بس سٹینڈز، ویگن سٹاپس اور دیگر
مقامات پر سٹرکوں کے کنارے کتنے لوگ ہر وقت سواری کی انتظار میں گھنٹوں
کھڑے رہتے ہیں اور بمشکل کہیں گاڑی میں جگہ ملتی ہے، وہ جگہ بھی کیا ہوتی
ہے، بس ملبے کی طرح گاڑی میں لادا جاتا ہے ، گھنٹوں گرمی اور سردی کی شدت
اور انتظار کی تھکا دینے والی تکلیف کے بعد ہم اسے بھی غنیمت سمجھ کر خوشی،
خوشی قبول کر لیتے ہیں۔ یہ معاملہ دور ، دراز پہاڑی علاقوں تک محدود نہیں
بلکہ بڑے شہروں میں زیادہ شدت سے درپیش ہے۔ پھر یہ معاملہ جنگلے والی
سوزوکی اور پھٹی پرانی جیپوں تک بھی محدود نہیں بلکہ ائیرکنڈیشن سیلون بسوں،
سکائی ویز، ریلوئے اور ہوائی سفر کا معاملہ بھی یہی ہے۔ یہاں تو ہفتوں پہلے
بکنگ کروانے کے باوجود سیٹ کنفرم نہیں ہوتی۔ یہ معاملہ کسی ایک مقام، علاقے
اور شہر کا نہیں یہ نوحہ پورے پاکستان کا ہے۔معاملہ یہاں ہی ختم نہیں ہوتا
بلکہ کرائے بھی من مانے بٹورے جاتے ہیں۔ سرکاری طور پر طے شدہ کرایہ
پاکستان کے کسی کونے میں بھی لاگو نہیں۔ ٹرانسپورٹرز جو جی میں آتا ہے وہی
لیتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر آپ ٹرانسپورٹرز سے ملیں تو معاملہ بالکل مختلف
نوعیت کا معلوم ہوتا ہے۔ پورا دن کھچا کھچ مسافروں کو لادنے اور صبح چھ بجے
سے رات دس بارہ بجے تک چلنے والی مسافر گاڑیوں کے مالکان شکوہ کرتے ہیں کہ
مہنگائی کی وجہ سے خرچہ پورا نہیں ہو رہا، ڈیزل روز مہنگا ہو رہا ہے،
سٹرکوں کی حالت ٹھیک نہیں، ٹریفک پولیس کے ریٹ بڑھ گئے ہیں، جگہ، جگہ بھتہ
خوری ہے وغیرہ، وغیرہ۔مسافروں کا خیال ہے کہ ٹرانسپورٹرز لوٹ مار اورموج
میلہ کر رہے ہیں ، جبکہ ٹرانسپورٹرز پریشان ہیں کہ دن رات محنت کرنے کے
باوجود ہاتھ کچھ نہیں آرہا۔ریلوے اور پی آئی اے مسلسل خسارے میں جا رہا ہے۔
پرائیوٹ ٹرانسپورٹرز بھی مقروض ہوتے جارہے ہیں۔ کسی نے ٹائر والوں کے پیسے
دینے ہیں اور کسی نے ورکشاپ کے اور کسی نے سپیرپارٹس والوں کے، ہر طرف
پریشانی اور مایوسی ہے۔
ایک اور منظر دیکھیے! ہمارے ہاں راج (مستری) اپنے کام کا معاوضہ چھ سے آٹھ
سو روپے دیہاڑی لیتا ہے۔ آپ کسی راج سے معاملہ طے کریں، ایڈوانس بھی دے دیں
اور پھر مہینوں اس کی انتظار کرتے رہیں، وہ ہاتھ نہیں لگے گا۔ اس نے بیک
وقت کئی ایک مقامات پر معاملات طے کر رکھے ہوتے ہیں۔ کام کروانے والا
پریشان ہے کہ اس کام کی معاوضہ بہت زیادہ ہے۔ جب مستری کام کرے تو مالک کا
اطمینان نہیں ہوتا کہ کام کی پراگریس کچھ نہیں۔ یہی معاملہ تعمیرات کے شعبے
میں کام کرنے والے مزدوروں کا ہے۔ جب ان مستریوں اور مزدوروں سے بات ہوگی
تو وہ بہ زبان حال یہی عرض کریں گے کہ بندہ مزدور کے گھر فاقہ کشی کی نوبت
آچکی ہے۔
آپ کسی عام سے ریسٹورنٹ میں چلے جائیں ، جہاں متوسط درجے کے لوگ خرو و نوش
کے لیے جاتے ہیں۔ شائید ہی کسی ریسٹورنٹ میں بیٹھنے کی جگہ مل سکے، کرسیاں
بھری پڑی ہیں، کچھ لوگ انتظار میں کھڑے ہیں۔ یہ معاملہ کھوکھا نما ہوٹلوں
اور فائیو سٹار ہوٹلوں کا بھی ہے۔ کھوکھے سے فائیو سٹار تک کہیں ریٹ پر
کوئی کنٹرول نہیں، مالک جو چاہتا ہے اور جتنا چاہتا ہے وصول کرتا ہے۔ اس کے
باوجود شام کو روتا ہے کہ دیہاڑی نہیں لگی، خرچے پورے نہیں ہوئے، اپنے
مینجرز کو جھاڑ پلاتا ہے، یہ کام کیسے چلے گا۔
ریڑھی بان، کھوکھے والے، ہاتھ سے کام کرنے والے کاریگروں سمیت سب لوگ شاکی
ہیں۔ ایک مزدور سے فیکٹری مالک اور صنعتکار سے ایکسپورٹرز تک سب ہی لوگ
شکوہ ، شکایت کر رہے ہیں کہ معاملات درست نہیں، خرچے پورے نہیں ہو رہے ،
بڑی مشکل سے گزارا ہو رہا ہے۔ آئے روز چیمبر آف کامرس کے عہدیداروں کے
مطالبات، مختلف تجارتی تنظیموں کے عہدیداران اور ٹریڈ یونیز کی طرف سے کساد
بازاری اور حکومتی پالیسیوں کے خلاف احتجاج جاری ہے۔ بجلی، گیس، پانی، فون
اور دیگر ضروریات زندگی کے بل بڑے، بڑوں کے لیے ناقابل برداشت ہو گئے ہیں۔
اس کے باوجود واپڈا مکمل خسارے میں ہے۔ بجلی کمپنیاں بند ہونے کو ہیں اور
گیس کا محکمہ بیچارگی سے دوچار ہے۔ کہیں اطمینان اور شکر گزاری دیکھنے کو
نہیں مل رہی۔
ذرا غور کیجیے، کچھ دیر کے لیے سوچیے کہ معاملہ کیا ہے۔ گاڑیوں کی بہتات کے
باوجود مسافر در بدر ہو رہے ہیں۔ دوکانوں پر گاہکوں کی قطاریں لگنے کے
باوجود دوکاندار پریشان ہے۔ مہینوں کے ایڈوانس بکنگ کے باوجود ریلوے اور پی
آئی اے خسارے میں کیوں ہیں۔ پورا دن بلکہ اس کے بعد آدھی رات تک کھلے رہنے
والے عالیشان شاپنگ سینٹرز کے کاروباری حضرات کساد بازاری کا رونا رو رہے
ہیں۔بھاری معاوضے دینے والے اور بھاری معاوضے وصول کرنے والے سارے ہی خرچے
کے لیے تنگ ہیں۔ بے سکونی اور بے اطمینانی ہے۔ بھائی ، بھائی کا گلہ کاٹ
رہا ہے۔ دکاندار گاہک کو دھوکہ دینے کے درپے ہے، آجر مزدور کے بچوں کا پیٹ
کاٹنے کے درپے ہے۔ ملازم مالک کا اور مالک ملازم کا مخالف ہے۔ ہر طرف چھینا
چھپٹی جاری ہے۔ اولاد والدین سے ناخوش ہے اور والدین اولاد سے تنگ ہیں۔
رشتوں کا احترام ناپید ہوتا جارہا ہے اور دوستیاں دشمنیوں میں تبدیل ہو رہی
ہیں۔ہرطرف افراتفری، بدامنی اور بے یقینی کی کیفیت ہے۔ قائدین سے عام کارکن
تک کسی کو کوئی راستہ نہیں سوجھ رہا کہ اس مشکل سے کیسے نکل سکتے ہیں۔ نہ
کوئی رہبر نظر آرہا اور نہ کوئی راستہ، پوری قوم ایک بند گلی میں بے یار و
مددگار کھڑی ہے۔
اہل دل پریشان ہیں، فکرمند ہیں۔ بوڑھے، بوڑھیاں مایوس ہیں کہ اپنی نئی نسل
کو ان حالات کے رحم کرم پر نہیں چھوڑ سکتے۔ جائیں تو جائیں کہاں۔ نہ عدل و
انصاف ہے، نہ علم و ہنر۔ نہ روزگار ہے اور نہ کوئی سہارا۔ میرٹ نام کی کوئی
شے پورے معاشرے میں ناپید ہے۔ غنڈہ گردی، لاقانونیت اور سینہ زوری کا دور ،
دورہ ہے۔ معیشت مغربی سودکاروں کے ہاتھوں میں مقید ہے۔ ماچس کی ڈبیا سے
ڈیزل ،بجلی، گیس اور پانی تک کے ریٹ واشنگٹن سے طے ہوتے ہیں۔ حکمرانی نام
کی کوئی چیز موجود نہیں، حکم باہر سے آتا ہے اور یہ لوگ پرانے نمبرداروں کی
طرح صاحب بہادر کے احکامات کو بلا سوچے سمجھے بے رحمی سے عمل درآمد کروانے
پر مصر ہیں۔ ڈرون حملے قبائلی علاقوں میں ہو رہے ہیں، باقی ملک والے اس لیے
خاموش ہیں کہ شکر ہے ہمارے گھروں تک نہیں پہنچے۔ کل جب ان کے گھروں تک پہنچ
جائیں گے تو پھر قبائلی بھائیوں کی طرف دیکھیں گے کہ شاید کوئی محمد بن
قاسم اٹھے، کوئی حبیب اللہ اٹھے اور ہمارا نجات دہندہ بن سکے۔ آج تم خاموش
ہو، کل وہ بھی بیگانہ بن جائے گا، پھر کہاں جاؤ گے۔
آپ غور کیجیے.... اچھی طرح جانچ پرکھ کر لیجیے، معاملہ وہی ہے،جو محمد عربی
ﷺ کو درپیش تھا۔ انہیں بھی قبائلی روایات اور مشرکانہ معاشرے کے ساتھ
سمجھوتہ کرنے کی دعوت دے گئی تھی۔ ان کے لیے بھی خانہ خدا کو نمازوں کے لیے
کھولنے کی پیشکش کی گئی تھی، انہیں بھی ڈالروں کی مانند سونے اور چاندی سے
تولنے کی لالچ دی گئی تھی، انہیں بھی عربی کی خوبصورت عورت سے نکاح کا
پیغام دیا گیا تھا۔ درویش خدامست ، جو اللہ کی توحید کا قائل تھا، جو خدا
کی اطاعت میں کسی دوسری اطاعت کو جمع کرنے پر آمادہ نہ تھا۔ جو نماز کے
ساتھ سود کے نظام جو جمع کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ جو توحید کے ساتھ بت
پرستی پر آمادہ نہیں تھا۔ اس نے ظلم و جبر کے نظام کے ساتھ سمجھوتہ نہیں
کیا۔ اس نے ساری لالچوں اور پیشکشوں کو حکارت سے ٹھکرا کر عزیمت کا راستہ
اختیار کیا۔ اس نے دنیاوی خداوں سے انکار کر کے اپنے رب العرش العظیم کی
مکمل اور بے مثال اطاعت کا دم بھرا، اسی پر ایمان رکھا، اسی پر بھروسہ کیا
اور اسے کے وعدوں پر اعتبار کیا ۔ ظلم کے آگے سر جھکانے کے بجائے مٹھی بھر
صحابہ کرام کی ٹیم کے ساتھ پوری بہادری اور شجاعت کے ساتھ نظام ظلم و جبر
کو للکارا، اس معاشرے کی ہر برائی کی نشاندہی کی اور ہر برائی سے برائت اور
نفرت کا اظہار کیا۔ کسی بھی طرح کا سمجھوتہ کرنے سے انکار کیا۔ اللہ واحدہ
لا شریک کے کلمے کی سربلندی کے لیے دن رات ایک کیے اور باآخر ایک شاندار
اسلامی انقلاب برپا کر کے عرب کے ریگستانوں سے ظلم اور جبر کی ہر نشانی کو
حرف غلط کی طرح مٹا دیا، دفنا دیا۔ ظالم سماج سے آزادی کے بعد عدل وانصاف
اور اعلیٰ انسانی اقدار پر مشتمل ایسا نظام مملکت رائج کیا جس کی مثال مشرق
اور مغرب میں پھیلی ہوئی یہ وسیع کائنات کہیں پیش نہ کر سکی۔
ہم محمد عربی ﷺ کے پیروکار اور جانثار کہلانے کے باوجود کھلی بغاوت کے
مرتکب ہو رہے ہیں۔ سودی نظام معیشت کو اپنائے ہوئے ہیں۔ اس سے نہ ہماری
غیرت ایمانی کوئی تقاضا کرتی ہے، نہ ہماری نمازیں ہمیں اس پر شرمندہ کرتی
ہیں نہ ہمارا تقویٰ کوئی سوال کرتا ہے اور نہ ہم خود شرمندہ ہوتے ہیں۔
سوچنے کی یہی بات ہے کہ کیا یہ وہی ایمان ہے، جسے حضر ت بلال ؓ نے جس کو
اپنا نصب العین قرار دیا تھا، جس پر حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمر اور حضرت علیؓ
یقین رکھتے تھے۔ وہ ایمان جن قربانیوں کا تقاضا کرتا تھا اور صحابہ کرام نے
جو قربانیاں دیں۔ کیا ہم ان سارے طاغوتوں کی اطاعت نہیں کررہے، جن سے بغاوت
کرنے کا نام ایمان ہے۔
قارئین کرام! ہمیں درپیش سارے مسائل کی جڑ غیراسلامی نظام زندگی ہے۔ جس نے
معاشرے میں ایسی اقدار کو فروغ دیا ہے کہ ہر ایک دوسرے سے نالاں اور اس سے
خود کو غیر محفوظ تصور کرتا ہے۔ ہمارے مسائل کا واحد حل یہی ہے کہ ہم
موجودہ غیر اسلامی اور ہمارے رب سے دشمنی پر مبنی نظام سے کھلی بغاوت کا
اعلان کردیں۔ ہم سودی نظام جوہمارے ایمان کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے کے
خاتمے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں اور ایک شاندار اسلامی نظام زندگی کے قیام
کے لیے اپنی پوری صلاحیت، اپنی پوری جانی اور مالی قوت جھونک دیں۔ ان
شاءاللہ بہت جلد پوری کائنات اس امن و اخوت کے حامل نظام سے روشن ہونے والی
ہے۔ جب ظلم و جبر کا خاتمہ کر کے پوری انسانیت کو امن و سکون سے ہمکنار کیا
جائے گا۔ محمد عربی ﷺ کا فرمان ہے ایک عورت سونے سے لدی ہوئی دنیا کے ایک
کونے سے دوسرے کونے تک دوڑتی ہوئی جائے گی اور اسے کوئی خطرہ نہیں ہوگا۔
یعنی نہ اس کی عزت پر کوئی میلی نگاہ ڈالنے والا ہو گا اور نہ اس کے سونے
اور چاندی کی دولت پر ہاتھ ڈالنے والا کوئی ہوگا۔ اس شاندار اور عالمگیر
انقلاب کا وقت قریب آن پہنچا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ خود میں اس جدوجہد میں
کہاں کھڑا ہوں۔ کیا میرا شمار اس کے حامیوں میں ہوتا ہے کہ دشمنوں میں۔ کیا
میں انقلاب کے علمبرداروں کی صف میں کھڑا ہوں یا ان کے مدمقابل یا محض
تماشائی کا کردار ادا کر رہا ہوں۔ ہمیں اپنے کردار کا خود تعین کرنا ہے۔
ظلم و جبر کی سیاہ رات کو امن و اخوت ، برداشت اور رواداری ،احترام اور
عقیدت ، محبت اور شفقت سے بدلنے اور انسانوں کو انسانوں کی غلامی سے نجات
دلا کر ایک خدا اور ایک رسول محمد ﷺ کی غلامی میں دینے کے لیے حضرت ابوبکر،
عمر،عثمان، علی، بلال، عمر بن عبدالعزیز جیسے کردار ادا کرنے کے لیے خود کو
پیش کریں تاکہ اللہ کی زمین کو انسانیت کے دشمنوں اور سفاک ظالموں سے پاک
کرکے امن و اخوت کا گہوارہ بنا سکیں۔ |