہ پورے روم میں
رنگا رنگ میلوں کا اہتمام کرتے جشن کی سب سے مشہور چیز نوجوان لڑکے اور
لڑکیوں کے نام نکالنے کی رسم تھی۔ ہوتا یوں تھا کہ اس رسم میں لڑکیوں کے
نام لکھ کر ایک برتن میں ڈال دیئے جاتے تھے اور وہاں موجود نوجوان اس میں
سے باری باری پرچی نکالتے اور پھر پرچی پر لکھا نام جشن کے اختتام تک اس
نوجوان کا ساتھی بن جاتا جو آخر کار مستقل بندھن یعنی شادی پر ختم ہوتا ' - |
|
ایک دوسری روایت کے مطابق شہنشاہ کلاڈلیس دوم کے عہد میں روم کی سرزمین
مسلسل جنگوں کی وجہ سے کشت و خون اور جنگوں کا مرکز بنی رہی اور یہ عالم
ہوا کہ ایک وقت کلاڈلیس کی اپنی فوج کیلئے مردوں کی بہت کم تعداد آئی جس کی
ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ روم کے نوجوان اپنی بیویوں اور ہم سفروں کو چھوڑ کر
پردیس لڑنے کیلئے جانا پسند نہ کرتے تھے اس کا شہنشاہ کلاڈلیس نے یہ حل
نکالا کہ ایک خاص عرصہ کیلئے شادیوں پر پابندی عائد کردی تاکہ نوجوانوں کو
فوج میں آنے کیلئے آمادہ کیا جائے اس موقع پر سینیٹ ویلنٹائن نے سینٹ ماریس
کے ساتھ مل کر خفیہ طور پر نوجوان جوڑوں کی شادی کروانے کا اہتمام کیا ان
کا یہ کام چھپ نہ سکا اور شہنشاہ کلاڈلیس کے حکم پر سینٹ ویلنٹائن کو
گرفتار کرلیا گیا اور اذیتیں دے کر
14فروری 270ء کو بعض روایتوں کے مطابق
269ء میں قتل کردیا گیا' اس طرح 14فروری ملکہ جونو' جشن زرخیزی اور سینٹ
ویلنٹائن کی موت کے باعث اہل روم کیلئے معتبر و محترم دن قرار پایا۔
سینٹ ویلنٹائن نام کا ایک معتبر شخص برطانیہ میں بھی تھا۔ یہ بشپ آف ٹیرنی
تھا جسے عیسائیت پر ایمان کے جرم میں 14فروری 269ء کو پھانسی دے دی گئی تھی
کہا جاتا ہے کہ قید کے دوران بشپ کو جیلر کی بیٹی سے محبت ہوگئی اور وہ اسے
محبت بھرے خطوط لکھا کرتا تھا اس مذہبی شخصیت کے ان محبت ناموں کو ویلنٹائن
کہا جاتا ہے۔ چوتھی صدی عیسوی تک اس دن کو تعزیتی انداز میں منایا جاتا تھا
لیکن رفتہ رفتہ اس دن کو محبت کی یادگار کا رتبہ حاصل ہوگیا اور برطانیہ
میں اپنے منتخب محبوب اور محبوبہ کو اس دن محبت بھرے خطوط' پیغامات' کارڈز
اور سرخ گلاب بھیجنے کا رواج پا گیا۔
|
|
برطانیہ سے رواج پانے والے اس دن کو بعد میں امریکہ اور جرمنی میں بھی
منایا جانے لگا تاہم جرمنی میں دوسری جنگ عظیم تک یہ دن منانے کی روایت
نہیں تھی برطانوی کاؤنٹی ویلز میں لکڑی کے چمچ 14فروری کو تحفے کے طور پر
دیئے جانے کیلئے تراشے جاتے اور خوبصورتی کیلئے ان کے اوپر دل اور چابیاں
لگائی جاتی تھیں جو تحفہ وصول کرنے والے کیلئے اس بات کا اشارہ ہوتیں کہ تم
میرے بند دل کو اپنی محبت کی چابی سے کھول سکتے ہو۔
کچھ لوگ اس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں کہ ویلنٹائن ڈے کو اگر کوئی چڑیا کسی
عورت کے سر پر سے گزر جائے تو اس کی شادی ملاح سے ہوتی ہے اور اگر عورت
کوئی چڑیا دیکھ لے تو اس کی شادی کسی غریب آدمی سے ہوتی ہے جبکہ زندگی بھی
خوشگوار گزرے گی اور اگر عورت ویلنٹائن ڈے پر کسی سنہرے پرندے کو دیکھ لے
تو اس کی شادی کسی امیر کبیر شخص سے ہوگی اور زندگی ناخوش گوار گزرے گی۔
|
|
امریکہ میں روایت مشہور ہے کہ 14فروری کو وہ لڑکے اور لڑکیاں جو آپس میں
شادی کرنا چاہتے ہیں سٹیم ہاؤس جاکر ڈانس کریں اور ایک دوسرے کے نام
دہرائیں جونہی رقص کا عمل ختم ہوگا اور جو آخری نام ان کے لبوں پر ہوگا اس
سے ہی اس کی شادی قرار پائے گی جبکہ زمانہ قدیم سے مغربی ممالک میں یہ
دلچسپ روایت بھی زبان زد عام ہے کہ اگر آپ اس بات کے خواہش مند ہیں کہ یہ
جان سکیں آپ کی کتنی اولاد ہوگی تو ویلنٹائن ڈے پر ایک سیب درمیان سے کاٹیں
کٹے ہوئے سیب کے آدھے حصے پر جتنے بیج ہوں گے اتنے ہی آپ کے بچے پیدا ہوں
گے۔
جاپان میں خواتین ویلنٹائن ڈے پر اپنے جاننے والے تمام مردوں کو تحائف پیش
کرتی ہیں۔ اٹلی میں غیر شادی شدہ خواتین سورج نکلنے سے پہلے کھڑکی میں کھڑی
ہوجاتی ہیں اور جو پہلا مرد ان کے سامنے سے گزرتا ہے ان کے عقیدے کے مطابق
وہ ان کا ہونے والا خاوند ہوتا ہے۔ جبکہ ڈنمارک میں برف کے قطرے محبوب کو
بھیجے جاتے ہیں تحریری طور پر ویلنٹائن کی مبارک باد دینے کا رواج 14صدی
میں ہوا ابتدا میں رنگین کاغذوں پر واٹر کلر اور رنگین روشنائی سے کام لیا
جاتا تھا جس کی مشہور اقسام کروسٹک ویلنٹائن' کٹ آؤٹ' اورپرل پرس ویلنٹائن
کا رخانوں میں بننے لگے 19ویں صدی کے آغاز پر ویلنٹائن کارڈز بھیجنے کی
روایت باقاعدہ طور پر پڑی جو اب ایک مستقل حیثیت اختیار کرچکی ہے۔
ایک اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن نام کے تین سینٹ گزرے ہیں ان
تینوں خدا ترسوں میں سے دو کے تیسری صدی عیسوی میں سر قلم کردیئے گئے تھے۔
ان میں سے کسی کا تعلق ایسی کسی تقریب سے نہ تھا ' نہ ہی ان میں سے کوئی
دنیاوی محبت کے جذبے سے ہی آشنا تھا۔ اکانومسٹ کی رپورٹ کے مطابق ویلنٹائن
ڈے بہار کی آمد آمد پر پرندوں کی مسرت کے اظہار کی علامت ہے۔ انگریزی میں
ویلنٹائن پر سب سے پہلی نظم چوسر نے (1382ء میں) پارلیمنٹ آف فاؤلز کے
زیرعنوان لکھی تھی۔ اس میں انسانوں سے کہا گیا ہے کہ وہ اپنی جنس تبدیل
کرنے کیلئے کسی نہ کسی پرندے کا انتخاب کریں۔ علم الانسان کے کئی ماہرین کے
خیال میں یہ دن سردی کے خاتمے پر منایا جاتا تھا اور لوگ بکری کی کھال اوڑھ
کر ہر اس عورت پر پل پڑتے تھے جو انہیں نظر آتی تھی۔
|