ایک کالم، طلباء کے نام

تعلیم و تد ریس میرا ا ڑھنا بچھونا رہا ہے اور قلم کا استعمال میرا مشغلہ ، جب سے یہ مشغلہ یعنی قلم کو ہاتھ میں لیا ہے تب سے ملکی حالات، سیاست ،کر نٹ افیئرز اور دیگر کئی مو ضو عات پر ٹو ٹے پھو ٹے الفاظ میں کئی قو می ا خبارات میں سینکڑوں کا لم لکھ چکا ہوں۔آج دل چا ہتا ہے کہ اپنے ملک کے پیا رے پیارے طا لبعلمو ں کے نام ایک کالم لکھ دوں۔کیو نکہ طلباء اکثر مبا حثو ں میں یہ کہتے ہیں کہ قلم کی کاٹ تلوار سے زیادہ ہو تی ہے۔ویسے بھی آپ کو پتہ ہے کہ ہما ری تلوار توآ ج کل میا ن میں چلی گئی ہے۔تو قلم کا استعمال ضروری ہو گیا ہے اور اگر قلم کاکو دل کے لہو میں ڈبو کے لکھا جا ئے تو یقینا وہ قلم د و دھاری تلوار سے بھی زیا دہ طا قتور ہوتا ہے۔

پیا رے طلباء! تم جس د ر سگاہ میں بھی تعلیم حا صل کر رہے ہو، وہ تمھا رے اور ہمارے لئے قا بل فخر ہیں ۔کیو نکہ آ پ اور ہم اس پر بھر وسہ کر تے ہیں ۔یہا ن سے علم کی نہر یں جا ری ہو تی ہیں جن کو میں دودھ کی نہریں کہتا ہو ں اور کہتا رہو نگا۔اس لئے کہ ایک ماں نے آ پ کو جنم دیا ہے وہ آ پ کی جنم کی ما ں ہے مگر آ پ کی دوسری ماں وہ مد ر سے، اسکو لز اور کا لجز ہیں جو آپ کو تعلیم اور تر بیت کے زیور سے آراستہ کرتے ہیں ،آ گہی کا شعور کا لبا س عطا کر تی ہیں اور دنیا میں جینے کے قابل بنا تے ہیں ۔ اس لئے جس طرح آپ اپنے ما ﺅ ں کا احترام کر تے ہیں جنہو ں نے آ پ کو جنا ہے اسی طرح آپ کو ان ما در علمی کا بھی احترام کرنا چا ہیے۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو کچھ تمہیں پڑ ھا یا جا تاہے، سکھا یا جاتا ہے، سمجھا یا جاتا ہے، اسے دل و دما غ میں جگہ دو۔دل لگا کر اور خو ب محنت کر کے علم حا صل کرو۔نقل یا کسی بھی نا جا ئز ذرائع سے اگر پاس ہو بھی جاؤ گے تو سکون اور تسلی کبھی نہیں مل سکے گی۔اگر کسی طر یقے سے کوئی اوپر آ بھی جا ئے تو وہ ملک کو انحطا ط کی طرف ہی لے جا ئیگا جیسے آ ج آپ دیکھ رہے ہیں کہ نقل خو روں اور نا اہل لوگوں کی وجہ سے ملک کی سا لمیت ہی خطر ے میں پڑ چکی ہے۔اور یہ جو بعض طلباء سو چتے ہیں کہ ہم باہر کسی ملک یورپ و غیرہ چلے جا ئینگے۔مگر یاد رکھو جو لوگ اپنے وطن میں کچھ نہیں کر سکتے وہ با ہر جا کر غسل خانے صاف کرتے ہیں،جھا ڑو دیتے ہیں یا گھاس کا ٹتے ہیں۔کھو ٹا سکہ کہیں بھی نہیں چلتا۔لہذ ا تعلیم حا صل کرنے کو ایک مشن سمجھیں اگر حصو ل علم کو مشن سمجھ کر حاصل نہیں کرو گے تو پھر علم کا ا جا لا کبھی نہیں پھیلے گا ۔آ پ نے اپنے اسا تذہ سے سنا ہو گا، کتا بوں میں پڑ ھا ہو گا کہ جب غا ر حرا میں میں بقعہ نو ر کے آ گے منبع جو د و سخا کے پاس حضرت جبرا ئیل وحی لے کر آئے تو سب سے پہلے انہوں نے فر ما یا تھا ،، اقراء ،، یعنی پڑھ ، علم کی رو شنی پھیلا،دل کو اس نو ر سے منو ر کر، ا ٹھ اور اس شمع کو جلا،اس کے جلا ئے بغیر کا ینات میں اجالا نہیں ہو سکتا۔جہا لت کی تا ریکی دور نہیں ہو سکتی۔ گو یا علم حا صل کی رو شنی حا صل کیے بغیر انسان زند گی کی سفر میں صحیح راستے کا انتخا ب نہیں کر سکتا بلکہ تا ریک را ہو ں میں بھٹکتا پھر تا ہے۔۔

آ خری بات جو آپ کے چشم گزار کرنا چا ہتا ہوں یہ ہے کہ آپ کے اسا تذہ آپ کے رو حا نی وا لدین ہو تے ہیں ۔ان کا مر تبہ کسی طر ح بھی آپ کے جسما نی وا لدین سے کم نہیں ہو تا اور نہ ان کے احسا نا ت ان کے احسانات سے کم ہو تے ہیں۔اسا تذہ کی ہمیشہ یہ تمنا ہو تی ہے کہ آپ بڑے آدمی بن جا ئیں ۔کسی نے آ پ کو ایک حر ف بھی پڑ ھا یا تو اپنے آپ کو اس کا مقرو ض سمجھیں۔استاد دینے والا ہو تا ہے۔اسا تذہ وہ چشمے ہیں جو کبھی نہیں سو کھتے،یہ وہ در یا ہیں جو ہمیشہ بہتے رہتے ہیں۔یہ دودھ کی نہر یں ہیں۔یہ صد قہ جا ریہ ہیں۔اس لئے آ پ ان کی قد ر کر یں ۔آپ کے وا لدین آپ کو اچھا یو نیفارم پہنا تے ہین ،اچھا خو راک کھلا تے ہین ،بستہ پکڑاتے ہیں لیکن جب آپ سکو ل پہنچتے ہیں تو آپ کے اسا تذ ہ ہی آ پ کی رو حا نی پر وا خت اور ذہنی نشو و نما شر و ع کر دیتے ہیں اور آپ کے ذہن کو اس مو ڑ پر لے جاتے ہیں جہا ں سے آپ کو اور آ پ کے وا لد ین کے خو ا بو ں کو تعبیر ملتی ہے۔استاد کے لبو ں پر ہمیشہ یہ شعر ہو تا ہے کہ
پھلے پھولے سدا یا رب ! چمن میر ی امیدوں کا
جگر کا خو ن دے دے کر یہ بو ٹے میں نے پا لے ہیں۔
roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 285396 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More