مطالعہ سیرت وقت کا تقاضہ

انسانوں کی اس بھیڑ میں کچھ لوگ گفتاروکردارہر دواعتبارسے غیرمعمولی ہوتے ہیں۔ ان کے اٹھنے بیٹھنے ، چال چلن ، میل ملاقات ، اوررطرز ِمعاشرت میں انوکھے پن کے ساتھ ساتھ ایک عجیب قسم کی کشش بھی ہوتی ہے ۔ لوگ جب اس نوع کے افراد کے طرزِ زیست کو دیکھتے ہیں تو بے اختیار اس کی طرف کھچے چلے جاتے ہیں ۔ یہ غیرمعمولی افراد ویسے تو دنیاسے اپنے طے شدہ ایام بِتاکر گزرجاتے ہیں لیکن صدیوںتک ان کی زندگیوں پرتحقیق ومطالعہ کاکام جاری رہتاہے ۔ لوگ ان کے طرزِعمل اوراندازِ کار سے اصل اورضابطے کشیدکرکے اپنالائحہ عمل طے کرتے ہیں ۔ اپنی قوم وملت کی ترقی کو انہی کے طے کردہ خطوط پرعمل پیراہونے میں منحصر سمجھتے ہیں۔ ان کی پیش کردہ تعلیمات کے مطابق اپنی پالیسیاں ترتیب دینے میں ہی درخشاں اورشاندار مستقبل کے اسرار مضر سمجھتے ہیں ۔

اگر ان غیرمعمولی شخصیات کی فہرست بنائی جائے تو ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفےٰ ﷺ کا نام نامی سب سے اوپرآئے گا۔ دنیامیں جتنی بھی بڑی شخصیات گزری ہیں اگر ان کی زندگیوں کا بغورجائز ہ لیاجائے تو پتہ چلے گاکہ وہ کسی ایک پہلو یا چند مخصوص کارناموں کی وجہ سے شہرت کی حامل ہوتی ہیں، لیکن حضوراکرمﷺ کی ذات اقدس ہراعتبار سے کامل اورمکمل ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی کاکوئی بھی گوشہ ایسا نہیں جسے آپ ﷺ کے جانثاروں نے محفوظ نہ رکھاہو۔ چودہ سوسال پیچھے جب خدائے لم یزل نے سلسلہ نبوت پرمہرِاختتام ثبت کی اورحضورﷺ اس سلسلے کی آخری کڑی قرار پائے ۔ اس منصب اورعہدے کاتقاضا بھی یہی تھاکہ اس کاحامل جامع الکمالات ہو۔ اس کی ایک ایک بات کو ثروتسنیم میں دھلی ہوئی ہو، اس کاایک ایک عمل سینکڑوں اصول ہائے زیست کی بنیاد بنے ۔ اس کا ایک ایک جملہ لاکھوں مضامین کو اپنے اندرسموئے ہوئے ہو، اس کی خلوت اور جلوت ہردوامت کے لیے عمل کے حوالے سے پوری طرح واضح اوراطمینان بخش ہو۔ جنگ ہو یاامن ، قیام ہو یاہجرت ، فقرہویابادشاہی غرض زندگی کے ہرشعبے سے متعلق ہدایات اورراہ نما اصولوں کے سَوتے اسی کی ذات سے پھوٹتے ہوں۔ چنانچہ حضوراکرم ﷺ میں تمام کمالات اپنی اعلٰی ترین صورت میں موجود تھے ۔

کہتے ہیں کہ کمال تو وہ ہے جس کا اعتراف بیگانے بھی کریں۔ اپنے تو بسااوقات عقیدت اور ارادت کے جذبات سے معمور ہونے کی وجہ سے بھی اپنے پیشواﺅں کی بلندی کردار کے گن گاتے رہتے ہیں۔ ابتدائی سطور میں عرض کرچکاہوں کہ حضوراکرم ﷺ کی حیات طیّبہ کاہرگوشہ انتہائی معتمد اور موثق حوالوں سے محفوظ ہے۔ حضور علیہ السلام کی سیرت اورمبارک سوانح پرنہ صرف یہ کہ مسلمانوں نے کام کیابلکہ غیرمسلم بھی اس بابت تحقیق میں پیچھے نہیں رہے قطع نظراس کے کہ ان کے مقاصد کیاتھے ۔ علامہ سید سلمان ندوی ؒماضی قریب کے نامور عالمِ دین اورممتاز دانشور ہیں۔ وہ اپنے مشہورخطبات” خطبات مِدارس “ میں سے تیسرے خطبے میں حضور ﷺ کی سیرت کے تاریخی پہلوپرگفتگوفرماتے ہوئے کہتے ہیں :
”تامّل کو چھوڑوکہ اس کا تودین وایمان ہی اس سرکار کی عقیدت وغلامی ہے، دشمنوں کے کیمپ میں آﺅ۔ہندوستان میں ہندوﺅں نے،سکھوں نے، عیسائیوں نے، برہموسماجیوں نے آپ ﷺ کی سیرتیں لکھی ہیں۔ یورپ جس کو سرورِکائنات کے ساتھ عقیدت نہیں ،و ہاں بھی مشنری کی خدمت کے لیے یاعلمی ذوق یاتاریخِ عالم کی تکمیل کے لیے لائف آف محمد ﷺ پرکتابیں لکھی گئیں۔ آج (خطاب کے وقت نومبر1925) سے غالباً سولہ ، سترہ برس پہلے دمشق کے ایک علمی رسالہ ”المقتبس“ میں شمار چھپاتھاکہ اس وقت تک یورپ کی مختلف زبانوں میں پیغمبرِ اسلام ﷺ کے متعلق سترہ سوکتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ (قارئین ! یہ (1925ءسے سولہ برس پیچھے کی بات ہے ۔آپ خود ہی اندازہ لگالیں کہ ایک صدی بعدآج یہ تعداد کیاہوگی؟ فانی)اس کے بعد اس عہد کی کتابوں کو ملاﺅتویہ شمار کہاں تک پہنچے گا۔ انگریزی زبان میں پروفیسرمارگویس(Margolouth)(جوآکسفورڈ یونیورسٹی میں عربی کے پروفیسرہیں ) کی کتاب ”محمد ﷺ“ سے (1905ءمیں ہیروزآف دی نیشنز کے سلسلہ میں چھپی ہے ) زہریلی کوئی کتاب سیرت نبوی ﷺ پرانگریزی میں نہیں لکھی گئی۔ اس میں اس شخص نے ہرواقعہ کے متعلق انتہائی سندبہم پہنچاکراس کو بگاڑ کردکھانے میں کوئی کسراٹھانہیں رکھی ہے ۔ تاہم وہ اپنے مقدمہ میں اس حقیقت کے اعتراف سے باز نہ رہ سکا۔
''The Biographers of the Prophet Mohammad From a long series it is Impossible To End But in which it Would Be Honourable To Find A Place''
”محمد ﷺ کے سوانح نگاروں کا ایک طویل سلسلہ ہے ، جس کاختم ہوناناممکن ہے ۔لیکن اس میں جگہ پاناقابل عزت ہے “

جان ڈیون پورٹ صاحب نے 1870ءمیں انگریزی میں سب سے زیادہ ہمدردانہ کتاب ”اپالوجی فار محمد ﷺ اینڈ دی قرآن “ لکھی ہے ۔ اس کتاب کو وہ ان الفاظ سے شروع کرتے ہیں :
”اس میں کچھ شبہ نہیں کہ تمام فاتحوں میں ایک بھی ایسانہیں ہے کہ جس کے وقائع عمری محمد ﷺ کے وقائع عمری سے زیادہ مفصل اورسچے ہوں “ (سیرت نبوی ﷺ کاعطرخطبات مدارس مطبوعہ دارلسلام کراچی )

اس کے علاوہ بارسورتھ اسمتھ (Basworthsmith) ،گبن، گاڑی فری ، ہیگنس نے اپنی اپنی تحاریر میں حضور ﷺ کی سیرت وسوانح کے محفوظ ہونے کا کھلے لفظوں میں اعتراف کیاہے ۔ اب تو ان غیرمسلم معترفین (جو محقق ہیں ) کی تعداد سینکڑوں سے تجاوز کرگئی ہے ۔

سیرت رسول اکرم ﷺسے متعلق متذکرہ بالا حوالہ جات پیش کرنے کا بنیادی مقصدیہ ہے کہ ہمارے اندر وہ گمشدہ احساس دوبارہ سے بیدارہوجائے ۔ ہمارے نبی ﷺ کی زندگی محض ایک فرد کی زندگی نہ تھی بلکہ وہ تو آفاقی معیار (Universal standared)تھی۔ وہ ایک ایسا موزوں ترین سانچہ ہے جس میں ڈھل کی قیامت تک کی نسلیں دنیاوی سرخروئی اور نجاتِ اخروی کے پروانے حاصل کرسکتی ہیں ۔

بیدار اقوام ترقی کے حصول کے لیے اپنے راہ نماؤں کی زندگیوں کو بطورِ عملی نمونے (Role model) کے پیشِ نظر رکھ کر اپنی جدوجہد کو جاری رکھتی ہے اور انہی راہ نماؤں کے بتائے ہوئے اصولوں کو درخشاں مستقبل اور مرغوب مقاصد کے حصول کی کلید سمجھتے ہیں جبکہ ہم اہلِ اسلام اپنے علمی سرمائے سے استفادہ تو درکنار پوری طرح واقفیت بھی نہیں رکھتے۔ وہ مسلمان جن سے اہلِ مغرب علم کی روشنی مستعار لے کر آج دنیاوی ترقی کی اوج پر پہنچ چکے ہیں ، اپنا ماضی، اپنی روایت، اپنے عظیم الشان مآثر سب کچھ تقریباً فراموش کرتے جارہے ہیں ۔ اس پر ستم یہ کہ اس نقصان کو نقصان ہی نہیں سمجھتے۔
وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا
اور کارواں کے دل سے احساسِ زیاں جاتا رہا

غیروں کی چیرہ دستیاں اور اپنوں کی غیر دانش مندانہ پالیسیاں تو ہمارے زوال کا سبب ہیں ، لیکن اس سے بڑھ کر جس چیز نے امتِ مسلمہ کے وقار کو مجروح کیا ہے وہ ہے کردار کی پستی۔ غیر مسلموں کی ایک بڑی تعداد ہماری مذہبی تعلیمات اور اسلام کے فلسفہ اخلاق کی حقانیت کو دلی طور پر تسلیم کرتی ہے، لیکن مسلمانوں کے کردار کی ، ان کی تعلیمات سے عدمِ مماثلت دیکھ کر وہ لوگ پس وپیش کرنے لگتے ہیں ۔ مسلمانوں کے کردار وگفتار کے مابین گہری اور وسیع خلیج ان کے لیے صحیح نتیجے تک پہنچنے سے مانع ہوجاتی ہے ۔ اب سوال یہ ہے کہ کردار کی تعمیر کیوں کی جائے؟ اس کا معیار کیا ہوگا؟ تو یہ سوال کچھ نیا نہیں ۔ اس کا جواب تو چودہ صدیاں قبل قرآن دے چکا ۔ چنانچہ قرآن نے کھلے لفظوں میں حضور ﷺ کی زندگی کو ہمارے لیے اسوہ حسنہ قراردے دیا۔

رسول اکرم ﷺ کی ذات کی اسی جامعیت کو علامہ سلیمان ندویؒ بہت لطیف پیرائے میں بیان فرماتے ہیں :
” غرض ایک ایسی شخصی زندگی جو ہر طائفہ انسانی اور ہر حالتِ انسانی کے مختلف مظاہر اور ہر قسم کے صحیح جذبات اورکامل اخلاق کا مجموعہ ہو، صرف محمد ﷺ کی سیرت ہے۔ اگر دولت مندہو تو مکے کے تاجر اوربحرین کے خزینہ دار کی تقلید کرو۔ اگر غریب ہو تو شعب ابی طالب کے قیدی اور مدینے کے مہمان کی کیفیت سنو۔ اگر بادشاہ ہوتو سلطانِ عرب کا حال پڑھو۔ا گر رعایا ہوتو قریش کے محکوم کو ایک نظر دیکھو۔ اگر فاتح ہوتو بدرو حنین کے سپہ سالار پر نگاہ دوڑاؤ۔ اگر تم نے شکست کھائی ہے تو معرکہ احد سے عبرت حاصل کرو۔ اگر تم استاد اور معلم ہوتوصفہ کی درس گاہ کے معلم کو دیکھو۔ اگر شاگرد ہو تو روح الامین کے سامنے بیٹھنے والے پر نظر جماؤ۔ اگر واعظ اور ناصح ہوتو مسجدِ مدینہ کے منبر پر کھڑے ہونے والے کی باتیں سنو۔ اگر تنہائی اور بے کسی کے عالم میں حق کی منادی کا فرض انجام دینا چاہتے ہو تومکہ کے بے یارومددگار نبی ﷺ کا اسوہ حسنہ تمہارے سامنے ہے۔ اگر تم حق کی نصرت کے بعد اپنے دشمنوں کو زیر اور مخالفوں کو کمزور بنا چکے ہوتو فاتحِ مکہ کا نظارہ کرو۔ اگر اپنے کاروبار اور دنیاوی جدوجہد کا نظم و نسق درست کرنا چاہتے ہوتو بنی نضیر، خیبر اور فدک کی زمینوں کے مالک کے کاروبار اور نظم ونسق کو دیکھو۔ اگریتیم ہوتو آمنہ و عبداللہ کے جگر گوشہ کو نہ بھولو۔ اگر بچہ ہوتو حلیمہ سعدیہ کے لاڈلے بچے کو دیکھو۔ اگر تم جوان ہوتو مکے کے ایک چرواہے کی سیرت پڑھو۔ اگر سفرِ کاروبار میں ہوتو بصرہ کے کاروانِ سالار کی مثالیں ڈھونڈو۔ا گر عدالت کے قاضی اور پنجائتوں کے ثالث ہوتو کعبہ میں نورِ آفتاب سے پہلے داخل ہونے والے ثالث کو دیکھوجو حجرِ اسود کو کعبہ کے ایک گوشے میں کھڑا کررہا ہے ۔ مدینے کی کچی مسجد کے صحن میں بیٹھنے والے منصف کو دیکھو، جس کی نظر میں شاہ و گدا اور امیر وغریب برابر تھے۔اگر تم بیویوں کے شوہر ہوتو خدیجہ ؓ اور عائشہ ؓ کے مقدس شوہر کی حیاتِ پاک کا مطالعہ کرو۔ اگراولاد والے ہوتو فاطمہ ؓ کے باپ اور حسن و حسین ؓ کے نانا کا حال پوچھو۔ غرض تم جو بھی کوئی ہو اور کسی حال میں ہوتو تمہاری زندگی کے لیے نمونہ اور تمہاری سیرت کی درستی و اصلاح کے لیے سامان ، تمہارے ظلمت خانہ کے لیے ہدایت کا چراغ اور راہنمائی کا نور محمد رسول اللہ ﷺ کی جامعیتِ کبریٰ کے خزانہ میں ہر وقت اور ہمہ دم مل سکتا ہے۔ اس لیے طبقہ انسانی کے ہر طالب اور نورِ ایمانی کے ہر متلاشی کے لیے صرف محمدﷺ کی سیرت ہدایت کا نمونہ اور نجات کا ذریعہ ہے ۔ جس کی نگاہ کے سامنے محمد ﷺ کی سیرت ہے ، اس کے سامنے نوح ؑ ، ابراہیم ؑ ، ایوب ؑ ، یونس ؑ ، موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ سب کی سیرتیں موجود ہیں ۔ گویا تمام انبیاءکرام کی سیرتیں صرف ایک ہی جنس کی اشیاءکی دکانیں ہیں اور محمد ﷺ کی سیرت اخلاق اور اعمال کی دنیا کا سب سے بڑا بازار (مارکیٹ ) ہے جہاں ہر جنس کے خریدار اور ہر شے کے طلب گار کے لیے بہترین سامان موجود ہے۔“ (خطباتِ مدراس)

قارئین! ہم میں سے ہر شخص کا تعلق سطورِ بالا میں مذکور اصناف میں سے کسی نہ کسی سے بہر صورت ہے۔ اب ہم میں سے کون ایسا شخص ہوگا جو دنیا اورآخرت میں سرخروئی اورکامرانی کا خواہش مند نہیں ؟ظاہر ہے ہرکوئی دنیاکاچین وعزت اورآخرت میں نجات چاہتاہے ۔ یہ تمناصرف اسی صورت میں صحیح طورپر پوری ہوسکتی ہے کہ ہم سیرت نبویﷺکا گہری اوردقیق نظروں مطالعہ کریں۔ اورصرف مطالعہ پراکتفاءکافی نہیں بلکہ اپنے عمل وکردار اوراخلاق وگفتار کو سیرت نبوی ﷺ سے ہم آہنگ اورسیرت نبوی ﷺ کے مطابق بنائیں ۔جوشخص معاشرے میںجس حیثیت سے زندگی گزاررہاہے، اس شعبے اورگوشے سے متعلق نبی کریم ﷺ کے طرزِعمل کا بالخصوص مطالعہ کرے اور جب اس کا عمل سیرت نبوی ﷺ کے موافق ہوجائے گاتو نہ صرف یہ کہ وہ دنیامیں کامیابی سے زندگی گزارے گابلکہ آخرت کی کامر انی بھی اس کا مقدر ٹھہرے گی ۔

سوال دوتھے ، جوذہن میں کلبلارہے تھے : اوّل یہ کہ سیرت نبویﷺ کا مطالعہ کیوں ضروری ہے ؟ میرے خیال میں ماقبل کی طویل گفتگو سے اس ”کیوں “ کاجواب نکھرکر سامنے آچکاہوگا ۔دوسرا سوال جو”کیوں “ کے بعد ذہن میں انگڑائی لیتاہے وہ یہ ہے کہ سیرت نبوی ﷺ کا مطالعہ کیسے کیاجائے ....؟جس طرح یہ سوال بہت سادہ ہے ، بالکل اسی طرح اس کا جواب بھی سادہ ترین ہے ۔ وہ یہ کہ ”سیرت کی کسی بھی آسان مگر مستند کتاب سے ابتداءکی جائے ....“ میں نے اس حوالے سے ڈاکٹر سیّد عزیرالرحمٰن صاحب (سیرت نبوی ﷺ موصوف کااختصاصی موضوع ہے اوراس میدان میں انہوں نے گراں قدر کام بھی کیاہے ) سے استفسار کیاتو ان کاجواب بھی قریب قریب یہی تھا۔

بہرکیف عربی خواں حضرات کے لیے تو لائبریریاں بھری پڑی ہیں۔ اپنے قریبی علماءسے مشورہ کرکے کسی ایک کا انتخاب کرلیں ۔ رہے اردو خواں احباب ان کے لیے راقم کی رائے میں ”سیرت خاتم الانبیائ“ (مختصر مگر مستند کتاب ہے ) از مفتی محمد شفیع ؒ ، سیرت المصطفے ﷺ از مولانا ادریس کاندھلوی (یہ انتہائی تحقیقی اورمستندکتاب ہے ۔ ) مولانا مناظر احسن گیلانی کی ”النبی الخاتم ﷺ“ سیرت پرلازوال کتاب ہے (اس کے مطالعے سے قبل قاری کو سیرت سے متعلق مناسب معلومات ہوناضروری ہیں ) مولانا صفی الرحمٰن مبارکپوری کی ”الرحیق المختوم“ (اس کا اردو ترجمہ مارکیٹ میں دستیاب ہے ) بھی بہترین ہے ۔اس کے علاوہ مولاناسید سلیمان ندوی ؒ کے ”خطبات مِدراس “ بھی پوری سیرت طیبہ کا مختصر منضبط مگرانتہائی جامع مجموعہ ہے ۔ اس کا مطالعہ جدید روشنی( یعنی مغرب سے درآمد شدہ روشن خیالی)سے متاثر لوگوں کے شکوک و شبہات کے ازالے کے لیے مفید تر ہوگا۔ (زیرِ نظر مضمون کے ابتدائی حصے میں اسی مجموعے سے استفادہ کیا گیاہے۔) اس کے علاوہ ڈاکٹر سید عزیز الرحمان( موصوف بین الاقوامی اسلامی یونیورسٹی اسلام آباد کے شعبے دعوة اکیڈمی کی سندھ برانچ کے ڈائریکٹر ہیں) کی ادارت میں شائع ہونے والا ضخیم ، تحقیقی ششماہی مجلہ ”السیرة“ بھی سیرت کے موضوع پر وافر معلومات فراہم کرتا ہے۔ ڈاکٹر سید عزیز الرحمان کے سیرت کے موضوع پر کئی تحقیقی مضامین اب مجموعے کی صورت میں چھپ چکے ہیں ، ان کا مطالعہ بہت مفید رہے گا۔ ڈاکٹر محمود احمد غازیؒ کے محاضرات سیرت کے موضوع پر انتہائی منضبط اور دلکش لیکچرز کا مجموعہ ہے۔ مذکورہ کتب میں سے کسی ایک کامطالعہ سیرت نبوی ﷺ سے متعلق وافرمعلومات فراہم کرے گا۔
Farhan Fani
About the Author: Farhan Fani Read More Articles by Farhan Fani: 22 Articles with 24225 views Reading and Writing... View More