خواتین کے حقو ق کا عالمی دن اور عافیہ

پاکستان سمیت دنیابھرمیں 8مارچ کوخواتین کاعالمی دن منایاجارہاہے8مارچ دنیابھرمیں خواتین کے مسائل کے حل کیلئے منایاجاتاہے۔یہ دن اس بات کی علامت بن چکاہے کہ دنیا بھرکی خواتین اس عالمی دن کے موقع پراپنے ہرطرح کے مسائل کوسامنے لاتی ہیں یہ دن نیویارک کی ملبوسا ت کی صنعت سے و ا بستہ خواتین کی اپنے حقوق کیلئے جدوجہدکی یادمیں منایاجاتاہے آٹھ مارچ 1907ءکو نیویارک کے ملبوسات کی صنعت سے وابستہ چندخواتین نے تنخواہوں میں اضافہ اوربہترحالات کیلئے یہ جدوجہدشروع کی تھی اور یہ دن آج پوری دنیامیں عورتوں کے مسائل کے حل کی علامت بن گیاہے۔نیویارک کی ان خواتین نے مطالبہ کیاتھاکہ دس گھنٹے کے کام کے عوض انہیں اس کے مطابق زیادہ تنخواہیں دی جائیں۔ان عورتوںپرگھوڑسوارپولیس نے لاٹھی چارج کیا۔۔۔۔۔اورا ن زخمی عورتوں کو گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر گھسیٹاگیا۔اس کے بعدسوئی سازی کی صنعت سے وابستہ عورتوں نے اپنے ووٹ کے حق اوربچوںسے جبری مشقت لینے کے خلاف1908ءمیں مظاہرہ کیا۔ان پربھی پولیس نے لاٹھی چارج کیااورزخمی عورتوں کوجیلوں میں ڈال دیاگیا۔خواتین کی اپنے حقوق کیلئے جدوجہداسی طرح بڑھتی چلی گئی۔ایک سماجی کارکن کلارازٹیکسن نے1910ء میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں سفارش کی کہ1907ء اور1908ء میں اپنے حقوق کیلئے جدوجہدکرنیوالی عورتوں کی آواز میں دنیابھرکی عورتوں کی آوازکوشامل کرنے کیلئے8مارچ کوعورتوں کاعالمی دن قراردیاجائے اوریہ دن ہرسال دنیابھرمیں منایاجائے۔ 1956ءمیں سیاہ فام مزدوروں پرپابندی کے خلاف جنوبی افریقہ کی20ہزارعورتوں نے پیری کوریامیںزبردست مظاہرہ کیاجسکے بعدعورتوں کی آوازمیں کچھ طاقت پیدا ہوئی۔جس کااثریہ ہواکہ8مارچ کو اقوام متحدہ نے بھی خواتیں کے عالمی دن کے طورپرتسلیم کرلیا۔دنیاکے مختلف ممالک میں خواتین کی تحریکیں اسی طرح زوروشورسے جاری رہیں اوراپنے خلاف بننے والے قوانین اوراپنے اوپرہونیوالے مظالم کیخلاف خاموش بیٹھے رہنے کی بجائے وقتاً فوقتاً میدان عمل میں ا ترتی رہتی ہیں اورانہوں نے دباؤ کے ذریعے مختلف قوانین بھی پاس کروائے۔

آٹھ مارچ کو دنیا بھرمیں منایا جانے والا یوم خواتین مغرب کا عطیہ ہے جس کو پاکستان میں بھی سینے سے لگایا جاتا ہے۔ اس امر سے قطع نظرکہ خواتین کے حقوق و آزادی کے نعروں اور عنوانات کے تحت مغرب سے اٹھنے والی تحریک آزادی نسواں نے خواتین کے معاشرتی و دیگر مسائل کا حقیقی حل کس حد تک ممکن بنایاہے‘ یہ حقیقت تسلیم شدہ ہے کہ اس تحریک اورگلوبلائزیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے تناظر میں خواتین کے عالمی دن کی اہمیت پہلے کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ یہ تحریک‘ جو اب تہذیب مغرب کا لازمی جزو بن چکی ہی‘ اس کے عالم آشکارا اغراض ومقاصد یہ ہیں کہ عورت کو زندگی کے ہر شعبے میں وہی حقوق و آزادایاں حاصل ہوں جو مرد کو حاصل ہیں۔ دفتروں اور کارخانوں کی ملازمت‘ تجارتی و صنعتی سرگرمیوں اور دیگر تفریحی مشاغل میں خواتین کو مردوں کے شانہ بشانہ چلنے کا حق حاصل ہو۔ معاشرہ مساوات مرد و زن کے بنیادی اصول پر استوار ہو۔ بظاہر خوشنما اور دلفریب منشور اور ایجنڈے کی حامل اس تحریک کا دعویٰ ہے کہ عورت کو اس کے اصل حقوق اسی تحریک اور جدید تہذیب نے دیے ہیں۔ مگر تجزیہ کیاجائے تو اسی تحریک کے نتائج یہ ہیں کہ آج مغرب کی عورت کا دامن نسائیت کی پاکیزگی‘ عصمت و عفت‘حقیقی احساس تحفظ‘ امن و سکون ‘ احترام و وقار اور پائیدار مسرتوں سے خالی ہے۔ خواتین کی آزادی و بے باکی اس حدتک پہنچ چکی ہے کہ شرم وحیا اور عفت و پاکیزگی اس کے نزدیک بے معنی الفاظ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مغربی معاشرے کی اخلاقی ساکھ تباہی کے دہانے پر ہے اور خود صحیح الفکر مغربی مفکرین اور دانشور برملا اپنی تحریروں میں اس مادرپدر آزادی پر کڑی تنقید کر رہے ہیں۔ درحقیقت ہرشعبہ زندگی میں خواتین کو مردوں سے مسابقت کا موقع دے کر مغرب کی سرمایہ دارانہ ذہنیت نے اپنے لیے معاشی فوائد اور مادی ترقی کی راہیں ڈھونڈے کی کوشش کی۔ ایک طرف تو اس ذہنیت نے عورت کو گھرکی چاردیواری کے امن وسکون سے باہر نکال کر فیکٹریوں اور کارخانوں میں لاکھڑا کیا اور یوں افرادی قوت میں اضافے کے ذریعے بے مثال معاشی فوائد حاصل کیے۔ دوسری طرف میڈیا کی دنیا میں عورت کے حسن و جمال کو اپنے لیے ”کمیوڈیٹی “ کے طور پر استعمال کیا۔ دونوں راستوں کے ذریعے مغرب کے سرمایہ دارطبقے نے اپنی مادی ترقی کو بام عروج تک پہنچادیا۔ اس تحیرخیز ترقی اور چکاند نے دیگر ممالک کو بھی اپنی جانب راغب کیا۔ اور یوں چند ہی سالوں میں مغرب کی یہ مادی ترقی اور سرمایہ دارانہ ذہنیت اپنی تمام ترحشرسامانیوں سمیت پوری دنیا میں پھیل گئی۔ عالمی تجارتی کمپنیوں نے پاکستان سمیت دیگر ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کو معاشی ترقی کا جھانسہ دے کر خواتین سے متعلق اپنے ایجنڈے کو بھرپور طاقت دی۔ اخلاقی و معاشرتی تباہی جیسے سنگین مسائل سے صرف نظرکرنے کا نتیجہ یہ ہوا کہ آج پاکستان سمیت دیگر ممالک میں سماجی‘ سیاسی‘ معاشی ہرسطح پر خواتین کا استحصال عروج پرپہنچا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ سرکاری و بین الاقوامی سرپرستی میں میڈیا جس طریقے سے خواتین کے کردار کی تذلیل اور ان کی حیثیت کو مسخ کررہا ہے۔ اس نے خواتین کے لیے ہرسطح پرناخوشگوار ماحول پیدا کردیا ہے۔ اس ضمن میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی محض یہ رپورٹ ہی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے کہ ”خواتین کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کے پیچھے کمزور عدالتی نظام‘ کرپٹ پولیس یا مجرموں کی سرکاری و سماجی سرپرستی سے زیادہ اصل وجہ میڈیا کے ذریعے خواتین کی بے جانمود و نمائش اور ان کو”اشیائے تجارت“ کے طور پر پیش کیے جانے کی پالیسی ہی“۔ (سالانہ رپورٹ 2005ئ) اس رپورٹ سے با آسانی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والے استحصال اور معاشرتی ناانصافیوں کی اہم وجہ میڈیا کی غیر اخلاقی پالیسی ہے اور اسی پالیسی کا نتیجہ ہے کہ خواتین کے حقیقی مسائل‘ جن میں سب سے اہم عدم تحفظ کا احساس ہے‘ پس پشت ڈال دیے گئے ہیں۔ اگرچہ حکومتی سطح پر خواتین کی فلاح و بہبود کے ضمن میں بے شمار دعوے کیے جاتے رہے ہیں جن میں سرفہرست پارلیمنٹ میں خواتین کی موثر نمائندگی اور حقوق نسواں پر مبنی قوانین کی منظوری و نفاذ جیسے اقدامات شامل ہیں۔ موجودہ حکومت بھی خواتین کی ترقی کو اپنے منشورکا اہم جزو قرار دیتی ہے۔ توجہ طلب امر یہ کہ موجودہ پارلیمنٹ پہلی خاتون اسپیکر کے ساتھ ساتھ ملکی تاریخ میں اب تک خواتین کی سب سے زیادہ نمائندگی کرنے والی پارلیمنٹ ہے مگر اس کے باوجود ملک بھر میں خواتین کے خلاف جبر و تشدد کے واقعات میں روزبروز اضافہ ایک لمحہ فکریہ ہے۔

ذرا خواتین کے عالمی دن کے موقع پر سوچئے کہ قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو امریکہ کے حوالے کیا گیا امریکہ نے بیگناہ ڈاکٹر عافیہ کوناحق قید کررکھا ہے اور اسے بلا کسی جرم کے 85سال سزا سنائی گئی ہے ڈاکٹر عافیہ کے ساتھ دوران قید ناروا برتاوپرانسانی حقوق کانام نہاد علمبردارمغرب و خواتین کے حقوق کے لئے چیخنے چلانے والی این جی اوز کیوں خاموش ہیں؟پاکستان میں انسانی حقوق اور تحفظ ِ نسواں کی درجنوں نہیں سینکڑوں تنظیمیں موجود ہیں ان میں سے بعض دو چار درختوں کی کٹائی کو انسانیت کا قتل قرار دے کر باہر نکل آتی ہیں مگر عافیہ کے حق میں آواز وہ جماعتیں بلند کر رہی ہیں جنہیں عام طور پر رجعت پسند اور حقوق نسواں سے نابلد قراردیاجاتا ہے مگر عافیہ صدیقی کے باب میں نہ تو کسی کی حمیت جاگی ہے،نہ کسی کو انسانیت اور نسوانیت کا مروڑ اٹھا اور نہ کسی نے ہڈیوں کے اس ڈھانچے کے خلاف منصفانہ سماعت کا مطالبہ کیا، شاید اس لئے کہ عافیہ صدیقی راسخ العقیدہ مسلمان ہے کیا خواتین کا عالمی دن منانے سے عافیہ کو انصاف مل جائے گا ؟عافیہ صدیقی کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے حوالے کئے جانے جیسے اندوہناک سانحات کے باوجود اس ضمن میں کسی قسم کی عدم پیشرفت نہ صرف موجودہ خواتین ارکان پارلیمنٹ کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ یہ احساس بھی پیدا ہوا ہے کہ حقوق نسواں کے قوانین اور پارلیمنٹ میں خواتین کی موجودگی جیسے اقدامات (جو در اصل ترقی نسواں کی مغربی تحریک سے مرعوبیت کے تحت عمل میں لائے گئے ہیں) محض نمائشی اور مصنوعی ہیں اور یہ خواتین کو ان کا بنیادی حق‘ یعنی معاشرتی احساس تحفظ‘ دینے میں بھی ممدو و معاون ثابت نہیں ہوسکے۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مغرب کی تحریک برائے حقوق نسواں کے اثرات‘ جو پوری دنیا میں ملاحظہ کیے جاسکتے ہیں‘ یہ حقیقت کھول دینے کے لیے کافی ہیں کہ یہ تحریک خواتین کو ان کاحقیقی معاشرتی مقام و مرتبہ دینے میں نہ صرف یہ کہ نا کام ہے بلکہ اس نے آج کی عورت سے اس کی اصل حیثیت چھین کر اسے بیچ چوراہے میں لاکھڑا کیا ہے۔ پاکستان سمیت تمام تر اسلامی حکومتوں اور دیگر معاشرتی طبقات کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ عورت کے اصل حقوق ‘ شخصی آزادی‘ حیثیت و مرتبے اور عفت و عصمت کا حقیقی محافظ مغربی نظام نہیں بلکہ وہ اسلامی نظام ہے جس نے 14 سو سال قبل بھی عورت کا دامن حقیقی احساس تحفظ‘ امن وسکون اور دائمی راحتوں سے بھردیا تھا اور آج بھی یہی نظام عورت کو اس کا اصل مرتبہ اورحقوق دینے کی مکمل اہلیت اور صلاحیت رکھتا ہے۔ لہٰذا یہ ضروری ہے کہ حقوق نسواں کے لیے اٹھائے جانے والے اقدامات مغربی ایجنڈے کے تحت کرنے کے بجائے اسلامی اقدار و روایات سرفہرست رکھ کرکیے جائیں۔ سب سے پہلے قدم کے طور پر میڈیا کے ذریعے خواتین کے استحصال کی بیخ کنی ہو۔ تعلیم و صحت ‘ وراثت اور حق ملکیت جیسے دیگر حقوق جو اسلامی شریعت نے عورت کو عطاکیے فی الواقع عورت کو یہ حقوق دے کر اس کی اہمیت کا احترام کیاجائے۔ محض اسی صورت میں خواتین کے ساتھ ہونے والی معاشرتی ناانصافیوں‘ زیادتیوں‘ سماجی تعصبات اور مشکلات کاحل ممکن ہے۔
Mumtaz Haider
About the Author: Mumtaz Haider Read More Articles by Mumtaz Haider: 88 Articles with 63728 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.