یہ تو ہم کر سکتے ہیں ناں

موجودہ تیز رفتار عہد نے ہمارے طرز زیست اور انداز فکر کو کئی پہلوؤں سے متاثر کیا ہے۔ نت نئی ایجادات اپنے فوائد کے ساتھ ساتھ انتہائی مضر سائید ایفکٹس بھی اپنے ساتھ لائی ہیں۔ ویسے تو زندگی کے بیش تر شعبے اس برق رفتار دور سے متاثر ہیں لیکن ہمارا موضوع انداز فکر میں آنے والی حیرتناک بلکہ خطرناک
تبدیلیاں ہیں۔

غور سے دیکھا جائے تو ہم سرسری پن اور سطحی انداز فکر کے عادی ہوتے جارہے ہیں۔ ماحول میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات، حادثات اور لمحہ بہ لمحہ بدلنے والے حالات جس توجہ اور گہرائی سے مطالعے کے متقاضی ہوتے ہیں، ہم اس درجہ غور و فکر کی زحمت نہیں اٹھاتے۔ ہمارے ذہنوں میں چیزوں کی تحقیق، پس پردہ حقیقتوں اور حالات کے اس تیزی سے پلٹا کھاجانے کے اسباب سے جان کاری حاصل کرنے کا خیال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس طرح ہم ایک اندھے اور بہرے شخص کی طرح زندگی گزار رہے ہوتے ہیں۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ ہم اس تساہل اور غفلت کے باعث لاشعوری طور پر کسی کے لئے استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر موبائل فون ٹیکنالوجی آج کے دور میں ایک عام سی چیز بن چکی ہے۔ تقریباً ہر دوسرا شخص باآسانی اس ٹیکنالوجی سے مستفید ہو رہا ہے۔ اسی طرح انٹرنیٹ بھی ایک عام آدمی کی رسائی سے کچھ زیادہ دور نہیں۔ ہم دونوں اشیاءکو اپنے ان گنت فائدوں کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اپنے سرسری پن کی وجہ سے لاشعوری طور پر بہت سی منفی باتوں کے فروغ کا ذریعہ بھی بن رہے ہیں۔ موبائل فون میں ایس ایم ایس کے ذریعہ گفتگو اور پیغام رسانی اب ہماری زندگی کا ایک جزو بن چکی ہے۔ یہ اطلاع، خبر، معلومات اور تفریح کا ایک بڑا ذریعہ بن چکے ہیں۔ لیکن اس کے سائیڈ ایفکٹس ملاحظہ کیجئے: ہمارے فون کے Inbox میں جس طرح کا بھی مسیج آتا ہے ہم اسے بلا سوچے سمجھے بے دھڑک آگے دھکیل دیتے ہیں۔ اس کی جانچ کا خیال تک ہمارے ذہنوں میں نہیں گزرتا۔ اس طرح غیر محسوس طور پر ہم بعض مخصوص مقاصد کی تکمیل کا حصہ بن جاتے ہیں۔

ہمارا روز کا مشاہدہ ہے کہ اچانک کوئی ایس ایم ایس سیل فون کی اسکرین پر آدھمکتا ہے، جس میں مسلمانوں کی غیرت کو چیلنج کر کے خبر دی جاتی ہے کہ "فلاں گلوکار نے فلاں گانا گایا ہے اور اس میں دین و شریعت کی توہین پر مبنی اشعار ہیں، لہٰذا سب مسلمانوں کو چاہئے کہ یہ گانا نہ سنیں اور اگر آپ غیرت مند ہیں تو اس ایس ایم ایس کو اتنا چلائیں کہ وہ گانا بند ہو جائے"۔ اس طرح کبھی کسی پیغام میں یہ خبر جان کے سنائی جارہی ہوتی ہے کہ "فلاں ملک میں ایک شخص نے فلم بنائی ہے، اس میں اسلامی کی مقدس
ترین ہستیوں کی توہین کی گئی ہے۔ مسلمانوں! اب تو جاگو۔ اتنے ایس ایم ایس بھیجو کہ وہ فلم ریلیز ہی نہ ہو سکے"۔

یہ تو موبائل فون ایس ایم ایس کی ایک دو مثالیں تھیں۔ انٹرنیٹ میں سوشل ویب سائٹس کا آج کل بہت شہرہ ہے۔ ہر تیسرا نوجوان حتی کہ بڑے بوڑھے بھی لمحہ بہ لمحہ اپنا Status اپ ڈیٹ کرتے نظر آتے ہیں۔ وہاں کی بے اعتدالیاں ایس ایم ایس سے کئی گنا بڑھ کر ہیں۔ ان سائٹس پر بھی مذکورہ بالا قسم کے پیغامات کو خوبصورت ٹاٹلز میں لکھ کر اپنے فرینڈز کو Share کرنے کی اپیل کی جاتی ہے اور اس پر ثواب دارین کا وعدہ بھی ہوتا ہے۔

اب ہم سرسری پنے کے مارے ہوئے غور و فکر اور تحقیق و جانچ کی زحمت اٹھائے بغیر اسلام کی محبت میں، پرجوش انداز میں اس نوع کے ایس ایم ایس اور انٹرنیٹ پیغامات کی آگے ترسیل میں جت جاتے ہیں اور دل ہی دل میں دنیا و آخرت کے ثواب سمیٹنے کے جذبات بھی ابل رہے ہوتے ہیں۔ اب اس کے نتائج کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ہم اس مذکورہ فلم ، گانے یا پھر اسی نوع کی کسی چیز کو بند تو نہ کر سکے، البتہ ہم نے اسکی تشہیر (Advertisemint) میں نمایاں حصہ لے کر لاشعوری طور پر اس کی خدمت کی ہے، کیونکہ بہت سے لوگ اس سے ناواقف تھے ہم نے اپنی مفت کوشش سے ان کی آگاہی کا سامان کیا، اور یہ حقیقت ہے کہ انسان قدرتی طور پر منفی اور نفسانی سرگرمیوں کی طرف میلان رکھتا ہے۔ اس طرح کئی لوگ ان گانوں اور فلموں سے واقف ہو جاتے ہیں اور ان کی Production کمپنیاں مفت میں اپنی تشہیر کروا لیتی ہیں۔ اسی طرح مختلف مقدس شخصیات مثلاً صحابہ کرامؓ سے منسوب اقوال کثرت سے زیر گردش رہتے ہیں۔ یقیناً بہت سی باتیں بظاہر اچھی بھی ہوتی ہیں لیکن کسی خاص شخص کے ساتھ ان کی نسبت جب تک مستند حوالوں سے ثابت نہ ہوجائے، اس پر اعتماد کرنا دیانت داری کے منافی ہے۔ اسی طرح من گھڑت احادیث کی ترسیل بھی معمول بنتی جارہی ہے۔ ہم دینی جذبے سے سرشار ہو کر اس کے مزید پھیلنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔

گذشتہ ماہ کی ایک رپورٹ کے مطابق موبائل فون کے استعمال میں پاکستان دنیا میں آٹھویں نمبر پر ہے۔ پاکستان میں 11 کروڑ سے زائد کنکشن استعمال کیے جارہے ہیں جبکہ پوری دنیا میں تقریباً 5کروڑ موبائل کنکشن ہیں۔ چین میں 95 کروڑ اور بھارت میں 88 کروڑ کنکشن ہیں۔ یہی حال سوشل ویب سائٹس یوزرز کا
ہے۔ اب خود سوچیے کہ ہم ایک کلک (Click) کے ذریعہ ایک بے بنیاد اور منفی پیغام کی کس قدر وسیع پیمانے پر ترسیل کا باعث بن جاتے ہیں اور ہمیں پتہ بھی نہیں چلتا۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟ اس کا جواب نہایت سادہ اور عمل درآمد کے لحاظ سے آسان اور سہل ہے، وہ یہ کہ اس طرح کے پیغامات خواہ وہ موبائل فون ایس ایم ایس کی صورت میں ہوں یا سوشل ویب سائٹس پر Tag کیے گئے پیغامات ہوں انہیں نظر انداز کر دیا جائے۔ ان کو کسی بھی صورت Forward نہ کرنا چاہیے۔ یہ قاعدہ ہے کہ کسی بھی چیز پر حد سے زیادہ تنقید بھی اس کی شہرت کا باعث بنتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جس چیز کو ختم کرنا اور مٹانا مقصود ہو تو اس کے تذکرے چھوڑ دیے جائیں اس طرح وہ چیز خود بخود لوگوں کے ذہنوں سے محو ہو جائے گی اور ہم بھی کسی کی مفت تشہیری مہم کا حصہ بننے سے محفوظ رہیں گے۔

جہاں تک احادیث قرآنیہ اور اہم اسلامی شخصیات کے اقوال کا تعلق ہے اس حوالے سے مسلمان ہر عہد میں انتہائی حساس (Sensitive) رہے ہیں۔ اسی حساسیت کے پیش نظر ہر اس فتنے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا گیا ہے جس نے قرآن و حدیث کے خلاف سر اٹھایا۔ آیات اور احادیث کے ترجمے کے لئے انتہائی محتاط اور ذی استعداد اہل علم پر اعتماد کیا جاتا ہے اور ایس ایم ایس میں جو ترجمے عموماً زیر گردش رہتے ہیں وہ صحت کے کس درجے پر ہیں؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔ اس کا بہترین حل بھی موجود ہے۔ اس ضمن میں ہمیں اہل علم کے اس قول کو ملحوظ نظر رکھنا چاہیے کہ "بعض اوقات کسی جائز پر عمل جبکہ اس کے نتیجے میں کسی خرابی اور شر کا دروازہ کھلتا ہو، کو ترک کیا جائے گا۔ تاکہ ممکنہ برائی کے ظہور سے قبل اس کا سد باب کر لیا جائے"۔

بہتر ہو گا کہ اس طرح کے پیغامات کی ترسیل روک دی جائے۔ اس طرح قرآن و حدیث کے منکرین اور فتنہ و فساد پھیلانے والوں کی سازشوں اور چالوں سے بچا جا سکتا ہے۔ صرف تھوڑی سی توجہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے مزاج سے سرسری پن اور سطحیت پسندی کو کھرچ نکالنا ہوگا۔ معاشرے میں رونما ہونے والے واقعات اور حالات کو بنظر غائر (Deeply) دیکھنا ہوگا۔ بندہ مومن کی انفرادی شان یہی ہے کہ وہ "جدھر کی ہوا ہو بے تحاشا ادھر کو دوڑ نہیں پڑتا" بلکہ تمام چیزوں کا اسلامی تعلیمات اور خداداد فراست کے ذریعے تجزیہ کر کے کوئی قدم اٹھاتا ہے۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 22466 views Reading and Writing... View More