بلوچستان پچھلے دنوں خبروں کا
مرکزی نکتہ بنا رہا اگر خبریں خوش کن ہوں تو تب تو اور بات ہوتی ہے لیکن یہ
خبریں پاکستان کے ہر محب وطن شہری کیلئے انتہائی تشویش ناک اور افسوس ناک
ہیں۔ کبھی ادھر سے لاپتہ شہریوں کی مسخ شدہ لاشوں کی خبریں ملتی ہیں اور
کبھی علیحدگی کی تحریک کی اطلاعات۔ آخر حالات یہاں تک پہنچے کیسے؟ آج سب اس
کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ حالات پر پہلے
ہی نظر کیوں نظر نہ رکھی گئی۔اس وقت جب حالات بہتر تھے ان شکایات کا ازالہ
کرنے کی کوشش کیوں نہ کی گئی جو بلوچستان کے بارے میں تھیں۔ دراصل یہ ہمارا
قومی المیہ ہے کہ ہم پلوں کے نیچے سے پانی گزرنے کے بعد اس کے آگے بند
باندھنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ جو ہم ابھی بھی کر رہے ہیں لیکن ہنوز غیر
سنجیدگی کا شکار ہیں اور صرف باتیں ہو رہی ہیں عمل فی الحال نظر نہیں آرہا۔
مسائل میں کمی نہیں آرہی اور نہ ہی لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ براہمداغ اور
حربیار کو ہر ٹی وی چینل پر سنوا سنوا کر بلوچ نوجوانوں کو مزید برافروختہ
کیا جارہا ہے اور دوسری طرف کا نکتہ نظر سنوانے کی کوئی خاص کوشش نہیں کی
جارہی یوں نادانستہ یا نا دانستہ مسئلے کو مزید الجھایا جا رہا ہے۔ اگرچہ
ان کی شکایات سننا ضروری ہے لیکن مسائل کا جو حل وہ بتاتے ہیں اس کے علاوہ
محب وطن بلوچوں کے ذہنوں میں بھی کچھ حل ہوں گے جن کا سننا بھی انتہائی
ضروری ہے۔
بلوچستان کے حالات کو اس نہج تک لانے میں کئی عناصر بہت اہم رہے ہیں۔ اس
کیلئے صرف حکومت کو بھی موردِالزام نہیں سمجھا جا سکتا اور فوج کو بھی اور
نہ ہی سردار بری الذمہ قرار دیئے جا سکتے ہیں اور یہ تاثر لینا بھی درست
نہیں کہ مسائل صرف بلوچستان میں ہیں بلکہ یہ مسائل پورے پاکستان کے ہیں جس
میں کچھ تو ہماری معاشی حالت سے وابستہ ہیں اور کچھ حکومت کی نااہلیوں سے۔
جہا ں تک لاپتہ افراد کا تعلق ہے تو یہ باقی تین صوبوں میں بھی ہیں اور یہ
امر قابل افسوس ہے، اسی طرح مسخ شدہ لاشوں کا ملنا بھی قابل افسوس بھی ہے
اور قابل مذمت بھی لیکن بغیر سوچے سمجھے ان کا الزام فوج کے سر دھردینا اور
اسٹیبلشمنٹ اسٹیبلشمنٹ کے نعرے لگانا باقی ہر مجرم کی مدد کرنے کے مترادف
ہے نہ کہ ملک کی خدمت کے۔
بلوچستان میں اس وقت ستّر سردار ہیں جن میں سے صرف مری، بگٹی اور مینگل
سردارعلیحدگی کی باتیں کر رہے ہیں یہاں تک کہ ان میں سے بھی خاندان کا ہر
فرد اس نکتہ نظر کا حامی نہیں ۔ اس کی مثال براہمداغ، شاہ زین اور عالی
بگٹی ہیں جن میں پہلے تو بگٹی قبیلے کی سرداری کیلئے کشمکش چلی اور ابھی
بھی انتہا پسندانہ نظریہ صرف براہمداغ کا ہے جو کہ نواب اکبر بگٹی کا نواسہ
ہے پوتا نہیں۔
معاملہ جو بھی ہے اور جس کے بھی درمیان ہے نقصان پاکستان کا ہے اور اسے ہم
نے ہر صورت خراب ہونے سے روکنا ہے اور جو خرابی ہو چکی ہے اس کا سد ِباب
بھی کرنا ہے۔ بار بار بلوچستان کو مشرقی پاکستان سے تشبہیہ دینا معاملے کو
خوامخواہ ہوا دینے والی بات ہے جبکہ درحقیقت ان معاملات میں بڑا فرق ہے
مشرقی پاکستان کا زمینی فاصلہ وہاں تک پہنچنے میں ایک بڑی رکاوٹ تھا جبکہ
آج کا پاکستان نظریاتی کے ساتھ ساتھ ایک جغرافیائی اکائی بھی ہے۔ یہاں ہر
صوبہ دوسرے پر انحصار کرنے پر مجبور ہے اور یہ سمجھنا کہ کوئی بھی صوبہ ہر
معاملے میں خود کفیل ہو سکتا ہے کسی طرح درست نہیں ۔ کسی کے پاس بجلی ہے تو
کسی کے پاس گندم اور کہیں بندرگاہ موجود ہے توکہیں معدنی دولت۔ اس لیے یہ
سوچنا کہ کوئی بھی صوبہ دوسرے کے بغیر اپنی ضروریات پوری کر سکتا ہے بالکل
غلط ہے اور اگر اسی خیال کی ترویج کی جائے تو ہی ہم ایک ایسا پاکستان تشکیل
دے سکتے ہیں جس میں ہر صوبہ اور ہر حصہ ایک فعال کردار ادا کر سکے۔
بلوچستان میں اس وقت ایک بے چینی ضرور پائی جاتی ہے لیکن ایسا سوچنا کہ
برہمداغ اور حربیار پورا بلوچستان ہے ، بھی انتہائی غلط ہے۔ بلوچستان کی
ایک بہت بڑی آبادی پختون بھی ہیں اور وہ بلوچ بھی جو پاکستان سے محبت کرتے
ہیں خاص کر بلوچ نوجوان اور یہ نوجوان بذات خود پاکستان کا ایک بہت بڑا
ہتھیار ہیں لہٰذا ان پر کام کرنا بہت ضروری ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ محب
وطن نوجوانوں کو ہتھیار بند کریں بلکہ انہیں ایک مثبت تبدیلی لانے کیلئے
استعمال کیا جائے ۔ حکومت انہیں وہ وسائل مہیا کرے جو انہیں ذہنی طور پر
مطمئن کر دے تو یہی قومی یکجہتی کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ بلوچستان کے مسائل
پر میڈیا پر کئی پروگرام کیے جا رہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے بھی انتہائی
احتیاط کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور خاص کر سیاسی
زیادتیوں اور ترقیاتی کمی کا احساس پوری قوم کو ہے اور سب اس کا مداوا
چاہتے ہیں اور اگرسب ہی ایسا چاہتے ہیں تو حکومت خلوص ِدل سے اس کی منصوبہ
بندی کرے وقت اب بھی ہمارے ہاتھ میں ہے ، بلوچوں کی اکثریت اب بھی پاکستان
کی حامی ہے وہ خود بھی بد امنی سے تنگ ہیں وہ بھی آزادی سے ایک خوشحال
پاکستان میں رہنا چاہتے ہیں وہی پاکستان جس کیلئے ان کے آبائواجداد نے ووٹ
دیا تھا اور اس میں رہنا پسند کیا تھا خالصتا اپنی مرضی سے۔ |