جہاد اسلام کا ایک اجتماعی فریضہ
ہے اور اس کو انجام دینے میں ہروہ کوشش اور محنت بطور عبادت شامل ہوتی ہے
جو ملت کے استحکام میں،جملہ اجتماعی امور میں اور ایک عام مجاہد سے لے کر
ملت کے معین مصالح مثلاًحق کی سربلندی اعلائے اﷲ مظلموں کی حمایت حملہ
آوروں کا مقابلہ اور اگے بڑھ کر ان کی کمین گاہوں ،رسد گاہوں ،چھانیوں
سلسلہ رسل وسائل اور ان کی مرکزی قوت کو ختم کرنے تک سب امور شامل ہیں۔
سلطان جابر کے سامنے کلمہ حق کہنا بھی جہاد ہے اور قتال بھی جہاد میں شامل
ہے اور یہ جہاد کی آخری انتہائی صورت ہے ایک ایسا نظریہ جو عالمگیر ہونے
اور دنیا کے موجودہ نظاموں کی تنسیخ کا دعویدار ہو تا ہے اور باطل کی تمام
قوتوں کے لیے ایک چیلنج ہوتا ہے چونکہ باطل قوتوں کی طرف سے مقابلے کی توقع
رکھتے ہوئے جہاد کی ہر صور ت کے لیے تیار رہنا ضروری ہے۔اسلام چونکہ
رہبانیت میں اعتقاد نہیں سکھاتااور زندگی کے حقائق کو نظر انداز بھی نہیں
کرتا ۔جہاد میں قتال بھی شامل ہے لیکن ہر قتال جہاد نہیں ہوتا۔جہاد اپنے
مقصد طریق کاراور نصف العین کے اعتبار سے محض اعلائے کلمہ اﷲاور تحفظ غایات
اسلامی کے لیئے ہوتا ہے یہ اندھا دھند جنگ وجدال نہیں بلکہ نیک مقاصد اور
ملت کی خاطر ایک با اصول جنگ ہے جو معین اصولوں ،پابندیوں اور احتیاطوں کے
ساتھ لڑی جاتی ہے اور جہاد میں برتنے والی احتیاطوں کا ذکر قرآن مجید
میںبصرا حت کیا گیاہے۔
جبکہ موجودہ دو ر کی چند نام نہاد جہادی تنظیموں نے اپنے ذاتی مفاد کی خاطر
اپنے ساتھ زبر دستی اسلام کے نام کو جوڑ کر پور دنیا میں مذہب اسلام کو
رُسوا کیا ہوا ہے اور ان تنظیموں نے جہاد کے معنی ہی بدل کر رکھ دئیے ہیں
یہ وہ لوگ ہیں جن کا نہ تو کوئی دین ہے اورنہ کوئی مذہب ان کاکام ہے پس
نہتے بے قصور لوگوں کا خون بہانا ،بوڑھے ،بچے اور عورتوں پر تشدد کرناان پر
خود کش حملے کرنا ، کمزوروں پر زور جتانا اور علاقوں میں خوف و ہراس
پھیلانے کے لیئے کھلے عام غیرقانونی اسلحے کی نمائش کرنا ہے اور اپنے اس
جابرانہ فعل کو یہ لوگ جہاد کا نام دیتے ہیں جو سرا سر اسلامی جہاد کے
بالکل مترادف ہے معصوم لوگوں کے خون سے ہولی کھیلنے والے درندوں کو انسان
کہنا انسانیت کی بھی توہین ہے اور یہ لوگ مسلمان توہو ہی نہیں سکتے اور نہ
ہی ایسے لوگوں کا مذہب اسلام سے کوئی واسطہ ہوسکتا ہے کیونکہ مذہب اسلام تو
محبت اور اخوت کا درس دیتا ہے جبکہ قتل وغارت ،بدامنی اور فساد سے نفرت
سکھاتا ہے۔ پاکستان میں اس وقت جعلی مذہبی جہادی تنظیموں کی بھر مار ہے جو
ہمارے دشمن ممالک کے ایجنڈے پر کام کر رہی ہیں اور ان تنطیموں کا مقصد صرف
اور صرف پاکستان میں مذہبی فرقہ وارانہ تعصب پھیلاکر پاکستان کے امن کو
تباہ کرنا اور پوری دنیا میں پاکستان کے نام کو بدنام کرناہے اور اسی ناپاک
مشن کی ایک کڑی ہے راولپنڈی سے گلگت جانیوالی مسافر بس پر دہشتگردوں کے
حملے کی جہاں چند خونی درندوں نے کوہستان کے18نہتے بے گناہ شہریوں کو بس سے
اُتا ر کر فائرنگ کر کے شہید کردیا 28فروری 2012کا دن کوہستان کے لوگوں کے
لیئے کسی بھی طرح قیامت سے کم نہیں تھا ظالموں نے درندگی کی ایسی
انتہادیکھائی کہ معصوم بچوں کے سامنے باپ کو ،بہنوں کے سامنے بھائیوں کو ،بیویوں
کے سامنے شوہروں کو اور ماﺅں کے سامنے ان کے لاڈلوں کو گولیوں کی برسات
کرکے خون سے نہلایا دیا۔آئی این پی کے مطابق شہیدہونے والے تمام افراد شعیہ
فرقہ سے تعق رکھتے تھے کیا ہمارے لیئے ےہ جاننا ضروری ہے کہ ظلم کا شکار
ہونے والے لوگوں کا تعلق کسی مذہب یا کس فرقے سے تھا کیا ہمارے لیئے اتنا
ہی جا ن لینا بہت نہیں کہ وہ پاکستانی تھے اور کسی بھی مذہب یا فرقے سے
ہونے سے پہلے وہ لوگ انسان تھے اور ہمار ا مذہب اسلام تو ہمیں یہ سکھاتا ہے
کہ کسی ایک بے گناہ انسان کا خون بہانا پوری انسانیت کا خون بہانے کے برابر
ہے اور پوری دنیا میں کون سا ایسا قانون ہے کونسا ایسا مذہب ہے جو یہ
سکھاتاہوکہ ایک ہی ملک میں رہنے والے دوسرے مذہب یا فرقے سے تعلق رکھنے
والے لوگوں کا بے رحمی سے خون بہادیا جائے۔پاکستان اسلامی ملک ہے لیکن یہاں
مسلمانوں کے علاوہ ہندو، سکھ اور عیسائی بھی رہتے ہیں اور ان سبھی مختلف
مکاتب فکر لوگوں کو مکمل آزادی اور خود مختیاری حاصل ہے ایسا ملک جہاں
اقلیتوں کو بھی مکمل آزادی حاصل ہو ایسے ملک میں کسی ایک خاص فرقے کو ظلم
کا نشانہ بنانا جو یقیناً سازش ہے ان ملک دشمن عناصر کی جو رہتے اور کھاتے
پاکستان کا ہیں لیکن گن گاتے ہیں کسی اور کے۔کوہستان میں18بے گناہ لوگوں کے
شہید ہونے کی خبر سن کر مجھے 26نومبر 2011کا وہ دن یاد آگیا جب نیٹو فورسز
نے پاک افغان سرحد پر واقع چیک پوسٹ پر جنگی جہازوں سے حملہ کر کے پاکستان
آرمی کے 24جوانوں کو شہید کردیاتھااور پاکستان نے امریکہ کی اس جارحیت کا
جواب دیتے ہوئے نیٹو سپلائی پر پابندی عائد کردی تھی اور نیٹو فورسز سے
شمسی ائیر بیس بھی خالی کروادی تھی اور اس وقت نیٹوفورسز کے لیئے پاکستان
کی حکومت اور عوام میں شدید رنج وغم اور غصہ دیکھنے کو ملاتھا 26نومبر
2011کو شہید ہونے والے فوجیوں کا غم اب تک ہمارے دلوں میں ہے اور یہی وجہ
ہے کہ اس دن سے لےکر آج تک ہمارے تعلقات امریکہ کے ساتھ معمول پر نہیں آرہے
ہیں اور امریکہ کی انہیں حرکتوں کی وجہ سے ہی ہمارے اند ر امریکہ کے لیئے
بے شمار نفرت پائی جائی ہے ۔
اگر 26نومبر2011اور 28فروری 2012کے دونوں دنوں کا آپس میں موازنہ کریں تو
ایک بات واضح ہوتی ہے کہ جس طرح امریکہ ہمار ادشمن ہے ویسے ہی وہ لوگ ہمارے
دشمن ہیں جو مسلمانوں کے نام کو بدنام کرتے ہوئے قتل وغارت کر رہے ہیں آج
جتنی نفرت ہم امریکہ سے یا دوسر ے اسلام مخالف ممالک سے کرتے ہیں ہمیں اس
سے بھی زیادہ نفرت ان لوگوں سے کرنے چاہیے کیونکہ یہ شر پسند لوگ دوستوں کے
روپ میں چھپے ہوئے وہ دشمن ہیں جو مستقبل میں پاکستان کے لیے امریکہ سے بھی
زیادہ خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں اور اتنا یاد رہے کہ ان لوگوں کا ٹارگٹ
کوہستان میں شہید ہونےوالے وہ صر ف 18لوگ نہیں ہیں بلکہ ان کا ٹارگٹ پورے
پاکستان کے 18کروڑلوگ ہیں۔۔ |