”کیا اس پر بات کرنی چاہئے؟
یہ کون سا نیا واقعہ ہے؟ ایسا تو ہوتا رہتا ہے !“
” اس کے خلاف قرارداد غیر اہم ہے“ ہم ذاتی باتوں کو نہ چھیڑیں تو اچھا ہے “
یہ تھے کچھ تبصرے جو اس واقعے پر قلم اٹھانے سے پہلے سننے کو ملے ۔ایک لمحے
کو ان باتوں سے دل متاثر ہوا کہ یہ تو واقعی برائی کی تشہیر ہوئی-
بہتر ہے کہ زیادہ اہم باتوں کو توجہ دی جا ئے۔ لہذا اس سے اجتناب ہی بہتر
ہے مگر پھر فوراً ہی دماغ نے سوا ل کیا یہ اتنی معمولی بات ہے ؟ اور اگر ہم
ایسے واقعات دیکھتے ہی رہے ہیں یا ہوتے ہی رہے ہیں تو آ خر کب تک ہوتے رہیں
گے ؟ موضوع کیا ہو جس پر بحث کی جائے ۔ اس بات کو سوچتے ہوئے بہت پرانی
پڑھی ہوئی ایک کہاوت یاد آگئی۔
موضوع کے انتخاب کے سلسلے میں انسانوں کی تین اقسام ہیں :
۱) اعلٰی قسم کے انسان جن کی گفتگو کا محور کے نظریات کے گرد ہے
۲) اوسط ذہن کے افراد واقعات کو موضوع گفتگو بناتے ہیں جبکہ
۳) کمتر ذہنیت کے لوگ شخصیات کو زیر بحث لاتے ہیں
افراد کی طرح معاشرے بھی یقیناً اسی طرح کی تقسیم سے گزرتے ہیں ۔ اور اگر
ہم اپنے پاکستانی معاشرے کو دیکھیں تو وہ اوسط ذہنیت mediocre کی فہرست میں
کھڑا نظر آتا ہے ۔ جی ہاں ! آ پ کو اس بات سے اتفاق کرنا پڑ ے گا ۔ جبھی تو
ہم دیکھتے ہیں کہ کسی واقعے پر گفتگو کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے وہ جنگل کی
آگ کی طرح سب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے ۔ مثال کے طور پر وینا ملک کو لے
لیں اس واقعے پر کوئی بھی لب کشائی کئے بغیر نہ رہ سکا ۔یہاں تک کہ کمتر
ذہنیت کے افراد کے درجے تک جا پہنچے جو شخصیات کے گرد رہتے ہیں ۔یہ اور بات
ہے کہ جس طبقے کی شخصیت تھی وہاں بدنامی ہی کا چلن ہے کہ شہرت تو اسی سے
حاصل ہوتی ہے۔
دوسرا واقعہ تین طالبات کا میوزیکل فنکشن میں بھگدڑ مچ جانے سے کچلے جانے
کا ہے ۔خبر آن ائر ہونے کے باوجود یہ واقعہ عام بحث کے لئے نہ کھل سکا
کیونکہ اس سے خود میڈیا ( جو موضوع گفتگو کا فیصلہ کرتا ہے ) پر ضرب پڑ رہی
تھی۔ ہاں پنجاب اسمبلی نے اس واقعے پر قرارداد منظور کروا کر شائد اپنا
شمار درجہ اول کے معاشرے میں کروالیا تھا جو طوفان کے پھیلنے سے پہلے پیش
بندی کرلیتی ہیں مگر فوراً ریورس گیئر لگا کر اسے منسوخ کرکے کمتر نہ سہی
اوسط درجہ ہونے کا ثبوت دے ہی دیا۔
یہ باتیں ذہن میں آ تے ہی Rand Corporation ( امریکی تھنک ٹینک )کی وہ
رپورٹ یاد آئی جس میں ہمارے خلاف جو حکمت عملی شائع کی تھی اس میں ایک نکتہ
یہ بھی ہے کہ Case to case study کے ذریعے رائے سازی کا اہتمام کیا جائے۔
یہ دشمن کی شاندار بصیرت ہی کہی جاسکتی ہے کہ وہ ہمارے معاشرے کے رحجان (
واقعات کو زیر بحث بنانے کی عادت) کے مطابق ہی ہمارے لئے اپنا لائحہ عمل
متعین کرتا ہے۔
تو بس اس واقعے کو highlight کر نا بھی ضروری ہے اور اس کے ہر پہلو پر بحث
بھی ۔ یہ تھپڑ کوئی معمولی بات نہیں ہے !نومنتخب خاتون رکن اسمبلی وحیدہ
شاہ نے پریزائڈنگ افسران کی تھپڑوں سے تواضع کر دی۔ اور میڈیا پر آ نے کے
با عث پریس کانفرنس کے ذریعے معاملہ دبانے کی کوشش کی گئی مگر بات عدالت
میں آپہنچی ہے۔
یہ وحیدہ شاہ کا محض ذاتی فعل ہو سکتا ہے مگر یہ ہمارے سیاسی نظام کی
فرعونیت کو واضح کررہا ہے ۔ مزید یہ کہ جاگیردارانہ مزاج کس طرح جمہوریت کو
متا ثر کر رہا ہے ؟ یہ ایشو ہرگز ذاتی یا خاندانی نہیں بلکہ ہمارے لیڈران
کے رویے، اخلاق اور کردار کو واضح کر رہا ہے ۔یہ واقعہ کسی طرح بھی privacy
killingکے زمرے میں نہیں آتا کہ سرعام کیمرہ کے سامنے یہ سب کچھ ہوا ۔اگر
یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں تو بھی
case study کے طور پر اس پر مختلف زاویوں سے بات ہوسکتی ہے :
٭ وحیدہ شاہ کو اسی طرح تھپڑ لگائے جائیں جیسے اس نے لگائے تھے جب فاطمہ
بنت محمدﷺ کو exemption نہیں مل سکتا تو پی پی کے لیڈر کو ملنے کا کیا جواز
ہے؟ یہ اسلام کا عادلانہ نظام ہے ۔ مجرم کو سزا دینا !حتٰی کوئی عورت بھی
مستثنٰی نہیں!
٭سیاسی لیڈران کا اخلاق وکردار کیا ہونا چاہئے؟ اسلام کا سیاسی نظام زیربحث
لایا جاسکتاہے۔
٭جاگیرداری نظام اور ذہنیت کو نمایاں کرکے اس کی قباحتوں سے معاشرے کو
روشناس کرایا جاسکتا ہے۔ پسے اور کچلے ہوئے عوام کو امید کی کرن دکھائی
جاسکتی ہے۔ معاشرتی انقلاب کی راہ ہموار ہو سکتی ہے۔
٭ اگر ایک کو بھی سزا مل جائے تو آ ئندہ کے لئے سدھار کی راہ ہوسکتی ہے!
٭خواتین کے حقوق کا دعوٰی کرنے والوں کی اس حوالے سے کڑی نگرانی کی ضرورت
ہے ۔ ان کو گھروں سے باہر تحفظ کا حصول یقینی بنانے کی راہ ہموار کی جا ئے۔
وحیدہ شاہ کا تھپڑ ہمارے معاشرے کی درست سمت رہنمائی کرنے کے معاملے میں
اونٹ پر آخری تنکا بھی بن سکتا ہے اگر ہم بصیرت کا مظاہرہ کریں تو!!! |