بسنت لاہور شہر کا ایک تاریخی
تہوار ہے جس کو پچھلے تین چار سالوں سے پابندی کا سامنا ہے جس کی وجہ بہت
سے معصوم لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ تھا، ان زندگیوں کا نعم البدل یقینا
ناممکن ہے۔ جہاں پر بسنت لاکھوں لوگوں کا پسندیدہ مشغلہ تھا اسکے ساتھ ساتھ
بسنت سے لاکھوں لوگوں کا روزگار بھی وابستہ تھا۔ جو کہ اب بالکل بے روزگار
ہو چکے ہیں اور بھوک سے اپنی جانیں دے رہے ہیں کیونکہ ہمارے ملک میں بجلی
اور گیس کی لوڈشیڈنگ سے ہزاروں صنعتیں پہلے ہی تباہ ہو چکی ہیں اور لاکھوں
لوگ اس بے روزگاری سے بھی متاثر ہورہے ہیں۔
بسنت پر پابندی لگنے سے متاثر ہونے والوں لوگوں کو منظر عام پر نہیں لایا
جاتا اور نہ ہی ان گھروں میں جو تنگ دستی اور فاقے چل رہے ہیں اسکی کسی کو
فکرہے۔ روزگار کی بے انتہا کمی کی وجہ سے ان لوگوں کے لیے دوسرے کسی
کاروبار کو شروع کرنا بھی دشوار ہے۔ بسنت پر پابندی لگانے اور ہٹانے دونوں
میں نقصان ہے مگر اگر کوشش کی جائے تو شاید اس تہوار کو بھی بچایا جاسکتا
ہے اور لوگوں کی بے روزگاری کوبھی کم کیا جاسکتا ہے اور بسنت کے موقع پر
بین الاقوامی لوگوں کو مدعو کرکے زرمبادلہ بھی کمایا جاسکتا ہے۔ اگر پنجاب
حکومت پتنگ بازی کو صنعت کا درجہ دے دے اور اس کے لیے ایک ادارہ بنا دے جو
پتنگ اور ڈور کی تیاری سے لے کر اڑانے تک اس پر نظر رکھے اوریہ پنجاب حکومت
کے ہی سرپرستی میں کام کرے۔
سب سے پہلے تو, پتنگ بازی کے لئیے ادارہ ہونا چاہیے.
ہر ٹاﺅن کے لیے سٹاف بھرتی ہونا چائیے
پتنگ اڑانے کے لئیے لائسنس کا اجراء ہونا چاہیے
پتنگ بازی کی لائسنس کی سالانہ فیس ہونی چاہیے
یہ ادارہ ہی پتنگ کا سائز اور ڈور کا فارمیٹ بنائے
یہ ادارہ ہی اسکی مینو فیکچرنگ بھی کرے
پتنگ اور ڈور کو سیریل نمبر دئیے جائے
ہر ٹاﺅن کے لئیے کائٹ انسپکٹرز تعینات کئے جائیں
یہ انسپکٹرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کوئی بھی بغیر لائسنس اور ادارہ کی
اپروڈ کردہ ڈور اور پتنگ ہی استعمال کررہا ہواور اگر کوئی خلاف ورزی کرتا
پایا جائے تو اسی وقت اسکا لائسنس کینسل اور اسکو جرمانہ کیا جائے-
پتنگ اور ڈور بیچنے کا بھی لائسنس ہو اور اسکی بھی سالانہ فیس رکھی جائے
پتنگ کی خریداری صرف کائیٹ فلائنگ کے ادارہ سے ہونی چاہیے۔
لوکل پتنگ بنانے اور بیچنے پر سخت پابندی ہونی چاہیے
ہر کائیٹ انسپکٹر کے پاس لائسنس حاصل کرنے والے لوگوں کی لسٹ ہونی چاہیے ۔
پتنگ بازی کی اجازت صرف ہفتہ کی رات اور اتوار کو ہونی چائیے عام دنوں میں
اسکی فروخت اور اڑانے پر پابندی ہونی چاہیے۔
سائیکل اورموٹر سائیکل پر انٹینا ہیلمٹ کی طرح یقینی بنایا جائے اور اسکو
لوگوں میں فری تقسیم کیا جائے۔
مین سڑکوں کے دونوں اطراف اونچی تاریں لگانی چاہیے تاکہ ڈور اگر ان پر گرے
تو کوئی نقصان نہ ہو۔
لائسنسں کے اجراء سے اور پتنگ اور ڈور کی سیل سے کافی آمدنی ہوجائے گی ۔
اور اس میں مزید بہتری لا کر اس صنعت کو بچایا جاسکتا ہے اور بے روزگاری کو
کم بھی کیا جاسکتا ہے۔ شروع میں تو اسکو مالی امداد کی یقنا ضرورت پڑے گی
لیکن کچھ ہی عرصہ میں پنجاب حکومت کے تعاون سے یہ ادارہ اپنا تما م وزن خود
سنبھال لے گا بشرط یہ کہ اس میں بھی کرپشن کرنے والے لوگ بھرتی نہ کئیے
جائیں۔ لیکن بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا !!! |