بر اعظم افریقہ کے شمال
مغرب اور بر اعظم ایشیا کے سنائی جزیرہ نما مصرمیں موت کا رقص تھمنے کا نام
نہیں لے رہا ہے ۔ واقع دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں پر مشتمل اس ملک کے
دارالسلطنت قاہرہ کے قریب پورٹ سعید میں فٹ بال کے شائقین کے دوران خونی
فساد سے کم از کم 74 افراد کی ہلاکت اور 150 سے زائد افراد کے زخمی ہونے سے
تاریخ کے ماہرین ششدر ہیں جبکہ اخوان المسلمون نے اس کی ذمہ داری سابق صدر
کے حامیوں پر عائد کی ہے۔آج بھی سیاح اس ملک کی سیر کریں تو پتہ چلے گا کہ
1001450 مربع کلو میٹررقبہ میں مصر کی سرحدوں کو دیکھا جائے تو مغرب میں
لیبیا، جنوب میں سوڈان، مشرق میں بحیرہ احمر، شمال مشرق میں فلسطین شمال
میں بحیرہ روم واقع ہیں۔لیکن آج یہاں ایسی قوتیں برسرپیکار ہیں جو انتشار
اور افراتفری کو دانستہ فروغ دینے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔آبادی کے اعتبار
سے یہ دنیا کے پندرہویں جبکہ افریقہ کے دوسرے سب سے بڑا ملک میں حال ہی میں
انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی مذہبی جماعت اخوان المسلمون نے بیان
جاری کیا ہے کہ اس خونی فساد کے پس پردہ معزول صدر حسنی مبارک کے حامی
متحرک تھے اور وہ نہیں چاہتے کہ مصر میں پرامن حالات ہوں۔ مصر کو ان دنوں
انتہائی کمزور سلامتی کی صورت حال کا سامنا ہے۔ گذشتہ روزپورٹ سعید میں
الاھلی اور المصری فٹ بال کلبوں کے درمیان میچ خونی کھیل میں تبدیل ہوگیا۔
الاھلی کلب کا تعلق دارالحکومت قاہرہ سے ہے اور وہ یہ میچ پورٹ سعید کے کلب
المصری سے ایک کے مقابلے میں تین گول سے ہار گیاتھا۔اس کی یہ ناکامیابی
ایسی مہلک ثابت ہوئی کہ میچ کے اختتام کے فوری بعد پورٹ سعید کلب کے حامیوں
نے میدان میں داخل ہو کر الاھلی کے شائقین والے اسٹینڈ کے پاس پہنچ کر ان
پر پتھراؤ، آتشی گولے اور بوتلیں پھینکنا شروع کردیںجس سے میدان میں بھگدڑ
مچ گئی۔ طبی ذرائع نے 74 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے جن میں ایک پولیس اہلکار
بھی شامل ہے جبکہ بعض زخمیوں کے جسموں پر چاقو کے وار بھی تھے۔و اضح رہے کہ
پورٹ سعید کا شہر دارالحکومت قاہرہ سے دو سو کلومیٹر کی دوری پر واقع ہے۔
اس کا مماثل شہر پورٹ فواد ہے۔ مصر کا یہ شمال مشرقی شہر بحیرہ روم کے
کنارے پر آباد ہے۔اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ مصر میں جاری احتجاج کی حمایت
کرتے ہیں اور پرتشدد مظاہروں میں اب تک تین سو افراد ہلاک اور تین ہزار سے
زائد زخمی ہوئے ہیں۔
مصر کے 7 کروڑ 88 لاکھ لوگوں کی اکثریت دریائے نیل کے قریب رہتی ہے جہاں
مصر کی قابل کاشت زمین بھی پائی جاتی ہے۔لیکن حالیہ ایام میں یہاں بدامنی
نے ایسے پیر پھیلائے ہیں کہ اخوان المسلمون کے سیاسی ونگ فریڈم اینڈ جسٹس
پارٹی نے اپنی ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا ہے اور اس میں نومنتخب رکن
پارلیمنٹ عصام العریان کا کہنا ہے کہ پورٹ سعید میں ہونے والا خونی
فساد’منصوبہ بند‘ تھا جسے معزول صدر حسنی مبارک کے ساتھیوں اور حامیوں نے
تیار کیا تھا۔ العریان کے مطابق اس حادثے میں پولیس اور فوج کی جانب سے
کوتاہی بھی برتی گئی۔ اس سے قبل اقوام متحدہ کے کمشنر برائے انسانی حقوق
ناوی پیلے نے مصر میں جاری احتجاج کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ مصری عوام نے
بنیادی حقوق معطل کرنے والے نظام کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ
مصری عوام کی جدوجہد بنیادی انسانی حقوق کے حصول کیلئے ہے۔ اقوام متحدہ کی
طرف سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق مصر میں ایک ہفتہ کے دوران تین سو
افراد ہلاک اور تین ہزار سے زائد زخمی ہو چکے ہیں۔ اس سے قبل قاہرہ میں
مردہ خانے کے افسران کے مطابق سکیورٹی فورسز اور مظاہرین کے درمیان جھڑپوں
میں کم از کم 20 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
قدیم تہذیبوں کے مرکز میں قاہرہ سے نصف گھنٹے کے فاصلے پر سکارا میں فرعونی
ادوار کے دو مقبروں میں سے ایک منہدم ہورہا ہے مگر اس کے پیچھے بنا ہوا
سیڑھی دار مقبرہ فن تعمیر کا شاندار نمونہ ہے۔ تاہم یہ غِزہ کے اہرام جتنا
بلند نہیں۔ مصر بھر میں ایسے کوئی اٹھانوے مقبرے تھے جن میں چند ایک کے سوا
زیادہ منہدم ہوچکے ہیں۔قاہرہ میں ایک ایسا چرچ بھی ہی ہے جو ہینکنگ یعنی
کلیسائے معلق کہلاتا ہے جو ساتویں صدی عیسوی میں تعمیر ہوا جولکڑی کی عمدہ
کندہ کاری سے آراستہ ہے۔ اس خوبصوت چرچ میں بی بی مریم کی صدیوں پرانی
تصاویر محفوظ ہیں۔دریائے نیل کی سیر ہو بہترین عرب کھانا اور سونے پر سہاگہ
موسیقی کی دھنوں پر خوبصورت بیلے رقص۔ ظاہر ہے یہ سیاحوں کی اہم ترین کشش
تو ہوگی ہی۔ بیرون ملک کے علاوہ مقامی مصری بھی اپنے کاروباری اور دوسرے
مہمانوں کو یہاں مدعو کرتے ہیں۔کروز میں صوفی رقص۔ اس دوران لوگوں کی
تالیاں اور ردعمل دیکھ کرسیاحوں کو یہ محسوس ہوگا کہ لوگ بیلی رقص کی مہارت
کی بجائے رقاصہ کے ظاہری حسن میں کھو جاتے ہیں جبکہ صوفی رقص کی جزیات سے
زیادہ لطف اندوز ہونا چاہئے تھا۔قاہرہ کے وسط میں محمد علی مسجد چودھویں
صدی عیسوی میں تعمیر کی گئی۔ بیرونی حصہ روایتی اسلامی طرز پر تعمیر ہوا
ہے۔ پانچ گنبد اور دو اونچے مینارے ہیں جو کئی میل دور سے دیکھے جا سکتے
ہیں تاہم اندورنی ڈیزائن میں فرعونی اور رومن طرز تعمیر جیسی محرابیں
نمایاں ہیں۔قاہرہ کی شاہراہ الازہر پر الازہر یونیورسٹی سے متصل جامع مسجد
977 میں تعمیر کی گئی۔مصر کے مفتی اعظم کبھی کبھار یہاں نماز جمعہ کی امامت
بھی کرتے رہے ہیں۔نماز کے اوقات کے علاوہ مسجد دن بھر سیاحوں کیلئے کھلی
رہتی تھی۔ 988 میں اسی مسجد کو یونیورسٹی میں تبدیل کردیا گیا۔قاہرہ میں
روایتی رہائشی اپارٹمنٹس جدید طرز زندگی کی نمائندگی کرتے ہیں۔یہ اپارٹمنٹس
زیادہ تر دس یا بارہ منزلوں پر مشتمل ہیں۔ نہایت منظم مگر کشادگی ذرا
کم۔قاہرہ میں مکانات اور بنگلے بہت ہی کم نظر آئیں گے۔قاہرہ کے مضافات میں
سکارہ کے راستے میں قالین بافی کی فیکٹری بھی رہی ہے جن میں زیادہ ترچھوٹے
بچے اور عورتیں کام کررہی ہوتی ہیں۔ اونی قالینوں کے ڈیزائن میں فرعونی
تہذیب کے اثرات نظر آتے ہیں۔ قالین بافی مصر کی اہم صنعت میں سے ہے۔قاہرہ
کی ایک بڑی شاہراہ پر یہ وہ ا سٹیڈیم ہے جہاں 6 اکتوبر 1981 کو ایک فوجی
پریڈ کے معائنے کے دوران مصر کے سابق صدر انور السادات کو ہلاک کردیا گیا۔
پریڈ میں شریک فوجی اس منظم انداز میں حملہ آور ہوئے کہ چند سیکنڈ تک اسے
پریڈ کا ہی حصہ سمجھا گیا۔ اس اسٹیڈیم کے عین سامنے ان کا مدفن ہے۔بحیرہ
روم کے کنارے واقع قدیمی شہر سکندریہ میں جدید ترین لائبریری بھی ہے۔بارہ
منزلوں پر مشتمل یہ لائبریری2000 میں مکمل ہوئی۔ اس کا تصور سکندر اعظم کے
ایک ساتھی کی قائم کردہ لائبریری سے مستعار لیا گیا ہے۔ 297 قبل از مسیح کی
یہ لائبریری پراسرار طور پر جل کر راکھ ہوگئی تھی۔ |