اردو ہی وہ واحد زبان ہے جو تمام
پاکستان کے کونے کونے میں بولی اور سمجھی جاتی ہے،پاکستان میں رہ کر اگر
کسی دوسرے شخص سے تعلق ، رابطہ یا تجارت وغیرہ کرنا ہو تو اس کے لئے اردو
ہی سے مدد لی جاتی ہے یعنی اردو زبان ہی اس کا بہترین ذریعہ ہے۔اردو کے
علاہ دوسرے زبانوں کے بولنے اور سمجھنے والے مخصوص ہوتے ہیں ،صرف مخصوص لوگ
ہی آپس میں تعلق و روابط قائم کرسکتے ہیں مگر ایک شخص جو سندھ کا باشندہ ہو
اور دوسرا خیبر پختون خوا ہ یا پنجاب کا رہنے والا ہو ،تو یہ دونوں اپنے
خیالات کا اظہار دو طریقے سے کرسکتے ہیں ،پہلا طریقہ یہ ہے کہ یہ دونوں ایک
دوسرے کی زبان جانتے ہوں یعنی دونوں میں سے ایک شخص سندھی اور پشتو یا
پنجابی دونوں زبانیں جانتا ہو،دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ایک تیسری زبان کا
انتخاب کیا جائے یعنی اردو جو ہماری قومی زبان ہے اس کا سہارا لیا جائے اور
یہ سب سے آسان طریقہ ہے ۔
اردو ہماری قومی زبان ہے لیکن ہم نے اس دور میں اسے قومی ہونے کا درجہ ہی
نہیں دیا ، تمام قومیں اپنی زبانوں سے پہچانی جاتی ہیں مگر ہماری پہچان کیا
ہے؟ آپ کے سامنے ہیں سکولوں ، کالجوں، یونیورسٹیوں، دفتروں، بینک ،ہوٹلوں
وغیرہ جہاں بھی جاؤ،صرف انگریزی ہی بولی جاتی ہے جیسے یہ ہی ہماری قومی
زبان ہے۔اگر کوئی اردو میں بات کرنا بھی چاہے تو اس کے ساتھ لاپرواہی سے
بات کی جاتی ہے۔جتنے بھی اونچے طبقے کے لوگ ہیں اکثروبیشتر نے اپنی قومی
زبان انگریزی چن لی ہے اور اردو زبان کو متوسط اور غریب لوگوں کے ساتھ
مخصوص کر رکھی ہے۔انگریزی میں بات کرنا فخر سمجھاجاتا ہے اور اردو میں بات
کرنا باعث شرم سمجھا جاتا ہے۔اگر کہیں اردو بھی بولنی پڑے تو وہ اردو اور
انگریزی دونوں کا ایسا ملاپ کرتے ہیں کہ وہ اردو زبان کم اور انگریزی زیادہ
محسوس ہوتی ہے،مگر جب بازاروں میں خریداری کے لئے آتے ہیں تو پھر سے اردو
کے محتاج ہوجاتے ہیں۔بقول دانشوروں کے، کہ اردو زبان کے ساتھ اس دور میں
سوتیلی ماں جیسا سلوک ہورہا ہے یعنی جس طرح اولاد اپنی سوتیلی ماں کو اپنی
حقیقی ماں نہیں سمجھتے اور نہ ہی اپنی ماں کی طرح ان کا خیال رکھتے ہیں اسی
طرح اردو زبان کے ساتھ بھی ہورہا ہے نہ اس کے ساتھ قومی زبان جیسا سلوک
کرتے ہیں اور نہ بولنے کو باعث فخر سمجھتے ہیں۔
آج جرمن اور فرانسیسی زبانوں کی اتنی اہمیت کیوں ہیں؟ انہوں نے اپنے زبانوں
کا معیار بنایا ہے دوسروں کے ساتھ صرف اپنی زبان ہی میں بات کرتے ہیں
،دوسرے قوموں کے ساتھ وہ پھر بھی رعایت رکھ ہی لیتے ہیں لیکن انگریزوں کے
ساتھ تو بالکل ہی اپنی زبان کے علاوہ گفتگو نہیں کرتے ،جس کی وجہ سے انگریز
ان کی زبان سیکھنے کے لئے محتاج ہے۔ڈاکٹر قمر الزمان یوسف زئی، جنھوں نے
امریکا سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری انگریزی ادب میں حاصل کی ہے وہ اکثر ایک واقعہ
سناتے ہیں کہ فرانس میں کسی سے دوسری زبان میں پیرس کے بارے میں پوچھو تو
وہ لاعلمی کا اظہار کر دیتے ہیں لیکن جب ٹوٹی پھوٹی فرانسیسی زبان میں پیرس
کے بارے میں دریافت کرو تو وہ ہاتھ سے پکڑ کر پیرس کے سامنے پہنچا دیں
گے۔اب غور کرو انہوں نے کس طرح اپنے زبان کا معیار بنایا ہے مگر ہم نے اردو
کے ساتھ کیا کیا، ہر کوئی سوچ سکتا ہے۔
دنیا میں جتنی بھی زبانیں ہیں ان کی پہلی زبان اپنی قومی زبان ہوتی ہے اور
باقی زبانوں کو وہ دوسرے درجے پے رکھتے ہیں لیکن ہم نے انگریزی کو پہلی اور
اردو کو دوسری زبان کا درجہ دیا ہے۔سکولوں اور کالجوں میں اردو کی تعلیم کم
اور انگریزی زبان کی تعلیم زیادہ ہیں ۔دنیا کی ہر زبان سیکھنی چاہیے لیکن
سیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ اپنی زبان کو کم تر سمجھا جائے۔اردو زبان
کو کہا ں سے فروغ حاصل ہوگا جب ہماری آفیشل زبان انگریزی ہو۔یہ ہماری ذمہ
داری ہے کہ اردو کو پاکستان اور دنیا کے کونے کونے میں عام کریں ۔بہت سے
ممالک کے لوگ تو یہاں تک نہیں جانتے کہ اردو کونسی ملک کی زبان ہے؟لہذا
اردو زبان میں تعلیم کو رائج کیا جائے اور عام کیا جائے،اس طرح سے اردوزبان
کا ایک معیار بن جائے گا، جو ہمارے لئے باعث فخر ہوگا۔ |