پاکستان ایک نظر یاتی مملکت ہے ۔سرور
کونین ﷺ کو ادھرسے ٹھنڈی ہوا آتی محسوس ہوتی تھی بالفاظ شاعر اسلام حضرت
اقبال رحمة اللہ علیہ
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے
اس ٹھنڈی ہوا کی وجہ پاکستانی عوام کی اسلام سے غیر معمولی وابستگی کو قرار
دیا جا سکتا ہے ۔اسلام سے عوام کی اس وابستگی کا تقاضاہے کہ حکمران نفاذِ
نظام مصطفےٰﷺ کو اپنا مقصود قرار دیں چنانچہ کیا بر سر اقتداراور کیا بر سر
انتظار ہر قابل ذکر لیڈر خادم اسلام ہونے کا مدعی ہے ہم اکثر سنتے ہیں کہ
”ہم نے تو نفاذ نظام مصطفےٰﷺ کی بہت کوشش کی ۔“ مگر مقصد میں کامیابی تو
کیا حالات پہلے سے بھی بڑھ کر غیر اسلامی ہوتے چلے گئے ۔اگر نفاذ نظام
مصطفےٰﷺمیں ناکامی کا دعویٰ کرنے والوں کی نیتوں پر شبہ نہ بھی کیا جائے تو
ہمیں ماننا پڑے گا کہ یا تو ان کا تصور اسلام غلط ہے یا نفاذ نظام مصطفےٰﷺ
کےلئے تعین کردہ راہ عمل درست نہیں ۔اسلام کی اکملیت کا تقاضا ہے کہ یہ
”مقصود“ بھی پیش کرے اور حصول مقصد کے لئے واضح” راہ عمل“ بھی پیش کرے یہ
دونوں یا ان میں سے کوئی ایک ہمارا خود ساختہ ہوتو ناکامی کی صورت میں وعدہ
خدا وندی پر حرف گیری نہیں کی جا سکتی ۔کیونکہ نظام مصطفےٰﷺکے نفاذ کے
دعویدار کو یہ یقین کرلینا چاہیے کہ کیا مصطفوی ﷺ معاشرہ میں عدم تحفظ کی
کیفیت نہ ہو گی ۔ہنگامی حالات میں ضروریات کی آبرو مندانہ تکمیل کا قابل
بھروسہ اہتمام ہو گا ۔کیا جس کا نقصان ہو چکا اُسے سرکاری سطح پر فوراً
پورا کر دیا جائے گا ۔قانون کی ایسی پچیدگیوں کا وجود نہ ہوگا جس سے عملاً
مظلوم کو اپنے حق سے دستبردار ہو جانے میں ہی آسانی معلوم ہو اور مستقبل
میں اپنی اور اپنے اہل و عیال کی خاطر خود ہی فکر کرنا پڑے ۔اگر ایسا ہے تو
وہ مشن میں کامیاب قرار دیا جائے گا۔کیونکہ اسلامی ریاست میں روٹی، لباس ،پانی
اور مکان کی ہر شخص کے لئے ضمانت دی جائے گی ۔یہ ایسی بنیادی ضرورتیں ہیں
جن سے کوئی شہری بھی محروم نہیں ہو گا ۔یہ سلسلہ صرف نظر یاتی نہیں عملاً
اس کی کامیاب منصوبہ بندی ہو گی۔اسی طرح اسلامی ریاست اور نفاذ ِ نظام
مصطفےٰﷺ کے لئے تعلیم کی جانب ہر ملک سے زیادہ توجہ دینا ہو گی۔
جب سچے مسلمانوں کو کسی ملک میں قیادت نصیب ہوتی ہے تو وہ چار نظام فی
الفور رائج کر دیتے ہیں ۔نظام صلوٰة ،نظام زکوٰة،نظام امر بالمعروف نظام
نہی عن المنکر ظاہر ہے ایسی ریاست میں ترک شر اور ایصال خیر کے کامل مظاہر
دیکھنے کو ملیں گے جہاں معاشی اور ذہنی طور پر ہر شخص آزادی کی حقیقی فضا
کا باسی ہو گا۔“ اس نظام میں ایک اور صرف ایک مرکزیت ہوتی ہے ۔کوئی ”حزب
اختلاف“ نہیں ہوتی۔
نظام مصطفےٰ ﷺ کا عملی مظاہرہ
(ا)ایک شخص دربار رسالت مآب ﷺ میں حاضری دیتا ہے ۔سلام عرض کرتا ہے حضور
انور ﷺ اس کے سلام کا جواب نہیں دیتے ۔رُخ انور دوسری طرف فرمالیتے ہیں
۔دوسری اور پھر تیسری مرتبہ بھی ایسا ہی ہوتا ہے تو وہ شخص رونے لگتا ہے کہ
خدا کی قسم مجھے حضور ناراض معلوم ہوتے ہیں ساتھی کہتے ہیں کہ ناراض کیسے
نہ ہوں جبکہ تم نے اپنے مکان پر چو بارہ تعمیر کر دیا ہے اور دوسرے لوگوں
کے مکانات ایسے نہیں ہیں وہ شخص واپس جاتا ہے چوبارہ گراتا ہے ۔پھر حضور ﷺ
اس کے سلام کا جواب مرحمت فرماتے ہیں ۔نسبتاً اعلیٰ اور بلند مکان تو بڑی
چیز ہے حضور ﷺ تو سختی سے اس ہدایت پر عمل کرواتے ہیں کہ کوئی خاص چیز گھر
میں پکائی جائے تو جن گھروں تک ان کی خوشبو پہنچتی ہو وہاں کچھ حصہ بجھوایا
جائے ۔پھلوں کے چھلکے گلی میں پھینکیں جائیں تو جن گھروں کے بچوں کی نظر ان
چھلکوں تک پہنچے ۔ان کے گھروں میں بھی پھل بجھوایا جائے ۔ظاہر ہے تعلیمات
اسلامیہ کا دائرہ صرف مکان پکوان اور پھلو ں تک ہی محدود نہیں ۔ہر شعبہ
زندگی اور اس کی ہر سہولت اسی اصول کے تابع ہے ۔
معاشرتی مساوات اور معاشی انصاف کا نتیجہ یہ ہے کہ :”تم خدا کی نعمت سے
بھائی بھائی بن گئے ۔“ بھائی بھائی بن جانا بہت بلند مقام ہے ۔کتنا بدقسمت
ہے وہ مسلمان معاشرہ جہاں سیاسی سماجی اور معاشی تفاوت کا یہ عالم ہو کہ
دوشہری باہم بھائی بھائی معلوم ہی نہ ہوں ۔
(ب)مساوات ۔انصاف اور مرکزیت کا نفاذ اس درجہ ہوتا ہے کہ خالصتا حقوق اللہ
میں بھی کسی نوع کا انحراف برداشت نہیں کیا جاتا ۔یہاں تک کہ نماز کے لئے
الگ مسجد بنائی جائے تو اسے مسجد ”ضرار“ کا نام دے کر جلا دیا جاتا ہے
۔بُعد مکانی کی بدولت تو دوسری مسجد بنائی جا سکتی ہے مگر نظر یاتی اختلاف
کی بنا پر دوسری مسجد نہیں کی جا سکتی اور نہ یہ کہ بُعد مکانی کی آڑمیں
نظر یاتی اختلاف کو اپنے رنگ دکھانے کا موقع ملے ۔
مسجد میں ”شاہ و گدا“ کا امتیاز بالکل نہیں ہے مکمل مساوات ہے جسے جہاں جگہ
ملے نماز پڑھے گا کسی کو ہٹانہ سکے گا۔
(ج)سرور کونین ﷺ واضح ہدایت جاری فرماتے ہیں ۔مختلف زیر استعمال ایشیاءکے
نام لے لے کر فرماتے ہیں کہ جس کے پاس یہ چیز ”ضرورت سے زائد ہے وہ اس کو
دے ڈالے جس کے پاس یہ سہولت نہیں ہے ۔“صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کہتے
ہیں کہ :”حضور ﷺ نے ہمیں اپنی فاضل اشیاءدوسروں کو دے ڈالنے کی اتنی تکرار
اور تاکید فرمائی کہ ” ہم جان گئے کہ کسی بھی زائد شے میں ہمارا کوئی حق
نہیں ۔“دوسری طرف قرآن شریف میں واضح ہدایت فرمائی گئی ہے۔۔فی اموالھم حق
للسائل والمحروم۔کہ” دولتمند وں کے اموال میں سائلوں اور محروموں کا حق ہے
۔“
(د) انبیاءکرام آسمانی تعلیمات پر سب سے زیادہ عمل کرنے والے ہوتے ہیں
چنانچہ سردار الانبیاءﷺ نے ساری عمر اپنا سب کچھ نوع انسانی کےلئے وقف رکھا
اور اپنا نعرہ ”الفقر فخری“ بنائے رکھا۔سفرِ آخرت کی تیاری کے سلسلہ میں
فرمایا کہ گھر میں جو کچھ ہے سارے کا سارا راہ خدا میں دے دیا جائے ۔ارشادِ
نبوی ہے ۔ نحن محشر الانبیاءلا نرث ولا نورث ۔ہم طبقہ انبیاءکے افراد نہ
ورثہ لیتے ہیں نہ ہی ورثہ چھوڑتے ہیں ۔“
دورخلفائے راشدین میں نظامِ مصطفےٰ ﷺ کے عملی مظاہرے
نمبر1:۔خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے بیت المال سے اپنے لئے
روزینہ مقرر کیا تو صرف اس قدرکہ بمشکل جسم و جان کا رشتہ بر قرار رکھ سکیں
۔اہل خانہ کی طرف سے کسی میٹھے پکوان کی پکوان خواہش کا اظہار ہوتا ہے ۔آپ
اسے اسراف قرار دیتے ہوئے نامنظور فرماتے ہیں ۔کچھ عرصہ بعد گھر میں سویٹ
ڈش ملاحظہ فرماتے ہیں۔ پتہ چلتا ہے ۔اہل خانہ نے تھوڑی بچت کر کے اس کا
اہتمام کیا ہے ۔حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ خیال فرماتے ہیں کہ کم وظیفہ
میں گزارا ہو سکتا تھا تو زیادہ کیوں لیتے رہے ۔اسی تناسب سے وظیفہ میں
مزید کمی فرماتے ہیں ۔
خلیفہ اول حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے آخری وقت اپنے اثاثہ کی تفصیل
طلب فرمائی ۔معلوم ہواکہ اثاثہ اتنا ہے کہ ۔ان کو بیچا جائے تو وہ اتنی رقم
بن جاتی ہے جو آپ نے مجموعی طور پر بیت المال سے بطور قرض لی ہے ۔وصیت
فرمائی کہ مجھے دفن کرنے سے پہلے یہ اثاثے بیچ کر رقم بیت المال میں جمع
کرائی جائے۔ وصیت کاایک حصہ یہ بھی تھا کہ مجھے پرانے کپڑوں میں دفن کرنا
کہ نئے کپڑوں کی زندہ لوگوں کو زیادہ ضرورت ہوتی ہے ۔ یہ ہے نظام مصطفی کی
عظمت و تر بیت۔
نمبر2:۔خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے گزارش کی جاتی ہے کہ
اپنا روظیفہ زیادہ فرمالیں ۔ارشاد ہوتا ہے کہ اگر میری مملکت میں غریب ترین
شخص میرے روظیفہ سے زیادہ حاصل کر رہا ہے تو بے شک میرے روزینہ میں بھی
اضافہ کر دیا جائے لیکن مجھ سے یہ نہ ہو سکے گا کہ جس کا میں ذمہ دار ہوں
اسے کم ملے اور میں زیادہ لیتا رہوں ۔یہ ہے نظام مصطفےٰ ۔
نمبر3:۔خلیفہ سوئم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا شمار عرب کے مالدار ترین
لوگوں میں ہوتا تھا لیکن بوقت وفات غریب ترین لوگوں میں تھے ۔کہ اپنا سب
کچھ راہ خدا میں مخلوق خدا کے لئے خرچ کر چکے تھے ۔دَورِ غنا میں بھی اپنا
لباس ۔کھانا وغیرہ انتہائی سادہ رکھتے تھے ۔
نمبر4:۔خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک شخص ہدیہ کے طور پر چمڑے
کا جوتا پیش کر کے خواہش کرتا ہے کہ عید کو یہ پہنیں ۔عید کے روز پوچھتا ہے
کہ میری خواہش کی تکمیل کیوں نہ فرمائی ؟ ارشاد ہوتا ہے کہ مجھے اس سے حیا
آئی کہ میں چمڑے کا جوتا پہنوں جبکہ بعض لوگ کجھور کا جوتا پہننے پر مجبور
ہوں اور انہیں چمڑے کا جوتا میسر نہ ہو۔
خلیفہ دوئم سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا آخری زمانہ ہے ۔پوچھا جاتا ہے
کہ آپ کا دَور خلافت حددرجہ کامیاب ہے اس کا راز کیا ہے ؟”فرماتے ہیں خلیفہ
اپنے آپ کو غریب ترین آدمی کے معیار سے اُونچا نہ کرے ۔مزید سوال پر جواباً
ارشاد فرماتے ہیں کہ سربراہ مملکت اوسط شہری کا معیار زندگی اپنا سکتا ہے
مگر اس سے امن و امان قائم نہ رہے گا۔ کامیاب دور کے لئے ضروری ہے کہ اپنے
آپ کو اپنی مملکت کے سب سے غریب آدمی سے بلند معیار پر نہ لے جائے ۔
خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دربار میں ایک شخص عرض گزار ہے
کہ میری زمین کم ہے ۔پانی نہ ہوتو فصل سے گزار ہ نہیں ہوتا ۔میری زمین میں
پانی دوسرے شخص کی زمین سے ہی آسکتا ہے ۔مگر وہ اس پر رضا مند نہیں ۔حضرت
فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اسے بلا کر کہتے ہیں ۔پانی کی اسے ضرورت ہے ۔یہ
بھی کہتا ہے اور میں بھی کہ تم پانی گزرنے دو۔ اگر تم یہ التماس مان جاﺅتو
تمہاری مہربانی وگر نہ پانی تو میں اس کی زمین تک بہر حال پہنچاﺅں گا خواہ
تمہارے پیٹ میں سے گزارنا پڑے ۔گویا دولت مند کی دولت اور ضرورت مند کی
ضرورت باہم متصادم ہوں تو ضرورت کی تکمیل کو ترجیح دی جائے گا۔
خلیفہ دوئم مراد رسول ﷺحضرت عمر رضی اللہ عنہ گشت پر ہیں ۔رات کی تاریکیاں
ہیں ۔ایک گھر سے رونے کی آواز آتی ہے ۔سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ سبب
پوچھتے ہیں ۔خاتون کہتی ہے عمر کو رو رہی ہوں تین دن سے فاقہ ہے ۔فرماتے
ہیں کیا امیر المومنین کو مطلع کیا؟ ایسا تو نہیں کہ انہیں خبر نہ ہو اور
تم کو سے جا رہی ہو ۔خاتون بولی وہ امیر المومنین ہی کیا جسے حالات خود
بتانا پڑیں ؟ اس پر سیدناعمر فارو ق رضی اللہ عنہ روئے اور فرمایا کہ اے
عمر رضی اللہ عنہ قرآن فہمی میں دیہاتی عورتیں تم پر بازی لے گئیں ۔یہ وہ
موقع ہے جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی پیٹھ پر آٹے کی بوری لائے اور اس
گھر میں پہنچائی ۔
معزز قارئین!یہ تھیں نظام مصطفےٰ ﷺ کی عملی جھلکیاں ۔جن کے مطالعے سے ہمیں
موجودہ دور کے حکمران طبقے اور اسلاف و خلفائے راشدین کی زندگیوں کا فرق
واضح نظر آتا ہے ۔آج ہمارے حکمران اسلام کی مثالیں دیتے ہیں ۔مگر اسلامی
تعلیمات پسِ پشت ڈال دیتے ہیں ۔حکمرانوں کی شہ خرچیاں قیصر و کسریٰ کے
درباروں کا نقشہ پیش کرتی ہیں ۔ورثے اور وراثتیں مسلمان حکمرانوں کی نہیں
کسی بادشاہ کی نظر آتی ہیں ۔تعلیم ،لباس، خوراک، رسم و رواج اور سوچ و فکر
میں عوام و حکمران کا اتنا فرق ہے جیسے زمین اور آسمان کا، دولت و حکومت پر
ایک مخصوص طبقہ ملک میں مسلط نظر آتا ہے ۔ایسے میں یہاں نظامِ مصطفی ﷺ کی
عظمت و برکت کو روشناس کروانا وقت کا تقاضا ہے اور علمائے حق و مشائخ عظام
کا فرضِ منصبی بھی ۔اگر علماءو مشائخ بھی حصولِ اقتدار اور ایوان بالا تک
پہنچنے کے لئے اپنے فرض سے رو گردانی کر گئے تو اسلام کے نام پر وجود میں
آنے والے وطنِ عزیز میں کبھی بھی نظام مصطفےٰﷺ کی بہاریں دیکھنے کو نہ ملیں
گی ۔ علمائے حق سیاست کرنے کی بجائے سیاست دانوں پر پریشر گروپ کا رول ادا
کریں تو ملک میں اصلاحات و نفاذِ نظام مصطفےٰﷺ کی راہ ہموار ہو سکتی ہے ۔ |