اوہ یار ھم نے نماز اپنی پڑھنی
ھے، ھمیں امام سے کیا لگے۔ یہ ایک مسئلہ ھے جو اکثر جگہوں پر اس وقت ھو
جاتا ھے، جب ایک بندہ کہتا ھے کہ میں نے فلاں امام کے پیچھے نماز نہیں
پڑھنی اور دوسرا اصرار کرتا ھے کہ یار ھم نے اپنی نماز پڑھنی ھے ھمیں اس سے
کیا۔ ھمیں اس سے کیا کہنے والے بعض دفعہ اس بات کی آڑ ضرور لیتے ھیں کہ یہ
فرقے بازی ھے۔ اپنی کم علمی اور جہالت کو چھپانے کیلئے فرقے بازی کا لفظ
بول کر اس کی آڑ لے لی جاتی ھے اور " ھمیں اس سے کیا"، یہ بات، یہ سوچ ایک
المیہ ھے جو نماز کو ایک عام سی چیز سمجھنے ، بلکہ دین کو بے وقعت سمجھنے
کی وجہ سے ھم پر مسلط ھے۔ ھم نے اپنی نماز پڑھنی ھے، یہ بات کرنے والے جب
ضرورت کی کوئی بھی چیز مثلا ً، واشنگ مشین، ٹی وی وغیرہ یا کچھ اور لینے جب
مارکیٹ جاتے ھیں تو ساری مارکیٹ پھرتے ھیں، دوکانداروں سے بحث کرتے ھیں،
ایک کپڑے کو دس بار مختلف زاویوں سے دیکھتے ھیں،اپنے بچے کو سکول میں داخل
کروانے سے پہلے سو دفعہ تسلی کرتے ھیں، کہ سکول کیسا ھے، تعلیم اچھی ھے یا
نہیں صرف اسلئے کہ یہ ھر چیز میں اچھا معیار چاھتے ھیں۔ بچے بچی کی شادی
کرنی ھو تو دن رات سوچیں گے، اس لئے کہ ان چیزوں کی اھمیت ان کے نزدیک بہت
زیادہ ھے۔ یہ کوئی ایسے عام سے کام نہیں جو آنکھیں بند کر کے کر لیں۔ لیکن
نماز، ان سب چیزوں سے زیادہ اھمیت رکھنے والی نماز، بحثیت مسلمان ھمارا فرض
نماز،یہ لوگ اس نماز کو ان چیزوں جتنی اھمیت بھی دینے کو تیار ھی نہیں۔ ادا
ھی نہیں کرتے، اور اگر ادا کرتے ھیں تو اتنی لاپرواھی سے اور اتنا غیر
ضروری سمجھ کر، کہ نماز پڑھانے والا چاھے نماز کا اھل نہ ھی ھو ،اس کے
پیچھے ادا کر کے چلتے بنتے ھیں۔ دوسری چیزوں میں ان لوگوں کا ایک معیار ھے
لیکن نماز ایک بوجھ جیسی ھے، جس کو بس سر سے اتارنا ھے، چاھے جیسے بھی۔
رشتے اچھے نہ ھوں تو رشتے نہیں کئے جاتے،کمپنی ٹھیک نہ ھو تو یہ لوگ چیز
نہیں خریدتے، اپنی تسلی کر کے خریدتے ھیں تو پھر امام اگر بد کردارھو، اس
کو قران پاک ھی ٹھیک نہ پڑھنا آتا ھو،اسلام کے نام پر اپنی جہالت کی دوکان
کھول کر بیٹھا ھو،اس کی حرکتیں کم از کم اتنی اسلامی بھی نہ ھوں کہ اسے
شریف آدمی کہا جا سکے، اور شرعا ً وہ امام بننے کے قابل نہ ھو تو پھر چاھے
وہ داڑھی والا ھو،اس کی عمر جتنی مرضی ھو، اس کا نام ظاھری طور پر جتنا
مرضی بڑا ھو اس کے پیچھے نماز نہیں ھوتی، اس کو اللہ تعالٰی جل جلالہ کی
پاک بارگاہ میں نماز پیش کرتے وقت امام نہیں بنایا جا سکتا، اس کے پیچھے
نماز پڑھنے سے بہتر ھے کہ اکیلے ھی نماز پڑھ لی جائے ، نماز کی اھمیت کوئی
رشتوں جیسی نہیں، نماز کی اھمیت کوئی اچھی کمپنی کے اچھے ماڈل کی واشنگ
مشین جیسی بھی نہیں اور نماز کی اھمیت بچوں کے بہت اچھی ساکھ والے سکول
جتنی نہیں بلکہ ان سب سے بڑھ کر ھے بلکہ ان تمام کاموں کا تو نماز کے ساتھ
کوئی موازنہ ھی نہیں کیا جا سکتا۔ نماز کی اھمیت ان سب سے بہت زیادہ ھے اس
لئے نماز کیلئے وضو بڑے دھیان سے کیا جائے گا، نماز کیلئے جگہ کا انتخاب
احتیاط سے ھو گا کہ صاف ھو، اور نماز کیلئے امام کا انتخاب شریعت کے تقاضوں
کے مطابق ھو گا۔ امام کم از کم مناسب کردار اور دین سے بنیادی وابستگی والا
تو ھو۔ اگر اس میں کوئی اعتراض والی بات ھو گی تو اس کے پیچھے نماز نہیں
پڑھی جا سکتی۔ اگر کوئی قابل اعتراض باتوں کی وجہ سے کسی امام کی پیچھے
نماز نہ پڑھنے پر فرقے بازی کا نعرہ لگائے گا تو ایسے جاھل پر بس افسوس ھی
کیا جا سکتا ھے اور مناسب ھو تو ایسوں کی اصلاح کی کوشش بھی کرنی چاھئے اور
اسے بتانا چاھئے کہ امامت اور فرقے بازی دو علیحدہ موضوع ھیں۔ |