عبادتِ تدبّر .. نفس کی تربیت اور تحریکِ اصلاحِ معاشرہ کا ایک اہم ذریعہ

ڈاکٹر صلاح الدين سلطان
ترجمہ: اشتیاق عالم فلاحی
بسم الله الرحمن الرحيم، الحمد لله الذي هدانا لهذا، وما كنا لنهتدي لولا أن هدانا الله، ونشهد أن لا إله إلا الله وحده لا شريك له، ونشهد أن سيدنا ونبيبنا محمد عبده ورسوله.

اللهم صل وسلم وبارك عليه، وعلى آله وأصحابه والتابعين ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين، ثم أما بعد..

بھائیو اور بہنو ، ہم ان آیات پر غور کریں گے جو ہم نے ابھی دوسری رکعت میں سنی ہے (أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ. وَإِلَى السَّمَاء كَيْفَ رُفِعَتْ . وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ . وَإِلَى الْأَرْضِ كَيْفَ سُطِحَتْ . فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ . لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ . إِلَّا مَن تَوَلَّى وَكَفَرَ . فَيُعَذِّبُهُ اللَّهُ الْعَذَابَ الْأَكْبَرَ . إِنَّ إِلَيْنَا إِيَابَهُمْ . ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا حِسَابَهُمْ) (الغاشية: 17-26) ((یہ لوگ نہیں مانتے) تو کیا یہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بنائے گئے؟ آسمان کو نہیں دیکھتے کہ کیسے اٹھایا گیا؟ پہاڑوں کو نہیں دیکھتے کہ کیسے جمائے گئے؟ اور زمین کو نہیں دیکھتے کہ کیسے بچھائی گئی؟ اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو، البتہ جو شخص منہہ موڑے گا اور انکار کرے گا، تو اللہ اس کو بھاری سزا دے گا،اِن لوگوں کو پلٹنا ہماری طرف ہی ہے، پھر اِن کا حساب لینا ہمارے ہی ذمہ ہے).

یہ آیات نگاہوں کو ایسی عبادت کی طرف متوجّہ کرتی ہیں جس کے اثرات عملی ہیں یعنی اس کھلی کائنات پر تدبّر کی عبادت، اس کے نتیجے میں محض اصلاحِ نفس کے لیے دعوتی تحریک نہیں پیدا ہوتی بلکہ اس کا رخ اس جانب بھی ہوتا ہے کہ (فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ . لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ) (اچھا تو (اے نبیؐ) نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت کرنے والے ہو، کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو)۔

روئے زمین پر اللہ کی دعوت تیزی کے ساتھ کیوں نہیں پھیلتی؟ کیونکہ ہم نے اللہ تبارک و تعالیٰ کی خلقت پر تدبّر چھوڑ دیا ہے، ہمارے اور کائنات کے درمیان فاصلے ہیں۔ ابھی ہم بیٹھے ہیں، ہمیں سورج کی روشنی نہیں دکھائی دے رہی ہے، جس جگہ سے سورج کی روشنی داخل ہوتی ہے وہاں پردا ہے۔ آپ گھر جاتے ہیں تو پردے میں بیٹھتے ہیں، آپ کے ارد گرد ہر چہار جانب پردے ہیں۔ خاص طور پر گرمی کے دنوں میں دھوپ نہ آئے اس لیے ہم پردے کا اہتمام کرتے ہیں، ایر کندیشن کے لیے بھاری اخراجات برداشت کرتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام کھڑکیاں اور روشن دان بند کر دیے جائیں۔ ہم گاڑی پر سوار ہوتے ہیں تو اس میں بھی اے سی کا اہتمام کرتے ہیں۔ ہم کائنات کو صحیح طریقے سے نہیں سمجھ پاتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر ہمارا ایمان کمزور پڑتا جاتا ہے۔

عرب کا وہ شخص جو صحرا نوردی کا عادی تھا، جس کے گھر کے دروازے کھلے ہوتے تھے، جو روشنی کے لیے سورج یا چاند کی روشنی کا ہی استعمال کرتا تھا اس کا ذہن بھی کھلا ہوا تھا۔ ہم نے عرب ممالک کے تمام علاقوں میں جدید مغربی طرز کے مکانات سے پہلے کے مکانات دیکھے ہیں۔ گھر کے اندرون میں بڑے بڑے باڑے ہوتے تھے، اس میں بیٹھ کر کھلے آسمان کا مشاہدہ کیا جا سکتا تھا۔ کبھی کبھی ان میں زراعت بھی ہوتی تھی۔ کمرے اس طرح بنائے جاتے تھے کہ ہر جانب سے ان میں دھوپ داخل ہوسکے۔ حقیقت میں یہ کمرے ایر کنڈیشنڈ تھے کہ ان میں کمروں کو ٹھنڈا رکھنے کے ربّانی انتطام سے فائدہ اٹھایا جاتا تھا۔ ان کمروں میں گرمی کے داخل ہونے کا نظم تھا جس سے جراثیم ختم ہوتے تھے، یہ فطری زندگی کے لیے مفید اور صحّت بخش ہوتے تھے۔ ان میں رہنے والے کو سورج کے طلوع و غروب کا احساس ہوتا تھا۔ وہ سوتے ہوئے بھی کبھی کبھی ستاروں کا مشاہدہ کرتے تھے۔

لیکن اب ہم جن کمروں میں رہتے ہیں ان کی وجہ سے ہم اذیت کا شکار ہیں۔ ہم کائنات کو اس شکل میں نہیں دیکھ پاتے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کہتا ہے: کیا لوگوں نے نہیں دیکھا؟ لوگو اس کائنات کو دیکھو، تاکہ اپنے رب کا عرفان حاصل کرسکو، خالق سبحانہ و تعالیٰ کی قدرت کا اندازہ کر سکو۔ مشاہدہ نہ ہونے کی وجہ سے انسان اس کائنات پر تدبّر نہیں کرتا، اپنے انجام پر غور نہیں کرتا۔ انسان اللہ پر ایمان لاتا ہے کہ وہ اپنے دین کی نصرت سے عاجز ہے۔

اب لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم مغربی طاقتوں کے مقابلے میں نہیں کھڑے ہو سکتے ہیں۔ لوگ نماز ادا کرتے ہیں اور یہ آیت پڑھتے ہیں (إِنَّ اللَّهَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ المتين) (ترجمہ: بے شک اللہ ہی رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست)۔ یہ صرف قرآن میں ہے۔ وہ اللہ جو آپ کی عقل و دل میں اور آپ کے شعور و وجدا ن میں ہے وہ اللہ وہ نہیں جو رزاق ہے، بڑی قوت والا اور زبردست ہے اور اسی وجہ سے ہم عصرِ حاضر میں ان آیات کے اثرات نہیں پاتے اور ہمیں اپنی زندگی میں ان کی عملی ترجمانی نہیں دکھائی دیتی۔ ہمارے اور رسول اللہ ﷺ کے صحابہ کے درمیان یہی فرق ہے۔ میں بزرگ صحابی ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مثال پیش کرتا ہوں:

ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا یقین
صحابیٔ رسول ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ اس آیت پر ایمان رکھتے تھے، وہ یہ سمجھتے تھے کہ پوری کائنات کانظام اللہ تعالیٰ چلا رہا ہے۔ وہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی قوّت پر یقین رکھتے تھے۔ غزوۂ احد کے موقع پر ان کی تلوار ٹوٹ گئی۔ وہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم- کے پاس آئے اور کہا: اے اللہ کے رسولﷺ میری تلوار ٹوٹ گئی ہے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم- نے انہیں لکڑی کی ایک چھڑی دی۔ اگر ہمارے دور کا کوئی انسان ہوتا تو وہ اپنی زبانِ حال سے کہتا: لکڑی کی چھڑی ! کیا میں بچوں کے ساتھ کھیلنے جا رہا ہوں؟ کیا میں بھیڑ بکری ہانکنے جا رہا ہوں؟ میں تو میدانِ جنگ میں ہوں لیکن ابو دجانہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مومنانہ یقین کے ساتھ چھڑی پکڑتے ہیں، اسے حرکت دیتے ہیں اور پھر یہی چھڑی خارا شگاف تلوار بن جاتی ہے۔ اس کے ساتھ وہ جہاد کرتے ہیں اور غزوۂ احد میں بہت سے مشرکین کو ہلاک کرتے ہیں۔ وہ اس کو لے کر جنگ کرتے کرتے اللہ عز وجل سے جا ملتے ہیں۔ ایسا اس لیے تھا کہ وہ اس اللہ پر ایمان رکھتے تھے جو قادر ہے جو رزاق ہے۔

جو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ رزاق ہے، قوت والا اور زبردست ہے وہ اللہ عزو جل کے سوا کسی اور کے سامنے جھکنا نہیں جانتا۔ اگر وہ کوئی برائی دیکھتا ہے تو اس پر جرات مندانہ رد عمل کا اظہار کرتا ہے۔ لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سربراہ کو غلطی کا مرتکب دیکھتا ہے تو اس کا رد عمل یہ ہوتا ہے کہ (چچا جان جس دروازے سے بُو آرہی ہے اسے بند کر دو اور آرام سے سو رہو)۔ ہم اس بات کے عادی ہو گئے ہیں کہ ہم خیر کے سامنے دروازے اور کھڑکیاں بند کر دیتے ہیں۔ وہ انسان جو اس بات پر ایمان رکھتا ہے کہ اللہ ہی رازق ہے، وہی اونٹوں کو صحرا میں چلاتا ہے، اسی نے پہاڑوں کو کھونٹی کی شکل میں بنایا ہے، اسی نے ستونوں کے بغیر آسمان کو بلند کیا ہے، اور کسی تکلیف کے بغیر زمین کو بچھونا بنایا ہے (هُوَ الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الْأَرْضَ ذَلُولًا فَامْشُوا فِي مَنَاكِبِهَا وَكُلُوا مِن رِّزْقِهِ وَإِلَيْهِ النُّشُورُ) (وہی تو ہے جس نے تمہارے لیے زمین کو تابع کر رکھا ہے، چلو اُس کی چھاتی پر اور کھاؤ خدا کا رزق، اُسی کے حضور تمہیں دوبارہ زندہ ہو کر جانا ہے ).

وہ انسان جو اپنے نفس اور اس کی خواہشات کے خول سے باہر نکل کر مالکِ کائنات کی عظیم الشان قوت کا مشاہدہ نہ کرے اس کے ذہن میں یہ مفہوم نہیں بیٹھ سکتا۔

قوتِ یقین کے دروازے
الله سبحانه وتعالٰى- یقین و ایمان کے دروازوں میں سے ایک دروازے کی طرف ہماری رہنمائی فرما رہا ہے۔ دیکھو صحرائی جہاز اونٹ کو جو ہر دشوار مرحلے کو جھیل لیتا ہے، یہ جہاز دیر تک پیاس برداشت کر سکتا ہے، صبر کے ساتھ راستہ طے کرتا ہے، اس اونٹ کے پیروں میں اللہ تعالیٰ نے ایسی طاقت رکھی ہے کہ یہ صحرا کی شدید ترین گرمی برداشت کر سکتا ہے۔ یہ قوت کسی اور حیوان کے اندر نہیں پائی جاتی۔ اونٹ جسے اللہ تعالیٰ نے کوہان دیے ہیں۔ اگر اس کے لیے غذا کم ہو جائے تو اس کی پیٹھ میں موجود فطری خزانے سے وہ کھانا ملنے تک غذائیت حاصل کرتا رہتا ہے، کوئی شکوہ نہیں کرتا۔

لیکن کتنی تکلیف کی بات ہے ہم کہتے ہیں: اونٹوں کا دور گیا، اب تو ہم متنوع اور ہمہ اقسام کی کاروں کے دور میں جی رہے ہیں۔ لیکن آج بھی دنیا کی عسکرین اکائیاں صحراء میں اونٹ سے بے نیاز نہیں ہوسکتی ہیں۔

ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان طبعی مخلوقات کی طرف ہم توجہ کریں جنہیں رب العزت سبحانه وتعالٰى نے پیدا کیا ہے۔ ان تمام مخلوقات میں مالکِ حقیقی نے کتنی دلکشی اور کتنے عمدہ معیار کا اہتمام کیا ہے اس پر ہم غور کریں۔ اللہ سبحانه وتعالٰى نے اونٹوں کا تذکرہ کیا ہے کیونکہ عربوں کے لیے یہ انتہائی مانوس جانور تھا۔ (أَفَلَا يَنظُرُونَ إِلَى الْإِبِلِ كَيْفَ خُلِقَتْ) (کیا وہ اونٹوں کو نہیں دیکھتے کہ انہیں کیسے بنایا گیا ہے؟) اس کس چیز کی طرف؟ پہاڑوں کی طرف۔ (وَإِلَى الْجِبَالِ كَيْفَ نُصِبَتْ) (اور پہاڑوں کی طرف کہ انہیں کیسے گاڑا گیا ہے؟)، ان پہاڑوں کے بارے میں بتاتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے انہیں کھونٹیاں کہا ہے۔ عرب کی صحرائی زندگی میں کھونٹی کی بڑی اہمیت تھی۔ یہ خیمے کو تھام کر رکھتی ہے۔ یہ خیمے کو مضبوطی سے تھامے اس کے لیے ضروری ہے کہ اس کا دو تہائی حصّہ زمین کے اندر ہو اور ایک تہائی حصہ زمین کے باہر ہو۔ طبقات الارض کی سائنس پہاڑ کے بارے میں گفتگو کرتی ہے تو بتاتی ہے کہ ہر پہاڑ کا ایک تہائی حصہ زمین کے اوپر ہوتا ہے اور دو تہائی حصے زیرِ زمین ہوتے ہیں یعنی بالکل کھونٹی۔ ان پہاڑوں کو اللہ تعالیٰ نے زمین کے لیے توازن کا ذریعہ بنایا ہے۔ اگر پہاڑ نہ ہوتے تو زمین ڈگمگانے لگتی۔ اللہ تعالیٰ نے زمین کو پہاڑوں سے وزن کیا۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ بنائے اور اس کے ذریعہ سے اس کے توازن کو قائم کیا۔

کائنات انسان کے لیے مسخر ہے
اس کائنات کی ہر چیز سے بڑھ کر ، پہاڑوں سے بھی زیادہ طاقتور بندۂ مومن ہے۔ اگر مومن کوئی صدقہ کرتا ہے اور اسے اس طرح چھپاتا ہے کہ اس کے دایاں ہاتھ نے کیا خرچ کیا اس سے بایاں ہاتھ بے خبر ہوتا ہے، تو یہ سچا مومن ہے، جو ہر طرف سے کٹ کر اللہ کا ہوگیا ہے، جو اعلانیہ خرچ کرنے کے بجائے چھپا کر اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرتا ہے۔ یہ مومن اللہ تعالیٰ کے نزدیک پوری کائنات سے زیادہ طاقتور ہے۔ یہ دنیا کی ہر چیز سے زیادہ طاقتور ہے، پہاڑوں سے زیادہ، زمین سے زیادہ، آسمان، ہوا، لوہا، آؔگ، پانی، ہر چیز سے زیادہ طاقتور ہے، خواہ جسمانی لحاظ سے وہ کتنا ہی کمزور ہو۔ مثلاً حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا جسم چھوٹا تھا، ان کے پیر چھوٹے تھے۔ جب لوگ ان کے چھوٹے قد کی وجہ سے ان پر ہنسے تو نبی صلى الله عليه وسلم نے انہیں بتایا کہ اللہ کے ترازو میں ان کے قدم کا وزن احد پہاڑ سے بڑھ کر ہے۔ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت ہے کہ : وہ پیلو کی مسواک توڑ رہے تھے۔ ان کی پنڈلیاں پتلی تھیں۔ ہوا کے جھونکوں کی وجہ سے وہ لڑکھڑانے لگے تو لوگ ہنسے۔ اس موقع پر رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہا: تم لوگ کیوں ہنس رہے ہو؟ لوگوں نے کہا: ان کی کمزور پنڈلیوں پر۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے کہا: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، یہ دونوں پنڈلیاں میزان میں احد پہاڑ سے زیادہ بھاری ہیں!! (طیالسی نے اس کی تخریج کی ہے اور البانی نے غایۃ المرام میں اسے حسن قرار دیا ہے)۔ قرآن کی وجہ سے ان قدموں کا وزن احد پہاڑ سے بڑھ کر ہے۔ (إِنَّا سَنُلْقِي عَلَيْكَ قَوْلًا ثَقِيلًا)( ہم تم پر ایک بھاری کلام نازل کرنے والے ہیں )۔ جو قرآن کی تلاوت کرتا ہے اللہ کے نزدیک اور جنت میں اس کا وزن زیادہ ہوتا ہے۔ پوری کائنات، زمین و آسمان، اس کے شب و روز، اس کی تمام اشیاء اللہ سبحانہ و تعالٰی نے انسان کے لیے مسخّر کردیا ہے تاکہ وہ رحمان کی عبادت کے لیے یکسو رہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ "وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْأِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ" (میں نے انسانوں کو صرف اس لیے پیدا کی ہے کہ وہ میری بندگی کریں)۔

بلاشبہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم غور و فکر کی عبادت کو زندہ کریں۔ ہم آسمان کی تخلیق پر، زمین، پہاڑوں، پانی کے چشموں اور ندیوں پر غور کریں، تدبر کریں۔ ہر فرد تنہائی میں نکلے، اپنے گھر والوں اور بچوں کے ساتھ نکلے کائنات کو دیکھے اور غور کرے۔ ہر فرد غور و فکر کے بعد اپنے تدبر کے نتائج بیان کرے۔ آسمان میں روپوش ہوتے سورج کو دیکھے۔ آسمان میں چمکتے ہوئے چاند کو دیکھے۔ پانی کو دیکھے۔ دن کا مشاہدہ کرے، سمندروں اور ندیوں کو دیکھے۔ ان میں چمکتے ہوئے پانی کو دیکھے۔ جب آپ صبح میں نکلتے ہیں تو وہ نقرئی نظر آتا ہے، شام میں اپنے دفتر سے لوٹ رہے ہوتے ہیں تو وہ طلائی نظر آتا ہے۔

یہ خوبصورت مناظر یقیناً انسان کے اندر ایمانی تحریک پیدا کرتے ہیں (إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَاخْتِلاَفِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لآيَاتٍ لِّأُوْلِي الألْبَابِ . الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىَ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ) (آل عمران 191) (زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں اُن ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں جو اٹھتے، بیٹھتے اور لیٹتے، ہر حال میں خدا کو یاد کرتے ہیں اور آسمان و زمین کی ساخت میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ نتیجہ (رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَذا بَاطِلاً سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ) (وہ بے اختیار بو ل اٹھتے ہیں) "پروردگار! یہ سب کچھ تو نے فضول اور بے مقصد نہیں بنایا ہے)۔ یہ انسان کے لیے تفکّر کا پھل ہے۔ دوسروں کے ساتھ اس کے ثمرات اس شکل میں سامنے آتے ہیں (فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ) (تو نصیحت کیے جاؤ، تم بس نصیحت ہی کرنے والے ہو )۔

ایک گھنٹہ کا تدبّر ایک سال کی عبادت سے بہتر ہے
اگر ایسا ہے تو ۔۔۔ یہ تدبر، تدبر کی عبادت، اگر ایک گھنٹہ بھی ہو تو یہ جہالت میں رہ کر کی جانے والی سال بھر کی عبادت سے بہتر ہے۔ ضروری ہے کہ ہم عملاً اس عبادت کو زندہ کریں۔ آئیں ہم سیر کو نکلیں۔ گھروں پر دیر تک رہنے کی وجہ سے غم اور اکتاہٹ کی جو کیفیت ہم پر طاری ہوتی ہے اس سے ہم باہر نکلیں۔ لیکن ہمارا نکلنا صرف تفریح کے لیے نہ ہو۔ نفس کے لیے سکون کی فراہمی ایک مطلوب امر ہو سکتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہم تدبر کی عبادت کو بھی زندہ کریں۔ چہل قدمی بھی ہو اور عبادت بھی، غور و فکر بھی۔ اس کا بھی ثواب ہے۔ اس پر بھی نیکیاں ہیں۔ آپ تفریح کے لیے نکلیں گے ہی پر آپ کوشش کریں کہ آپ کا یہ نکلنا اللہ کے نور کے جلو میں ہو، نیکیوں کے سائے میں ہو۔ آپ عقل اور وجدان سے سیاحت کریں اور اپنے ارد گرد کے لوگوں میں، اپنی بیوی اور بچوں کے درمیان اپنے احساسات کو بیان کریں۔ ہر وہ شخص جس کے ذہن میں ریت، آسمان، پہاڑوں، زمین، پانی وغیرہ سے کوئی تاثر ابھرتا ہے تو وہ اسے بیان کرے۔ وہ کیا محسوس کرتا ہے؟ اس کی فکر نے کس چیز کی طرف اس کی رہنمائی کی؟ ان نشانیوں کو دیکھنے کے بعد اس کی دلی کیفیت کیا ہوتی ہے؟ اس طریقہ سے ہم یقیناً اپنی ذات میں ربّانی بنیں گے، اور ان شاء اللہ دوسروں کو بھی اس کی دعوت دیں گے۔ سورۂ عمران کی آیات جس میں تفکّر کی دعوت دی گئی ہے ( إن في خلق السموات والأرض ....) ان کا نتیجہ اپنی ذات کی تربیت ہے اور سورۂ غاشیہ کی آیات کا نتیجہ ہے (فَذَكِّرْ إِنَّمَا أَنتَ مُذَكِّرٌ . لَّسْتَ عَلَيْهِم بِمُصَيْطِرٍ) (اچھا تو نصیحت کیے جاؤ، تم نصیحت ہی کرنے والے ہو،کچھ ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو )۔

بہت سے طلبہ، بہت سے دوست احباب کہتے ہیں: فلاں ہمارے رشتہ دار ہیں، فلاں ہمارا دوست ہے، اس پر تذکیر کا کوئی اثر نہیں ہوتا۔ ان سے ہم کہتے ہیں کہ نصیحت کے لیے مناسب اوقات کا انتخاب کیجیے۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم- ابو طالب کے ساتھ سالہا سال رہے لیکن انہوں نے ایمان قبول نہیں کیا۔ ابو طالب کا انتقال اس حال میں ہوا کہ رسول صلى الله عليه وسلم- نے ان سے کہا چچا جان آپ کلمہ پڑھ لیں میں اس سے اللہ کے پاس آپ کی سفارش کروں گا۔ نبی صلى الله عليه وسلم- کو اس پر بڑا رنج ہوا تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی (إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَكِنَّ اللَّهَ يَهْدِي مَن يَشَاء) (آپ جسے چاہیں اسے ہدات نہیں دے سکتے لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت سے سرفراز کرتا ہے).

مخلص داعیوں کا اجر
مطلوب یہ ہے کہ ہم لوگوں کو اللہ کی یاد دلاتے رہیں، انہیں اللہ کی طرف بلاتے رہیں۔ اپنی دعوت میں اخلاص پیدا کریں تاکہ ہمیں مخلص داعیوں کی طرح اجر ملے۔

داعیوں کا اجر کیا ہے: (وَمَنْ أَحْسَنُ قَوْلًا مِّمَّن دَعَا إِلَى اللَّهِ وَعَمِلَ صَالِحًا وَقَالَ إِنَّنِي مِنَ الْمُسْلِمِينَ) (اس شخص سے بہتر بات کس کی ہوگی جو اللہ کی طرف بلائے، نیک عمل کرے اور کہے کہ میں مسلمانوں میں سے ہوں)۔ دنیا میں افضل ترین منصب یہ ہے کہ انسان داعی ہو۔ آپ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کسی ایک فرد کو ہدایت سے سرفراز کرے تو یہ دنیا و مافیھا سے بہتر ہے۔ یہ وہ ذمہ داری ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے تفویض کردہ ہے اور اس کی وجہ سے فرشتے آسمان میں، پرندے ہوا میں، درخت روئے زمین پر، اور مچھلیاں پانی میں آپ کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتے ہیں۔ یہ تمام ان لوگوں کے حق میں دعا کرتے ہیں جو دوسروں کو خیر کی تعلیم دیتے ہیں۔ جو شخص بھی اللہ تعالیٰ کی طرف بلاتا ہے، پوری کائنات اس کے حق میں استغفار کرتی ہے، دنیا اسے اپنے پروں میں سمیٹ لیتی ہے۔

ہمیں چاہئے کہ دنیا پر غور و فکر کے لیے ہم اپنی عقل کے دروازے کھلے رکھیں۔ قرآن پر غور و فکر کریں، علم پر غورو فکر کریں تاکہ ہم ربّانی منزلت پر فائز ہوں اور پھر دعوت الیٰ اللہ کا کام کر سکیں۔

قرآن نے سورہ آل عمران میں اجمالی انداز میں اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے : (وَلَكِن كُونُواْ رَبَّانِيِّينَ بِمَا كُنتُمْ تُعَلِّمُونَ الْكِتَابَ وَبِمَا كُنتُمْ تَدْرُسُونَ)(لیکن سچے ربانی بنو جیسا کہ اس کتاب کی تعلیم کا تقاضا ہے جسے تم پڑھتے اور پڑھاتے ہو)۔ ہم کب ربّانی بنیں گے؟ اس وقت جب پڑھیں گے اور پڑھائیں گے، جب کوئی چیز سنیں تو اسے اپنے اہلِ خانہ کو سکھائیں، پڑوسی کو سکھائیں اور دوستوں کو سکھائیں۔ محض سن لینا کافی نہیں ہے۔ ہمارے اندر اللہ تعالیٰ کے دین کی فکر پیدا ہو۔ ہم سب مل کر اللہ کے بندوں تک اسے پہونچانے کی کوشش کریں لیکن اس سے پہلے اور اس عمل کے دوران بھی ہمیشہ تدبّر ضروری ہے۔ کائنات پر تدبر عقل و دل کے لیے توشہ ہے، اسے ساتھ رکھیں۔

اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہم سب کو قرآن سے فائدہ پہونچائے۔ ہم سب کو ایسے اعمال کی توفیق دے جو اسے محبوب اور پسند ہیں۔ اللہ آپ تمام کو جزائے خیر سے نوازے۔۔ آپ کی کوششوں کو قبول فرمائے ۔۔۔ والسلام عليكم ورحمة الله وبركاته.
____________
ڈاکٹر صلاح سلطان کے صوتی ریکارڈ سے قلمبند کیا گیا.
Ishteyaque Alam Falahi
About the Author: Ishteyaque Alam Falahi Read More Articles by Ishteyaque Alam Falahi: 32 Articles with 32127 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.