غزہ کے محاصرین کی عملی مدد شرعی فریضہ اور وقت کی ضرورت

ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
پروفیسر شریعہ اسلامیہ – كليہ دار العلوم – قاہرہ یونیورسٹی
ممبر الاتحاد العالمي لعلماء المسلمين
ممبر فقہ کونسل شمالی امریکہ ، یورپی کونسل برائے افتاء و تحقیق
سابق وائس چانسلرالجامعة الاسلامیة الامریکیة – ڈيٹرائيٹ
www.salahsoltan.com

ترجمہ: اشتیاق علام فلاحی

القدس، اسراء اور ربّانی فیضانات کی سرزمین فلسطین کے فرزندان اور ہمارے دینی بھائی جس ابتلاء اور آزمائش میں مبتلا ہیں اس سلسلہ میں ہمارا شرعی فریضہ اور وقت کا تقاضہ ہے کہ ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں۔ اگر ہمارے اندر کسی بھی درجہ میں دینی حمیّت باقی ہے، اقصیٰ اور فلسطین پر ہمیں فخر ہے، غزہ کے بھائیوں کے درد کا کچھ احساس ہے تو ہمیں چار کام کرنے ہوں گے، کسی بھی مسلم مرد یا خاتون کے لیے جائز نہیں کہ ان سے پہلو تہی کرے یا ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑے۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہماری امّت مردانِ کار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ امّت پر شاعر کا یہ قول صادق آتا ہے۔
إذا مات منا سيد قام سيد
قؤول لما قال الكرام فعول
(اگر ہمارے کسی ایک سردار کو موت آتی ہے تو اس کی جگہ لینے کے لیے دوسرا سردار کےکھڑا ہوتا ہے، وہ گفتار و عمل میں عزّت و شرف کے حامل افراد کی طرح ہوتا ہے)۔

پہلی ذمہ داری : مالی مدد:
تمام مسلمانوں پر خواہ افراد ہوں یا جماعتیں، تنظیمیں ہوں یا حکومتیں ان کے اوپر یہ واجب ہے کہ اہلِ غزہ اور فلسطین کے حصار کو آگے بڑھ کر ختم کرنے کے لیے مال خرچ کریں۔ اس ضمن میں درج ذیل دلائل ہمارے پیشِ نظر رہنے چاہئے:

1. قرآنِ کریم میں (133) مقامات پر انفاق کا حکم ، اس کی ترغیب اور بخل و حرص کی مذمّت آئی ہے۔ قرآن نے انفاق کا سب سے اہم میدان جو بتایا ہے وہ ہے محتاجوں کی خبر گیری اور مجاہدین کی امداد۔ فلسطین کے لوگوں پر ان دونوں ہی امور کا اطلاق ہوتا ہے۔

2. بخاری کی روایت ہے، عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھما کہتے ہیں نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا : "جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا"۔ اس حدیث پر گفتگو کرتے ہوئے ابن حزم نے لکھا ہے: جس شخص کے پاس اپنی ضروریات سے فاضل ہو اور وہ یہ دیکھتے ہوئے بھی کہ اس کا کوئی بھائی بھوکا، اور کپڑوں کا محتاج ہے اس کی مدد نہ کرے تو یقیناً اس پر اللہ کی رحمت نہ ہوگی ( المحلى 6 /157 ).

3.الھندی نے کنز العمّال ( 15823 )، اور ابنِ حزم نے المحلي ( 6/158 ) میں علی بن ابو طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے : " اللہ تعالیٰ نے مالداروں کے مال میں فقیروں کے لئے اتنا حصّہ نکالنا فرض کیا ہے جس سے ان کی کفالت ہو جائے، اگر وہ ان کو محروم کریں پھر وہ بھوکے رہیں یا تکلیف میں مبتلا ہوں تو اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا سخت محاسبہ کرے گا اور انہیں اذیّت ناک عذاب دے گا"۔

4.ماوردی نے الاحکام السلطانیہ ( 183 ) میں بیان کیا ہے کہ عمر بن خطّاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس بناء پر کچھ لوگوں کے اوپر دیت عائد کی تھی کہ ایک شخص پیاسا تھا، اس نے ان سے پانی مانگا اور انہوں نے نہ دیا اور پیاس کے مارے اس شخص کی موت ہو گئی۔ ہمارے غزہ کے بھائیوں کی فریاد اس قدر شدید ہے کہ وہ بہرے کانوں کو بھی سنائی دے۔

5.جوینی اپنی کتاب الغیاثی ( ف:339 ) میں کہتے ہیں: اگر کوئی ایک فقیر بھی ہلاک ہو جائے اور اس کے بارے میں اغنیاء کو پتہ ہو تو وہ تمام ہی گنہگار ہوں گے۔ ایک اور مقام پر کہتے ہیں: اگر اغنیاء کے درمیان کوئی ایسا ضرورت مند ہلاک ہوتا ہے جس کی ضرورت سے وہ لوگ واقف ہوں تو وہ تمام کے تمام گناہگار ہوں گے، اور روزِ قیامت اللہ تعالیٰ ان سے حساب کر کے حق وصول کرے گا۔

6.شرعی قاعدوں کی رُو سے ہر مسلمان کے اوپر یہ واجب ہے کہ وہ غزہ کے بھائیوں کی مدد کرے۔ ان شرعی قواعد میں سے چند یہ ہیں: "الضرر يُزال" (لاحق ضرر کو دور کیا جائے گا)۔ "يُتحمل الضرر الخاص لأجل الضرر العام"،(عمومی نقصان سے بچنے کی لیے خصوصی نقصان برداشت کیا جائے گا)۔ و"الضرر الأشد يزال بالأخف" (شدید نقصان کو دور کرنے کے لیے ہلکا نقصان برداشت کیا جائے گا)۔ "ما لا يتم الواجب إلا به فهو واجب" (واجب پر عمل آوری کے لیے جو چیز ضروری ہے وہ بھی واجب ہے)۔ یہ شرعی قاعدے جن کاتذکرہ السیوطی اور ابن نجیم نے الاشباہ والنظائر میں، شاطبی نے الموافقات میں، اور ابن رجب نے القواعد الفقھیۃ میں بیان کیا ہے اس بات کو واجب قرار دیتے ہیں کہ ہمارے غزاوی بھائیوں کی فوری مدد کے لیے ہم آگے آئیں کیونکہ یہاں دو پہلووں سے ضرر لاحق ہے: اوّل : روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مردوں، عورتوں، مریضوں اور بوڑھوں کی جانیں جا رہی ہیں۔ اس جانی نقصان کے ذمہ دار ہم سب ہیں۔ دوم: فلسطینی عوام نے جو اسلامی منصوبہ جاری رکھا ہے اسے ہم نقصان پہونچا رہے ہیں اور اس کی وجہ سے امّت کے اندر مایوسی پھیل رہی ہے۔ اب ہمیں چاہئے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے معذرت پیش کرنے کے لیے فلسطینی بھائیوں کے جہاد کو بھرپور مالی اور معنوی مدد دیں۔

7.تمام ہی مکاتبِ فکر کے قدیم و جدید تمام علماءِامت کا اس بات پر اتفاق ہے کہ پریشان حال اور محتاج کے لئے زائد مال خرچ کرنا واجب ہے۔ قرطبی نے اپنی تفسیر (225/1) میں بیان کیا ہے کہ اس پر امت کے علماءکا اتفاق ہے اور کوئی بھی شخص فقہ حنفی کی کتابوں ، سرخسی کی المبسوط (29-24) اور کاسانی کی بدائع الصنائع (6/188) میں یہ ملاحظہ کر سکتا ہے ،فقہ مالکی کی کتابوں موطّا امام مالک، (ص:171)، الباجی کی المنتقیٰ (6/39)، ابن مکی کی القواعد، اور شاطبی کی الموافقات (97/1) کی طرف رجوع ہو سکتا ہے، فقہ شافعی کی کتابوں ، الجوینی کی الغیاثی (فصل المشرفین علیٰ الضیاع)(فقرات: 337 تا342 )، ماوردی کی الاحکام السلطانیة( صفحہ 183)، نووی کی المجموع (32/9)، اور شیرازی کی مغنی المحتاج (308/4) میں دیکھ سکتا ہے، فقہ حنبلی کی کتابوں ، فراءکی الاحکام السلطانیة (220)، ابن قدامة کی المغنی(602/8) (343/11)، سے استفادہ کر سکتا ہے، اور مذہب ظاہری کے لئے ابن حزم کی المحلّی (158/8)، مذہب زیدیہ کی کتاب ابن مرتضیٰ کی شرح الازھار (554/2)، سے اسے جان سکتا ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ ان فقہاء میں سے بہت سے ایسے ہیں جنہوں نے صراحت کے ساتھ اس طرح کی عبارت لکھی ہے کہ بھوکوں، مریضوں اور ضرورت مندوں کا یہ حق ہے کہ زائد مال کو خرچ کرنے پر آمادہ کرنے اور خرچ میں عدل برقرار رکھنے کے لئے وہ ان لوگوں سے جنگ کریں جنہوں نے ان کو ان کے حق سے محروم کر رکھا ہے۔

دوسری ذمہ داری: سیاسی مدد:
1.تمام مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے ممالک میں ایسے فورم بنائیں جو اسلامی ممالک سے غاصب دشمن کو فراہم کیے جانے والے پٹرول، گیس اور پانی اور اسرائیلی اشیاء کی درآمدات کا سلسلہ بند کریں، ان چیزوں کی وجہ سے اللہ کے دشمن ہمارے تمام فلسطینی بھائیوں خاص کر غزہ کے لوگوں پر اپنی پکڑ کو اور تیز کر رہے ہیں۔ یہ وہ عظیم ترین مُنکر ہے جس کو روکنا اور جس کے خلاف جدوجہد کرنا ضروری ہے۔ ابو داؤد اور نسائی کی روایت ہے، ابوسعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم نے فرمایا :"جو کوئی برائی دیکھے پھر اسے اپنے ہاتھ سے روک سکتاہو تو ہاتھ سے روکے، اگر یہ اس کے بس میں نہ ہو تو زبان سے روکے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو دل میں اسے برا سمجھے، اور یہ کمزور ترین ایمان ہے"۔

2.زاد المعاد ( 2/46) میں ابن قیّم اور ابن ھشام کی سیرت ( 1/35) میں بیان کردہ روایت کے مطابق اگر مشرکینِ قریش میں سے پانچ افراد مل کر نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم اور ان کے اصحاب کے بائیکاٹ کے دستاویز کو ختم کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں تو ہم پورے درد کے ساتھ یہ پوچھتے ہیں کہ کیا امتِ مسلمہ میں ان پانچ افراد (ہشام بن عمرو،مطعم بن عدی، ابو البختری بن ھشام، زمعہ بن اسود، اور زھیر بن امیّہ البختری) جیسے افرد نہیں ہیں؟! کیا ملت کے بڑے سرمایہ داروں اور سیاسی میدان میں شناخت رکھنے والوں میں ایسے اصحابِ مروّت نہیں ہیں جو فلسطینی عوام کے اس حصار کو توڑنے اور ختم کرنے کی کوشش کریں؟! ہماری ذمہ داری ہے کہ اہلِ غزہ کے جن راستوں اور ان کی جن گزرگاہوں کو بند کیا گیا ہے اس کو کھولنے کی کوشش کریں، ورنہ ان کا راستہ روکنے والے اور اس پر خاموشی اختیار کرنے والے سب ہی شرعی اور قانونی ہر دو اعتبار سے معصومین کے قتل اور خون میں شریک سمجھے جائیں گے۔

3.جس وقت نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلمّ اور آپ کے ساتھیوں کا بائیکاٹ کیا گیا، اس وقت عربوں کی غیرت نے بنی ہاشم اور بنی عبد المطلب کے مشرکین کو اس بات پر آمادہ کیا کہ حصار کے دوران نبی صلّیٰ اللہ علیہ وسلّم کے ساتھ ایک خندق میں قیام کریں اور اس بائیکاٹ میں ان کا ساتھ دیں جیسا کہ بخاری نے بیان کیا ہے – دیکھیں فتح الباری ( 3/529 ) – صورتِ حال یہ تھی کہ بھوک سے روتے بلکتے غیر مسلم عورتوں، بچّوں، اور نو خیزوں کی آواز دور تک سنائی دیتی تھی۔ کیا ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ فلسطین کے تمام لوگ خواہ وہ مسلم ہوں یا عیسائی، ان کا تعلّق فتح پارٹی سے ہو یا کسی اور تنظیم یا جماعت سے پوری قوم کی اسیری کے خلاف ایک صف بن جائیں؟! اور فلسطین کی شاہراہوں پر ہر چہار جانب ایک ہی صف نظر آئے، ان کا صرف ایک سلوگن ہو ((بھوکے رہیں گے پر نہ جھکیں گے))۔ اس موقع پر ہم اپنے تاجر بھائیوں کو یہ مروّت یاد دلانا چاہیں گےکہ تم تاجر ہو اور بھوک اور مرض میں مبتلا تمہارے بھائی تمہاری طرف آتے ہیں، تم ان کی ضروریات کا استحصال نہ کرو بلکہ بہتر یہ ہے کہ تم ان کی مدد کے لیے آگے آؤ۔ یہ نہ ہو سکے تو کم از کم ان کا استحصال نہ کرو ورنہ تم گناہ گار ہوگے۔ تمہاری یہ کمائی یا حرام ہوگی یا مشتبہ۔ اسی طرح ہم امتِ مسلمہ کے افراد سے یہ گزارش کرتے ہیں کہ وہ غزہ کے لوگوں کو بے سہارا نہ چھوڑیں۔ 48ء سے ہی امّت کے علماء نے صہیونیوں سے جنگ اور قتال کو واجب قرار دیا ہے، اس مسئلہ میں تمام مکاتب فکر کے علماء سنی، شیعہ، اور اباضی سب کا اتّفاق ہے۔ ان کا استدلال اللہ تعالیٰ کے اس قول سے ہے: "وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلا تَعْتَدُوا" (البقرة: آية 190 سے) (اللہ کے راستے میں تم ن سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کر تے ہیں اور تم زیادتی نہ کرو)۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا یہ بھی ارشاد ہے: : "قَاتِلُوهُمْ يُعَذِّبْهُمُ اللَّهُ بِأَيْدِيكُمْ وَيُخْزِهِمْ وَيَنْصُرْكُمْ عَلَيْهِمْ وَيَشْفِ صُدُورَ قَوْمٍ مُؤْمِنِينَ * وَيُذْهِبْ غَيْظَ قُلُوبِهِمْ " (التوبة: آیات 14 15 سے) (ان سے لڑو، اللہ تمہارے ہاتھوں سے ان کو سزا دلوائے گا اور انہیں ذلیل و خوار کرے گا اور ان کے مقابلہ میں تمہاری مدد کرے گا اور بہت سے مومنوں کے دل ٹھنڈے کرے گا،اور ان کے قلوب کی جلن مٹا دے گا)۔

4.اس سلسلہ میں تمام قانونی اقدامات کیے جانے چاہئے، مظاہرے، مارچ، دھرنے، مشورے، بیانات، مقالات، ملک کے سربراہوں سے ملاقات وغیرہ کے طریقے اختیار کیے جانے چاہئے تاکہ پُر امن طریقے سے ہم لوگوں کو اس بات پر راضی کر سکیں کہ شرعی احکام اور عصرِ حاضر کی ضروریات کے مطابق وہ اپنے موقف میں تبدیلی لائیں۔

5.جو بین الاقوامی ادارے اور عالمی تنظیمیں انسانی حقوق سے دلچسپی رکھتی ہیں ان سے رابطہ کیا جائے بلکہ صہیونی جنگی مجرمین کے خلاف ہم بین الاقوامی عدالت میں مقدّمات دائر کریں جیسا کہ سربیا کے سربراہوں کے معاملے میں ہوچکا ہے۔ مدد کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ وھائٹ ہاؤس جو ان ظالموں کی اندھا دھند مدد کرنے اور تمام مسلمانوں خاص کر غزہ کے مسلمانوں پر ہر طرح کے ظلم کی پشت پناہی میں بہت آگے ہے اسے ای میل بھیجے جائیں۔

تیسری ذمہ داری : میڈیا کے ذریعہ مدد:
آزاد قلم، غیرت مند دل، اسلامی حمیّت اور عربی غیرت جن کے پاس بھی ہے ان سے ہم التماس کرتے ہیں کہ فلسطین، عراق اور افغانستان، سوڈان، اور خاص طور پر غزہ میں جاری اس امریکی اور صہیونی ظلم کے خلاف آواز اٹھائیں۔ ہماری یہ خواہش ہے کہ اہلِ قلم اخبارات میں لکھیں، شعراء، ادباء، افسانہ نگار اور ناول نگار اپنی تخلیقات میں لکھیں۔ فنکار، مصوّر، مغنّی اپنے فن کا استعمال کرتے ہوئے اظہار کریں، غرضیکہ اس صریح صہیونی جھوٹ کے خلاف جو یہ پروپیگنڈہ کرتا ہے کہ انسان نے کتّے کو کاٹ لیا ہے قلمی مہم چھیڑی جائے۔ اس حقیقت کو آشکار کیا جائے کہ کاٹنے کا کام کتّا ہی کرتا ہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ صہیونی میڈیا کی یلغار کا مقابلہ کرنے کے لیے یہ پہلو ہمارے لیے انتہائی اہم اور ضروری پہلوؤں میں سے ہے۔ یہ میڈیا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کرتا ہے، فتنوں کو ابھارتا ہے، بے حیائی کی دعوت دیتا ہے تاکہ مردوں اور عورتوں، جوانوں اور دوشیزاوں کا فرق مٹ جائے۔ وہ اس کی کوشش کرتا ہے کہ دین، ناموس، بڑوں اور عورتوں کے سلسلہ میں کوئی حمیّت ہی باقی نہ رہے۔

ہم یہ نہیں بھول سکتے کہ ایک تنہا شاعر ابو اسحاق الالبیری (375-460هـ) نے اپنے مشہور قصیدے سے اندلس کی سرزمین پر یہود کے فساد کے خلاف پوری سرزمین کو گرما دیا تھا۔ خلفاء نے یہود کو اسلامی مملکت کے اندر اعلیٰ مناصب دیے۔ لیکن ۔۔ اپنی عادت کے مطابق۔۔ انہوں نے اپنے محسنوں کے ساتھ خیانت کی اور زمین میں فساد برپا کیا۔ ابو اسحاق الالبیری کے قصیدہ کے بے لاگ جملوں نے اس انقلاب کا بیج بویا جو سرکش یہودیوں کو بہا لے گیا۔

اس کے چند اشعار یہ ہیں :

ألا قل لصنهاجة أجمعين
بدور الندي وأسد العرين
(سنو تمام صنھاجیوں سے کہہ دو، شبنم کی سی نرمی اور شیر کی سی سختی کے ساتھ)

لقد زل سيدكم زلة
تقر بها أعين الشامتين
تمہارے سربراہ سے ایک ایسی بڑی لغزش ہوئی کہ اس سے ہنسنے والوں کی آنکھیں ٹھنڈی ہوں)

تخير كاتبه كافرا
ولو شاء كان من المسلمين
(اس نے ایک کافر کو اپنے کاتب مقرر کیا، اگر چاہتا تو کسی مسلم کو بھی منتخب کر سکتا تھا)

فعز اليهود به وانتخوا
وتاهوا وكانوا من الأرذلين
(اس کی وجہ سے یہود کو بڑی قوت ملی، وہ خوب اترانے لگے، پھر ادھر ادھر بھٹکنا ان کا مقدّر ہوا، وہ رذیلوں میں سے تھے)

ونالوا مناهم وجازوا المدى
فحان الهلاك وما يشعرون
( انہوں نے اپنی آرزوئیں پوری کی، تمام حدوں کو پھاندنے لگے، پھر انہیں احساس بھی نہ ہوا اور ان کی ہلاکت کا وقت آگیا)۔

فكم مسلم فاضل قانت
لأرذل قرد من المشركين
(کتنے ہی نیک، فاضل مسلمان اس مشرک، بدترین بندر کے فساد کا شکار ہوئے)

وكيف تحب فراخ الزنا
وهم بغضوك إلى العالمين
(تم حرام زادوں سے کیسے محبت کرتے ہو حالانکہ وہ تم سے ہمیشہ نفرت رکھتے ہیں)

وكيف يتم لك المرتقى
إذا كنت تبني وهم يهدمون
(تم ترقّی کی منزلیں کیسے طے کر سکتے ہو، تم تعمیر کا کام کرتے ہو اور وہ برباد کرتے رہتے ہیں)

وكيف استنمت إلى فاسق وقارنته وهو بيس القرين
(تو انے ایک فاسق کو کیسے اونچا اٹھاکر اسے دوست بنا لیا حالانکہ وہ بدترین دوست ہے)

وإني احتللت بغرناطة
فكنت أراهم بها عابثين
(میں غرناطہ میں اترا تو دیکھا کہ یہ یہاں فساد برپا کیے ہوئے ہیں)

وقد قسموها وأعمالها
فمنهم بكل مكان لعين
(انہوں نے اسے اور اس کے کاموں کو اپنے حق میں تقسیم کر لیا ہے، ان کے ملعون افراد ہر مقام پر پہونچے ہوئے ہیں)۔

وهم يلبسون رفيع الكسا
وأنتم لأوضعها لابسون
(وہ شاندار لباس زیب تن کرتے ہیں، اور تم گھٹیا لباس میں رہتے ہو)

وهم أمناكم على سركم
وكيف يكون خؤون أمين
(وہ تمہارے رازوں کے امین ہیں، سوچو تو خائن کیونکر امانت دار ہو سکتا ہے)

ويأكل غيرهم درهما
فيقصى ويدنون إذ يأكلون
(اگر کوئی دوسرا ایک درہم کھالے تو اسے دور کر دیا جاتا ہے، یہ لوٹ کھسوٹ کر کھا رہے ہیں پھر بھی انہیں قریب کیا گیا ہے)۔

ولا تحسبن قتلهم غدرة
بل الغدر في تركهم يعبثون
(اگر انہیں کوئی قتل کرے تو اسے دھوکہ نہ کہو، بلکہ ان کو چھوڑ دینا دھوکہ ہے، یہ تباہی مچا کر رکھ دیں گے)

وقد نكثوا عهدنا عندهم
فكيف نلام على الناكثين
(انہوں نے ہم سے کیے ہوئے ہر عہد کو توڑا ہے، اب اگر ہم عہد شکنی کا مزہ چکھائیں تو اس پر ملامت کیسی؟)۔

تاریخ کے دھارے کو موڑنے والے سھل، آسانی اور چھوٹے ادب پاروں کا یہ ایک نمونہ ہے، کہاں ہیں ہمارے ادباء، شعراء اور فنکار؟!

چوتھی ذمہ داری: معنوی مدد:
میں سمجھتا ہوں کہ ایمان کی آخری حد جس کے بعد رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان نہیں بچتا یہ ہے کہ ہم اسے دل میں برا سمجھجیں، کثرت سے روزوں کا اہتمام کریں، قیام کا اہتمام کریں۔ خدائے مالک المک، علم کے مالک کے سامنے گڑگڑائیں کہ غزہ کے بچوں، مردوں اور عورتوں کے سر سے آزمائش کے بادل چھانٹ دے، غزہ عزّت و جانبازی کی علامت ہے۔

ہوسکتا ہے کہ روئے زمین پر ہر طرف سے مخلصین کی طرف سے اپنے فلسطینی بھائیوں کے حق میں کی جانے والی دعا کا اثر ظالم صہیونی دشمنوں کے لیے ان کے پتھروں، بندوقوں، اور میزائلوں سے زیادہ کاری ضرب کا سبب بن جائے۔

ہم اس بات کی اہمیت پر بھی زور دینا چاہتے ہیں کہ معنوی مدد افراد، خاندان، اور سماج کے رویّہ سے بھی جھلکنا چاہئے، ہم آسمان و زمین کے مالک کی طرف سے نصرت و مدد کے آنے تک مساجد اور گھروں میں کثرت سے قیام اور نمازوں میں قنوت کا اہتمام کریں، صہیونیوں ، اور ان کے اعوان و انصار کی خواہش کے علیٰ الرغم غم کے یہ بادل چھٹ کر رہیں گے۔

آخر میں میں اپنے فلسطینی بھائیوں سے گزارش کروں گا کہ اپنی تدبیروں کو جمع کیجئے، ایک صف بن جائیے، وہ کامیاب ہوگا جو اپنے نفس پر قابو رکھے گا، اس کے صلہ میں اللہ تعالیٰ اسے ابرار اور صادقین میں شمار کرے گا۔ ہم خاص طور پر اہلِ غزہ سے یہ خواہش کریں گے کہ پامردی کے ساتھ بہادروں کی طرح ڈٹے رہیں، جانبازوں کی طرح ٹکراتے رہیں، اپنے دشمن سے جنگ اور معرکہ جاری رکھیں تاکہ اللہ تعالیٰ آپ کے سچّے حوصلوں کا آپ کو صلہ دے، اور آپ کی بہادری ضرب المثل بن جائے۔ یا آپ شاعر کے اس قول کا مصداق بن جائیں:

لاتسقني ماء الحياة بذلة
بل فاسقني بالعز كأس الحنظل
(مجھے ذّؒت کے ساتھ آبِ حیات نہ پلا بلکہ عزّت سے پلا خواہ وہ حنظل ہی کا جام ہو)۔

آپ اللہ تعالیٰ کا یہ قول یاد رکھیں: " أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ وَيُخَوِّفُونَكَ بِالَّذِينَ مِنْ دُونِهِ" (الزمر: 36) (کیا اپنے بندے کی حفاظت کے لیے اللہ کافی نہیں ہے، وہ تمہیں اس کے ماسوا سے ڈراتے ہیں)۔ یہ ارشاد سامنے رکھیں:"وَلا تَهِنُوا وَلا تَحْزَنُوا وَأَنْتُمُ الأَعْلَوْنَ" (آل عمران: 139) (دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے)۔ اس فرمان کو نہ بھولیں: "سَيَجْعَلُ اللَّهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُسْرًا" (الطلاق: 79) (سختی کے بعد اللہ تعالیٰ آسانی پیدا کرے گا)۔ اور "اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا يُخْرِجُهُمْ مِنَ الظُّلُمَاتِ إِلَى النُّورِ وَالَّذِينَ كَفَرُوا أَوْلِيَاؤُهُمُ الطَّاغُوتُ يُخْرِجُونَهُمْ مِنَ النُّورِ إِلَى الظُّلُمَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ" (البقرة: 257) (جو لوگ ایمان لاتے ہیں، اُن کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں، اُن کے حامی و مدد گار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں، جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے)، اسی طرح : "إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَـزَّلَ الْكِتَابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ" (الأعراف: 196) (میرا حامی و ناصر وہ خدا ہے جس نے یہ کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک آدمیوں کی حمایت کرتا ہے)۔

ہم اللہ کے واسطے سے آپ سے یہ امید رکھتے ہیں کہ اپنی جدو جہد جاری رکھیں گے اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خیر کے منتظر رہیں گے۔ راتوں کو قرآن کی روشنی سے روشن کریں تاکہ بجلی نہ ہونے پر بھی رحمان کے نور کے سایہ میں آپ زندگی گزاریں اور صہیونی اور ان کے مددگار تاریکی میں رہیں" ظُلُمَاتٌ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍ إِذَا أَخْرَجَ يَدَهُ لَمْ يَكَدْ يَرَاهَا وَمَنْ لَمْ يَجْعَلِ اللَّهُ لَهُ نُورًا فَمَا لَهُ مِنْ نُورٍ" (النور: 40) (تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے جسے اللہ نور نہ بخشے اُس کے لیے پھر کوئی نور نہیں)۔ "وَسَيَعْلَمُ الَّذِينَ ظَلَمُوا أَيَّ مُنْقَلَبٍ يَنْقَلِبُونَ" (الشعراء: 227)، (اور ظلم کرنے والوں کو عنقریب معلوم ہو جائے گا کہ وہ کس انجام سے دوچار ہوتے ہیں) "وَلِلَّهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَلَكِنَّ الْمُنَافِقِينَ لا يَعْلَمُونَ" (المنافقون: 8) (عزت تو اللہ اور اس کے رسولؐ اور مومنین کے لیے ہے، مگر یہ منافق جانتے نہیں ہیں).
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 35150 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.