زندگی دو پل کی۔۔۔۔

دوپہر کے تقریبا دو بجے کا وقت تھا۔بارش ہو رہی تھی اور بجلی بھی بند تھی۔میرے پاس کرنے کو کچھ نہیں تھا اس لیے میں نے سونے کو ترجیح دی۔میں بڑے آرام سے اپنے بستر پر سو رہا تھا۔اچانک فون کی گھنٹی بجتی ہے اور میری آنکھ کھل جاتی ہے۔کمبل سے ہاتھ باہر نکال کر فون اٹھایا اور کان کو لگایااور بہت دھیمی سی آوازمیں ہیلوکہا۔فون کی دوسری طرف میں ایک گبھرائی ہوئی آواز تھی۔اس کی آواز سن کر میری ساری نینداڑ گئی۔یہ میرے دوست کا فون تھااور وہ مجھے ہسپتال سے فون کر رہا تھا کہ وقاص کی طبعیت بہت خراب ہے اوراسے ہارٹ اٹیک آیا ہے۔میں جلدی سے ہسپتال کی طرف روانہ ہوا۔میرے دماغ میں بس یہی خیال چل رہا تھا کہ کل رات جب میں اس سے ملا تھا تو وہ بالکل ٹھیک تھا۔بالکل خوش باش ہنستا مسکراتاچھوڑا تھا اس کو میں نے۔ تھوڑی دیرہسپتال آگیا۔

ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ڈاکٹرکی ہدایت کے مطابق سارے ٹیسٹ کروائے اور ایک گھنٹے کے انتظارکے بعدساری رپورٹز آ گئیں۔ڈاکٹر نے ہمیں بتایا کہ فکر کی کوئی بات نہیںتمام رپورٹز ٹھیک ہیں ایسا اکثر ہو جاتا ہے۔ایک پرچی ہاتھ میں تھما دی کہاایک ہفتہ تک یہ میڈیسن لیں آپ ٹھیک ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر کی بات سن کر ہماری جان میں جان آئی۔ہم وقاص کو واپس گھر لے آئے۔وقاص نے ہمیں بتایا کہ پچھلے دو روز سے اس کے دل میں درد محسوس ہو رہا تھا۔لیکن اس نے توجہ نہ دی۔اور اچانک آج دوپہر کو درد کی شدت میں اضافہ محسوس ہونے لگا ۔اس کی آنکھوں کے آگے اندھیراسا چھا گیا اوروہ چکر کھا کر صحن میں گر گیا۔وقاص اپنی آب بیتی سنا رہا تھا اور اس کی آنکھیں آنسوں سے نم تھیں۔اور وہ اللہ کا شکر کر رہا تھا کہ اللہ نے اسے ایک نئی زندگی دی ہے۔ایک پل کے لیے اسے ایسے محسوس ہوا تھا کی شائداس کی زندگی کے آخری لمحات چل رہے ہیں۔ہم نے اسے گھر ڈراپ کیا اسے دوائی وقت پر کھانے کی نصیحت کی اور یہ کہہ کر اجازت کی کہ ہم پھر آئیں گے۔

یہ تو ایک واقعہ تھا جو میرے دوست کے ساتھ پیش آیا۔لیکن ہر روز ایسے سیکڑوں واقعات وقوع پزیر ہوتے ہیں جس میں کون کب کس وقت ہم سے جدا ہو جائے کوئی پتا نہیں چلتا۔ہزاروں لوگ روڑ حادثات کی نظر ہو جاتے ہیں یا پھر ہسپتالوں میں دم توڑ دیتے ہیں۔یہ بہت چھوٹی سی زندگی ہے جو اللہ پاک نے ہمیں دی ہے۔کب کس کی باری آجائے کوئی خبر نہیں؟؟انسان دنیا کی فکر میں اس قدر کھو جاتا ہے کی اسے ہوش ہی نہیں رہتی کہ اسکا دنیا اس دنیا میں عارضی ٹھکانہ ہے۔اسے لوٹ کر واپس اپنے رب کے پاس جانا ہے۔اسے اپنی منزل تک پہنچنا ہے۔بس آنکھوں کے سامنے اندھیرا آیا اورسفرسارا ختم۔

ہم لوگ اللہ پاک کویاد کرتے ہیں،اپنی مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔ہماری زبا ن پرپاک کلمات جاری ہو جاتے ہیں لیکن صرف مشکل اوقات اور مصیبت میں ہی ایسا کیوں ہوتا ہے؟ہم لوگ اس دنیا کے عیش و آرام ،اپنے کاروبار اوردیگر زندگی کی مصروفیات میں اس قدر کھو جاتے ہیں کہ ہمیں اپنی اصل منزل نظر ہی نہیں آتی۔ہم اپنے راستے سے بھٹک جاتے ہیں۔ہر روز ایسے واقعات ہمیں اپنی روزمرہ زندگی میں دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو ان حادثات سے سبق حاصل کرتے ہوں گے۔ہم کتنے احمق لوگ ہیں جو اسی دنیا کو اپنا سب کچھ سمجھ کر بیٹھے ہیں۔

اس بات سے کسی کو کوئی شک یا انکار نہیں کہ موت برحق ہے اور ہر شے کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ ہم لوگ دوسروں کی خوشیوں میں شریک نہیں ہوتے اوران کو خوشیوں سے حسد کرتے ہیں۔دوسروں کو تکلیف دے کر ہمیں بہت مزہ ملتا ہے۔گناہ کرنا ہمیں اچھا لگتاہے۔ہم لوگ دوسروں کو اپنے اخلاق سے متاثر کرنے کی بجائے تلخ کلامی سے کام لیتے ہیں۔نا جانے ہر روز کتنے دلوں کو ہماری وجہ سے تکلیف پہنچتی ہے؟ہم بہت کم وقت اپنے عزیزو اقارب،اپنے دوستوں،اپنے رشتہ داروں کے ساتھ گزارتے ہیں۔ہم لوگ اپنے فرائض کو اچھے طریقے سے سر انجام نہیں دے پاتے ۔اگر ہم وقت گزرنے کے بعددوسروں سے اپنے گناہوں کی معافی مانگیں جب ہمارا قوت قریب ہو تو تب کچھ بھی حاصل نہ ہو گا۔کیونکہ اگر زخم بھر بھی جائے لیکن نشان رہ جاتا ہے۔اور چاہے ہم کتنی ہی کوشش کیوں نہ کر لیں وہ نشان کبھی ختم نہیں کیا جاسکتا۔

اس دنیا کا کوئی انسان چاہے وہ کتنا ہی طاقت وار اور امیر کیوں نہ ہوایک دن تو اسے بھی جانا ہی ہے۔کیوں نہ کچھ ایسا کرکے جایا جائے کہ یہ دنیامرنے کے بعد بھی ہمیں اچھے الفاظ میں یاد کرے۔اور ہماری خدمات کوفراموش نہ کرسکے۔ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ زندگی کا ہر ایک پل یادگار بنایا جائے۔اور ہمارا ہر ایک قدم لوگوں کے لیے ایک زندہ مثال ہو۔ہم رہیں یا نہ رہیں یہ دنیا ہمارے ہی گیت گائے۔ہم اپنے اخلاق کی وجہ سے پوری دنیا اپنی مٹھی میں کر سکتے ہیں۔یہ دنیا بھی صرف ان ہی لوگوں کے لیے دعا کرتی ہے جو دوسروں کی قدر کرتے ہیں ان کا خیال رکھتے ہیں۔ان کی ضروریات کو پورا کرتے ہیں۔

ہم اپنی خوا ہشوں اور ضروریات میں اس قدر مگن رہتے ہیں کہ ہمیں کسی کی خبر ہی نہیں ہوتی۔ہم اپنی تکلیفوں کو لے کر شکوہ شکایت کرتے رہتے ہیں کہ ہم تصور بھی نہیں کر سکتے کہ شائد کوئی ہم سے بھی زیادہ ضرورت مند ہو۔ہم لوگوں میں احساس نام کی چیز ختم ہوتی جا رہی ہ ےیہ احساس ہی ہوتا ہے جو ہم سب کو آپس میں باندھ کر رکھتا ہے۔جب احساس ختم ہو جاتا ہے توہر رشتہ ناطہ بے معنی لگنے لگتا ہے۔زندگی خوشیاں دینے اوربانٹنے کے لیے ہے۔کوشش کرنی چاہیے کہ اپنے آپ سے زیادہ دوسروں کا خیال رکھا جائے۔سب کچھ ادھر ہی ادھورا رہ جائے گا۔بس اچھی یادیں اور ہمارا اخلاق ہی ہمارا سرمایہ ہے۔کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے جانے کے بعد لوگ اپنے الفاظ،اپنے دلوں اور اپنے قصے و کتابوں میں ہمیشہ یاد رکھیں۔
جینا ہے تو ایسے جیو کہ ہر پل آخری ہو۔
muhammad sajjad virk
About the Author: muhammad sajjad virk Read More Articles by muhammad sajjad virk: 16 Articles with 18866 views I am student of master in mass communication.. View More