دیوقامت پینگوئن کے فوسلز کی دریافت

نیوزی لینڈ میں قدیم حیات کے ماہرین نے بتایا ہے کہ انہیں زمین پر حیوانی تاریخ کے ایسے سب سے بڑے پینگوئن کی فوسل شدہ باقیات ملی ہیں جس کا قد 1.3 میٹر تھا۔

ویلنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق نیوزی لینڈ کے ماہرین نے 28 فروری کو بتایا کہ اب ناپید ہو چکا یہ پینگوئن ایک ایسا ’شاندار لیکن بہت بڑا‘ جانور تھا، جس کا قد 1.3 میٹر یا 52 انچ کے برابر تھا۔

یہ جانور آج سے 27 ملین اور 24 ملین سال پہلے کے درمیانی عرصے میں بڑی تعداد میں پایا جاتا تھا اور آزادانہ گھومتا پھرتا تھا۔ ماضی میں یہ آبی جانور آج کے نیوزی لینڈ اور اس کے ارد گرد کے سمندری علاقے میں اس وقت پایا جاتا تھا، جب جزائر نیوزی لینڈ ابھی زیادہ تر سمندری پانی کے نیچے ڈوبے ہوئے تھے۔
 

image


اس دور میں ان جزیروں کے زیادہ تر چٹانوں کی طرح نظر آنے والے صرف بہت اونچے حصے ہی پانی سے باہر ہوتے تھے۔ چاروں طرف سے پانی میں گھرے ہوئے خشکی کے یہ حصے اس دور میں نہ صرف اس نسل کے پینگوئنز کو بڑے بڑے سمندری جانوروں کے حملوں سے بچنے میں مدد دیتے تھے بلکہ اسی خشکی پر یہ جانور اپنے لیے خوراک بھی تلاش کر لیتے تھے۔

اس پینگوئن کو کائی رُوکُو کا نام دیا گیا ہے، جس کا مطلب نیوزی لینڈ کے ماؤری نسل کے قدیم باشندوں کی زبان میں ایک ایسا غوطہ خور ہے جو خوراک تلاش کر کے ہی پانی سے باہر نکلتا ہے۔

اس پینگوئن کی فوسل شدہ باقیات کا پہلی مرتبہ پتہ قدیم حیوانی حیات کے ایک ماہر پروفیسر فورڈائس نے 1977ء میں چلایا تھا۔ یونیورسٹی آف اوٹیگو کے اس پروفیسر کو یہ باقیات نیوزی لینڈ کے ساؤتھ آئی لینڈ کے Waimate نامی حصے سے ایک قدیم چٹان سے ملی تھیں۔

image


بعد کے سالوں میں پروفیسر فورڈائس نے دیگر ماہرین کے ساتھ مل کر ان پینگوئنز کے بارے میں ریسرچ کی۔ ان ماہرین میں امریکا کی یونیورسٹی آف نارتھ کیرولائنا کے ایک معروف ماہر ڈان سیپکا بھی شامل تھے۔ پروفیسر فورڈائس نے ڈان سیپکا کے ساتھ مل کر 2009ء میں پہلی مرتبہ ایک ایسا ڈھانچہ تیار کیا تھا کہ کروڑوں سال پہلے ناپید ہو جانے والا کائی رُوکُو نامی یہ پینگوئن دیکھنے میں کیسے لگتا ہو گا۔

اسی ریسرچ کے دوران ماہرین کو پتہ چلا تھا کہ یہ پینگوئن آج کے اس سب سے بڑے پینگوئن سے بھی بہت بڑا ہوتا تھا جس کا قد عام طور پر ایک میٹر تک ہوتا ہے۔ ماہرین بہت قد آور پینگوئنز کی اس نسل کو Emperor یا بادشاہ کا نام دیتے ہیں۔

image


پروفیسر فورڈائس اور ڈان سیکپا کے مطابق ماضی میں کائی رُوکُو کا بہت بڑا قد اسے اس کام میں بڑی مدد دیتا تھا کہ وہ زیادہ فاصلے تک تیر سکے اور غوطہ لگا کر پانی میں بہت نیچے تک جا سکے۔

ماہرین کے مطابق کروڑوں سال قبل پینگوئن کی یہ نسل شاید شدید نوعیت کی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ناپید ہو گئی تھی یا پھر ڈولفن مچھلیوں اور seals کہلانے والے بڑے بڑے آبی جانوروں نے ان کا اتنا زیادہ شکار کرنا شروع کر دیا تھا کہ ان کی نسل ہی ختم ہو گئی۔

کائی رُوکُو کے بارے میں اس نئی تحقیق کی تفصیلات سائنسی جریدے Journal of Vertebrate Paleontology میں شائع ہو گئی ہیں۔

اس سے قبل سن 2010 میں ماہرین نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے پینگوئنز کی ایک ایسی نسل کے جانور کی فوسل شدہ باقیات تلاش کر لی تھیں جس کا قد 1.5 میٹر تک ہوتا تھا اور جو زمین پر قریب 36 ملین سال پہلے تک زندہ تھا۔

YOU MAY ALSO LIKE:

New Zealand was once home to the tallest penguin species ever known — a lanky bird that stood as high as 4.2 feet (1.3 meters). The penguin, dubbed Kairuku grebneffi, lived about 27 million years ago in a penguin paradise. More of New Zealand was underwater at the time, with only today's mountaintops emerging from the sea. That made for excellent coastal nesting for a number of penguin species.