مغرب اور اہل مغرب جو ہمیشہ اس
تاک میں رہتے ہیں کہ مسلمان ممالک میں کوئی معمولی سا واقعہ ہو اور
مسلمانوں کو شدت پسند ، انتہا پسند اور دہشتگرد قرار دے دیں اور پھر ان کے
خلاف نہ ختم ہونے والا پروپیگنڈا بلکہ جنگ شروع ہو جائے ۔ تمام عالمی ادارے
چیخ اٹھتے ہیں اور مسلمانوں سے آگے بڑھ کر اسلام ، اسکی تعلیمات اور پیغمبر
اسلام تک پہنچ جاتے ہیں ۔ ملعون ٹیری جونز کی علی الاعلان قرآن کی بے حرمتی
کے واقعے پر امریکی خاموشی اُس کی نیت کی غماز ہے اسی طرح فیس بک پر نبی
پاک صلی اللہ علیہ وآلہ اسلم کی شان میں گستاخانہ خاکوں کے واقعات ماضی
بعید کے قصے نہیں بلکہ یہ سب کچھ پچھلے دو چار سالوں کے واقعات ہیں۔ انہی
مکروہ واقعات میں تازہ اضافہ افغانستان میں امریکی ائیربیس بگرام پر قرآن
پاک کو جلاکر شہید کرنے کا ہے۔
22 فروری 2012 کو بگرام ائیر بیس پر کوڑا کرکٹ جمع کرنے والے چند لوگوں کو
جلے ہوئے قرآن پاک اور کچھ مذہبی کتابوں کے صفحات ملے جنہوں نے اس کی رپورٹ
کی ،یہ خبر پھیلتے ہی افغانستان بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی۔ امریکی
صدر نے اگر چہ رسمی معافی ضرور مانگی لیکن ایساف کے کمانڈر جان آر ایلن نے
واقعے کو غلطی قرار دے کر اس سے بری الذمہ ہونے کی کوشش کی اور اُن فوجیوں
کو جو اس میں ملوث تھے کو نہ صرف کسی سزا کا حقدار قراردینے سے احتراز کیا
گیا بلکہ ان کے کورٹ مارشل کو بھی بعید از مکان قرار دے دیا گیا ہے اور یہ
کہا گیاکہ کوئی ممکنہ سزا زیادہ سے زیادہ عہدے کی تنزلی ہو سکتی ہے۔ یہ ہے
وہ مغربی رویہ جسے وہ ہمیشہ انتہائی برحق سمجھتا ہے جبکہ دراصل یہ وہ رویہ
ہے جو انتہا پسندانہ بھی ہے اور شدت پسندانہ بھی۔ امریکہ جس انداز سے دنیا
میں دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے وہ بذات خود دہشت گردی ہے بلکہ وہ خود
شدت پسند ہے اور شدت پسندی کو ہوا دے رہا ہے۔ اس واقعے میں بھی جس طرح اسے
غلطی قرار دیا گیا ہے وہ مضحکہ خیز بھی ہے اور توہین آمیز بھی۔ کسی پوری
لائبریری یا دوچار سو کتابوں میں ایک دو نسخے تو نظروں سے اوجھل ہونے کا
امکان ہو سکتا ہے لیکن ایک بیس پر پڑی ہوئی چند کتابوں میں یہ کئی ایک نسخے
کیسے نظروں سے اوجھل ہوئے۔ کیا امریکی نہیں جانتے تھے کہ قرآن پاک مسلمانوں
کی مقدس کتاب ہے اس کی تو جلد اور ظاہری انداز ہی بتا دیتا ہے کہ یہ کتاب
قرآن پاک ہے پھر غلطی کا سوال کیسے پیدا ہوتا ہے اور جب مسلمان اس طرح کے
واقعات پر غم و غصے کا اظہار کرتے ہیں تو انہیں انتہا پسند قرار دے دیا
جاتا ہے جبکہ انہیں اس رویے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جب اہل مغرب جانتے ہی
ہیں کہ مسلمان اپنے مذہب کے بارے میں انتہا ئی حساس ہیں تو کیوں انکے مذہب
کو چھیڑا جاتا ہے اگر عوامی سطح پر ایسا ہو بھی جائے تو حکومتیں کیوں انہیں
نذر انداز کر دیتی ہیں۔ اگر مسلمان ممالک میں کسی دوسرے مذہب کے خلاف کوئی
چھوٹا سا ایسا واقعہ ہو جائے اور حکومتیں اُس کے خلاف ایکشن لے بھی لیں تو
بھی مغرب اپنے ظالمانہ رد عمل کو اپنا فرض سمجھتا ہے لیکن اس حالیہ واقعے
پر تو خود مسلمان حکومتوں بلکہ پاکستانی حکومت اور میڈیا کا رویہ بھی خاصا
قابل اعتراض تھا۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم اب اس طرح کے واقعات کے عادی
ہوگئے ہیں اور ہم نے مغرب کے اس حق کو بھی تسلیم کر لیا ہے کہ وہ ہمارے دین،
پیغمبر صلی اللہ علیہ وآلہ اسلم اور کتاب کے بارے میں توہین آمیز رویہ
اختیار کرتے رہیں تو بھی کچھ فرق نہیں پڑے گا۔ اس مسئلے کا حل پُر تشدد
ہنگامے نہیں بلکہ حکومتی سطح پر ایک مضبوط موقف اپنانے کی ضرورت ہے اور
مغربی حکومتوں بشمولِ امریکہ سے پُر زور طور پر یہ مطالبہ کرنا چاہیے کہ وہ
اس طرح کے واقعات کی روک تھام کرے اور ان میں ملوث مجرموں کو شدید ترین
سزائیں دیں، جب دو چار لوگوں کو یہ سزا ملے گی تو آئندہ ایسے واقعات غلطی
سے بھی نہیں ہونگے۔ امریکہ افغانستان میں دہشت گردی کا مجرم بھی ہے اور
پاکستان اور افغان امن کی تباہی کا بھی، اب وہ افغانستان میں اپنے قیام کی
طوالت کے لیے اس طرح کے حربے آزماتا رہے گا کیونکہ اس کا مقصد دنیا میں شر
اور فساد پھیلانا ہے تاکہ دنیا اسکا اسلحہ بھی خرید ے اور ا س کے تابع بھی
رہے اورچاہے اسکی اپنی معیشت تباہ ہوتی رہے لیکن وہ اقوام مسلم پر جنگ مسلط
رکھے ۔ ان رویوں کے خلاف صرف گلہ کرنا درست نہیں بلکہ ایک مضبوط حکومتی
موقف ہی ان کو ختم کرنے کا باعث بن سکتا ہے یہ ہماری غیرت کا تقاضا بھی ہے
اور مذہبی فریضہ بھی۔ |