مارلن برانڈو کا نام کامیابی کی
ضمانت سمجھاجانے لگا۔اور پھر مارچ 1973کی رنگارنگ تقریب منعقد ہوئی۔ہر شخص
دل میں یہ اُمید باندھے بیٹھاتھاکہ مارلن برانڈو ہی اس انعام کا مستحق
ٹھہرے گا‘اور بڑی شان وفخر سے انعام وصول کرے گا۔لیکن شاید تقدیر میں کچھ
اور لکھاتھا۔مارلن گورا بھی تھا اور جدید امریکی بھی لیکن اسکے قلب و جگر
میں ٹیسیں ان ریڈ انڈینزکےلئے اُٹھتی تھیںجن کو یورپ سے آنے والے لٹیروں
اور فریب زدہ معاہدوں کے کاریگروں نے اُن ہی کی زمین پر خون رلایاتھا۔اُسکے
علم میں یہ بات تھی کہ ایسے 50ہزار معاہدے ہیں جن کے پورے ہونے کا عہد کرنے
کے بعدیورپی درندوں نے نہ صرف یہ کہ معاہدوں کا پاس نہ رکھابلکہ امریکہ کی
زمین کا رنگ اس کے باسیوں کے خون سے سرخ کردیاگیا۔ماضی کے علاوہ حال بھی
اُس کے سامنے تھا‘اس کے ہم نسل انسانیت کی باتیں کرتے تھے لیکن عمل درآمد
کے بجائے ریڈانڈین کے واسطے انکے دل و دماغ میں نفرت و تعصب کا غبار
تھا۔آسکرایوارڈ کی تقریب میں اُس نے اپنی جگہ ریڈانڈین کے حقوق کی جدوجہد
کرنے والی خاتون سچین لٹل فیدر کو بھیجا۔حقوق انسانی کے علمبرداروں نے اسے
پہلے تو سمجھابجھاکر ڈرادھمکاکر لوٹ جانے کی ترغیب دی مگر جب یہ باحوصلہ
خاتون ڈٹ گئی تو اسے کہا گیاکہ تمہارے لیئے محض ساٹھ سیکنڈ ہیں اس سے زیادہ
وقت تمہیں نہیں دیاجائے گا۔پینتالیسویں ایوارڈ کے لیئے مارلن برانڈو کانام
تالیوں میں گونجااور پھرسچین سٹیج پر باہمت لبوں کی جنبش سے اتناہی کہہ سکی
کہ مارلن برانڈو امریکہ کے ریڈانڈین مخالف رویے اور ان پر گوروں کی جانب سے
کیئے جانے والے مظالم کے خلاف یہ ایوارڈ ٹھکراتاہے۔بس پھر اسے دھکیل کر
ایسے پیچھے کردیاگیاجیسے انسانوں کی محفل میں کھانے کے بعد سویپر ڈسپوزل
مواد کو دھکیل دیتاہے۔
مارلن برانڈو تاریخ میں نام کماگیامگر ہر کوئی عظیم فیصلہ نہیں
کرسکتا۔افسوس تو یہ ہے کہ مسلمانوں کے کسی اداکار یا اداکارہ نے ایسے
ریمارکس نہیں دیئے جیسے جارج سکاٹ نے اُس لمحے دیئے جب اُسے اپنی مشہور فلم
”patton“پر 1971میں ایوارڈ سے نوازا گیا۔مشہور زمانہ تجزیہ کرتے ہوئے جارج
سکاٹ گویاہوا”یہ تقریب دو گھنٹے کی انسانی نمائش ہے“اور پھر ایوارڈ لینے سے
انکار کردیا۔اس نے مزیدکہا آسکر کی تقریب دیکھ کر طبیعت بوجھل ہوجاتی ہے۔یہ
قدیم دنیاکی وحشیانہ نمائش ہے۔جو اپنے تئیں ایک بددیانت تنظیم ہے۔جب کہ
قرآن مجیدمیں اللہ تعالٰی فرماتے ہیں”بے شک جو لوگ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں
میں بے حیائی کا چرچاہوان کیلئے دنیا اور آخرت میں درد ناک عذاب ہے “سورہ
النور آیت نمبر 19.۔لیکن متنازعہ لباس میں ملبوس شرمین اور اسے پذیرائی
دینے والے میڈیا کے عناصر کیا خوف خدا سے نکل چکے ہیں یا انہیں بھی کوئی
آئینی استثنی حاصل ہے؟
آسکر ایوارڈ کی 84سالہ تقریب زیادہ پررونق وپرمسرت رہی ہوگی کیونکہ اُسے
تیسری دنیا کی ایک ایسی خاتون میسر آگئی ہے جو خود اپنے بہن بھائیوں کے عیب
لوگوں کو بتاتی پھرتی ہے۔جس نے پندرہ لاکھ عراقی وافغانی انسانی جانوں کی
لاشوں پر سے گزر کر یہ ایوارڈحاصل کیا۔اس دیدہ دلیری پر ہی شاید اسے ملکی
سول ایوارڈ دینے اور ایک پارٹی کی جانب سے گولڈ میڈل دینے کی گونج سنائی دے
رہی ہے۔وگرنہ محترمہ عافیہ اتنی بلند ہمت کہاں تھی !ہیں جی۔حدیث مبارک کے
مفہوم میں ہے ”جو عورت کپڑے پہن کر بھی برہنہ ہو اس پر خداکی لعنت ہے“۔آزاد
خیال خواتین وپابہ زنجیر قائدین کیلئے شعر پیش خدمت ہے
آپ خود ہی اپنی اداﺅں پر ذرا غور کریں
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی
انسان جب کوئی اعزاز حاصل کرلیتاہے تو اسے میں پھر نئی منزل کو پالینے کی
جستجوجنم لیتی ہے۔اس واسطے شرمین صاحبہ سے عرض ہے کہ چھ سے بارہ سال کی وہ
یورپی وامریکی بچیاں جنہیں اپنے ہی ماموں‘والد ‘چچایا کسی محرم نے اپنی ہوس
کا نشانہ بنایاہوتاہے ‘اور وہ نفسیاتی مراکز میں زیرعلاج رہتی ہیں اس دفعہ
ان کی مختصر دورانیے کی فلم بنالیجئے بڑی ہٹ ہوگی۔یا ویت نام میں امریکی
مظالم یا پھر سو زیادہ عورتوں کے قاتل گورے پر کوئی ڈاکومینٹری
بنالیجئے۔گوانتاموبے یا ابوغریب جیل پر کوئی فلم یا پھر افغانستان وعراق
‘فلسطین وکشمیر میں ہونے والے غیر انسانی سلوک کی فلم بناکر پیش کیجئے ۔مگر
مجھے سو نہیں ایک سو دس فیصد یقین ہے آپ ایسا نہیں کریں گی کیونکہ آپ کو
معلوم ہے یہ فلمیں آسکر ایوارڈ نہیں حاصل کرسکتیں چاہے تیسری دنیا سمیت
مارلن برانڈو جیسے گورے بھی اس میں ہیروہوں یا اسکے خیرخواہ۔ |