ایک بدنصیب گروہ

رنگ و نور ....سعدی کے قلم سے

اﷲ تعالیٰ نے ہم مسلمانوں پر بہت بڑا احسان فرمایا کہ.... ہمیں ”جہاد فی سبیل اﷲ“ جیسی عظیم الشان نعمت عطاءفرمائی.... بے شک جہاد بہت بڑی نعمت اور اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے.... اﷲ اکبر کبیرا.... عزت کی زندگی اور شہادت کی موت.... ایک مسلمان کو اور کیا چاہئے؟ .... آج نہ جہاد کے دلائل لکھنے ہیں اور نہ فضائل.... الحمدﷲ دلائل اور فضائل آج کے اخبار میں آپ کو بہت ملیں گے جو دوسرے رفقاءکرام نے لکھ دیئے ہیں.... اﷲ تعالیٰ ان سب کا لکھنا قبول فرمائے .... دراصل جہاد کا مسئلہ بہت واضح ہے.... جہاد والا کام تو فرشتوں کے ذمے تھاپھر اﷲ پاک نے انسانوں پر احسان فرمایا اور انہیں جہاد والا کام دے دیا.... اور پھر اس امت پر خصوصی احسان فرمایا کہ جہاد کو ان کے دین کا حصہ بنادیا اور اپنے محبوب نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کو تلوار دے کر مبعوث فرمایا .... اﷲ اکبر کبیرا.... اب وہ دن ہے اور آج کا دن ہے جنت کی حوریں خوب بنتی ہیں، سنورتی ہیں.... اور خوب زیب وزینت کرتی ہیں.... جی ہاں اﷲ تعالیٰ کے راستے کے مجاہدین کے لئے.... اور جنت خود مہک رہی ہے.... کافروں نے ایٹم بم بنا کر اسلام کو مٹانے کا خواب دیکھا ہے.... مگر جہاد مسکرا رہا ہے.... جہاد جگمگا رہا ہے، جہاد للکار رہا ہے.... کافروں کے خواب چکنا چور ہو رہے ہیں .... اور شہیدوں کا خون ہر طرف خوشبو بکھیر رہا ہے اﷲ پاک نے جہاد کی نعمت دے کر بہت بڑا احسان فرمایا اور جنت کے لمبے راستے کو مختصر فرمادیا.... پہلے یہ نعمت فرشتوں کے پاس تھی اب اس امت کے مجاہدین کے پاس ہے اور فرشتے بھی محروم نہیں ہوئے اب ان کا کام مجاہدین کی مدد کرنا ہے اور میدان جہاد میں رب کی نصرت بن کر اترنا ہے.... اﷲاکبرکبیرا.... دین کے دشمنوں نے جہاد کے خلاف طرح طرح کے اعتراضات اور شبہات پھیلائے مگر ان کی کوئی بات وزنی نہیں ہے.... قرآن پاک کی آیتوں نے جہاد کے مسئلے کو بالکل واضح کردیا ہے.... جہاد کا مسئلہ اتنا واضح اور تاکیدی ہے کہ ماضی کے مفسرین اور فقہاءاس پر بحث کرتے رہے کہ اگر خدانخواستہ مسلمانوں پر بڑی گمراہی کا حملہ ہو اور ان کی اکثریت جہاد چھوڑ دے تو سچے اور حقیقی مسلمان اس وقت کس طرح سے فریضہ جہاد کو ادا کریں گے؟ .... امام قرطبیؒ لکھتے ہیں:
کیف یصنع الواحد اذا قصر الجمیع
یعنی اگر کسی جگہ کے تمام لوگ جہاد چھوڑ دیں تو ایک آدمی اس وقت کس طرح سے جہاد کرے؟
پھر اس کا جواب دیتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی صورت ضرور نکالے
(۱) کسی ایک مسلمان قیدی کو فدیہ دے کر چھڑائے، یعنی کسی گرفتار مجاہد کو فدیہ دے کر رہا کرائے یا
(۲) کسی دور دراز کے محاذ پر پہنچ کر خود لڑائی میں حصہ لے یا
(۳) کسی مجاہد کو پورا سامان جہاد دے کر بھیجے۔ (القرطبی)

مقصد یہ ہے کہ چھٹی نہیں ہے، ایک سچے اور حقیقی مسلمان کو کسی نہ کسی طریقے پر جہاد میں حصہ لیتے رہنا چاہئے کیونکہ .... جہاد کے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوتا اور جہاد کے بغیر ایمان والی موت نصیب ہونا مشکل ہوتا ہے.... آپ حضرات نے مشہور تابعی حضرت سعید بن مسیبؒ کا نام سنا ہوگا، اہل علم ان کو تابعین کا سردار کہتے ہیں وہ فرمایا کرتے تھے کہ .... جہاد ہر مسلمان کی اپنی ذاتی اور ایمانی ضرورت ہے کیونکہ جو شخص جہاد اور نیت جہاد کے بغیر مر جائے وہ منافقت کی موت مرتا ہے پس خود کو منافقت سے اور منافقت والی موت سے بچانا فرض عین ہے....

مگر اس زمانے کے کچھ نادان لوگوں نے ”ترک جہاد“ کو اپنے گلے کا ہار بنالیا ہے.... وہ کہتے ہیں کہ ابھی جہاد کا وقت نہیں آیا؟ .... استغفراﷲ، استغفراﷲ....

اسلام کا جو فریضہ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم پر نازل ہوگیا، اب اس کو منسوخ یا موقوف کرنے کا اختیار کسی کو نہیں ہے، کسی کو بھی نہیں ہے.... پرانے زمانے کے فقہاءاور مفسرین اس پر بحث کرتے تھے، اکیلا آدمی کس طرح سے جہاد کرے جبکہ آج کے نادان واعظ کہتے ہیں کہ .... جہاد سرکار کا کام ہے، جہاد کی شرطیں پوری نہیں، جہاد کا وقت نہیں آیا.... اور جہاد کی فلاں فلاں قسمیں ہیں ....

اﷲ رب العالمین ایسی جھوٹی باتیں کہنے والوں کے شر سے پوری امت مسلمہ کی حفاظت فرمائے، دراصل یہ لوگ کافروں کی طاقت سے مرعوب ہیں اور اﷲ پاک کے لئے جان دینا نہیں چاہتے.... غزوہ تبوک کے موقع پر جو منافق جہاد کے لئے نہیں نکلے تھے ان کے بارے میں امام رازیؒ لکھتے ہیں:
فکانوا کالآئسین من الفوز بالغنیمة بسبب انہم کانوا یستعظمون غزو الروم فلہذا السبب تخلفوا۔ (تفسیر کبیر)
یعنی یہ لوگ رومیوں کی طاقت کو بہت بڑا (ناقابل تسخیر) سمجھتے تھے اور ان کے مقابلے میں کامیابی سے گویا بالکل مایوس تھے۔

ایک اور جگہ امام رازیؒ نے مسلمان اور منافق کا فرق لکھا ہے کہ مسلمان تو جہاد کا نام اور اعلان سن کر جہاد کے لئے دوڑ پڑتے ہیں جبکہ منافق طرح طرح کے بہانے تراشنے لگتے ہیں کہ کس طرح سے جہاد سے بچ جائیں:
والمقصود من ہذا الکلام تمییز المومنین من المنافقین فان المومنین متی امروا بالخروج الی الجہاد تبادروا الیہ ولم یتوقفوا والمنافقون یتوقفون ویتبلدون ویتون بالعلل والاعذار۔ (تفسیرکبیر)

پس معلوم ہوگیا کہ .... جہاد کے خلاف جو لوگ طرح طرح کے دلائل لاتے ہیں وہ دلائل نہیں ہوتے صرف شیطانی وسوسے اور نفسانی بہانے ہوتے ہیں .... جب آقا مدنی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم خود تلوار لے کر میدان جہاد میں لڑنے بار بار تشریف لے گئے تو بات ہی ختم ہوگئی.... جہاد کے معنیٰ بھی معلوم ہوگئے اور جہاد کی اہمیت بھی.... اگر جہاد اہم نہ ہوتا تو اﷲ تعالیٰ اپنے محبوب وحبیب صلی اﷲ علیہ وسلم کو اس میں زخمی نہ ہونے دیتا .... آج کی مجلس کے شروع میں عرض کیا ہے کہ آج نہ جہاد کے دلائل بیان کرنے ہیں اور نہ فضائل، بلکہ آج آپ سب کے ساتھ ایک ”دعائ“ کا تبادلہ (مبادلہ) کرنا ہے.... یہ ایک ضروری دعاءہے جو میں آپ کے لئے مانگوں اور آپ میرے لئے مانگیں .... دراصل قرآن پاک نے سمجھایا ہے کہ بعض لوگ خود کو مسلمان بھی کہلواتے ہیں اور بسا اوقات دیندار بھی .... مگر وہ بدنصیب لوگ ہوتے ہیں کیونکہ اﷲ پاک ان سے ناراض ہوتا ہے اور اس کی علامت یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ ان کو جہاد میں نہیں نکلنے دیتا .... استغفراﷲ، استغفراﷲ....

اب ہم نے تڑپ تڑپ کر یہ دعاءکرنی ہے کہ اﷲ پاک مجھے اور آپ کو ان لوگوں میں شامل ہونے سے محفوظ فرمائے ....

بدنصیب لوگوں کا یہ گروپ حضور اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے سے شروع ہوا اور تاقیامت رہے گا.... قرآن پاک کی سورة توبہ کی آیت ۳۴ سے اس گروہ کا تذکرہ شروع ہوتا ہے اور کئی آیات تک یہ دل ہلانے والا تذکرہ جاری رہتا ہے.... ایک مسلمان اگر غور سے ان آیات کو پڑھے تو غم اور خوف سے آنکھیں بھیگ جاتی ہیں اور دل لرزنے لگتا ہے.... حضرت آقا مدنی صلی اﷲ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لئے تشریف لے جارہے تھے.... آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے سب مسلمانوں کو نکلنے کا حکم دیا.... اس وقت اہل ایمان کی طرف سے ایمان کے عجیب عجیب مناظر سامنے آئے اور صحابہ کرام سب کچھ لٹا کر رومیوں سے ٹکرانے کے لئے تیار ہوگئے.... مگر بدنصیب لوگوں نے طرح طرح کے بہانے بنانا شروع کردیئے، کسی نے دینداری کا لبادہ اوڑھ کر کہا کہ جہاد میں نکلنے سے میرا دین تباہ ہوجائے گا تو کسی نے اپنے گھر کا بہانہ بنایا.... آپ صلی اﷲ علیہ وسلم ان کے بہانے سن کر ان کو گھر رہنے کی اجازت دیتے رہے اس وقت سورة توبہ ایک گرج بن کر نازل ہوئی کہ.... اے نبی (ﷺ) اﷲ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے آپ نے ان کو اجازت کیوں دی؟ .... آپ کو چاہئے تھا کہ آپ ان کو اجازت نہ دیتے تاکہ یہ سرعام رسوا ہوجاتے .... اور پھر قرآن پاک نے وہ بات فرمادی جو سخت دلوں کو پگھلا دیتی ہے:
ولکن کرہ اﷲ انبعاثہم

اﷲ پاک نے ان کے جہاد میں نکلنے کو پسند ہی نہیں فرمایا.... اﷲ پاک نے ناپسند فرمایا کہ یہ لوگ عزت وعظمت والے میدان جہاد میں پہنچیں پس اس نے ان کو سست کرکے عورتوں کے ساتھ گھروں میں بٹھا دیا....
ہائے اﷲ معافی .... ہائے ربا معافی.... ہائے مولا معافی....

تفسیر مدارک اور روح المعانی وغیرہ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ یہ انتالیس افراد تھے جن کے بارے میں ابتدائی طور پر یہ آیتیں نازل ہوئیں:
وکانوا تسعة وثلاثین رجلاً (المدارک)

اﷲ پاک ناراض ہوجائے یہ ایک مومن کے لئے جہنم سے بھی سخت عذاب اور سزا ہے .... پس آپ میرے لئے دعاءفرمائیں کہ اﷲ تعالیٰ مجھے ان انتالیس افراد کے گروہ میں شامل ہونے سے بچائے اور میں آپ سب کے لئے یہی دعاءکرتا ہوں .... یہ انتالیس افراد کس جہاد میں جانے سے رکے تھے؟ .... سب کو معلوم ہے کہ غزوہ تبوک سے جو کہ ایک جنگ تھی .... پس جہاد کے شرعی معنیٰ بھی معلوم ہوگئے .... اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ جہاد سے محرومی ایک بڑا عذاب اور مصیبت ہے.... ہمیں اس وقت کسی اور پر تنقید کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہمیں تو اپنی فکر ہے کہ ہم جہاد سے محروم نہ ہوجائیں.... جہاد ایک مشکل فریضہ ہے کیونکہ یہ اسلام کی بلند چوٹی کا سب سے اوپر والا مقام ہے.... اوّل تو اتنے اونچے مقام تک چڑھنے کے لئے کافی محنت لگتی ہے اور دوسرا اس مقام پر پہنچ کر گرنے کا بھی ڈر رہتا ہے.... جو لوگ دنیا کے تقاضوں اور شہوتوں سے ہلکے رہتے ہیں وہ جلد ہی چڑھ جاتے ہیں .... اور جو لوگ جماعت بن کر ایک دوسرے کو تھامے رکھتے ہیں وہ گرنے سے بچ جاتے ہیں .... اﷲ پاک ہمیں گرنے سے بچائے اور ہمیں جہاد سے محروم نہ فرمائے .... دراصل یہ دنیا اور اس کے تقاضے بہت ظالم اور دلکش ہیں .... ایک مجاہد جب اس دنیا کی طرف دیکھنے لگتا ہے تو اس کا پاؤں پھسل جاتا ہے اور وہ جہاد کی نورانی چوٹی سے گر جاتاہے .... یا اﷲ رحم فرما، یا اﷲ رحم فرما.... پھر جہاد سے محرومی کا فتنہ بھی بہت عجیب ہے.... اکثر گناہ ایسے ہیں کہ انسان ان میں مبتلا ہونے کے بعد شرم اور خوف محسوس کرتا ہے.... مگر ترک جہاد کے گناہ کو شیطان نے دلکش بنادیا ہے.... آپ جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ جانے والے کسی شخص سے بات کریں وہ خود کو دنیا کا افضل ترین شخص ثابت کرے گا اور جہاد کرنے والوں پر طرح طرح کی تنقیدیں کرے گا .... اگر خدانخواستہ میں اور آپ بھی اسلام کی چوٹی سے پھسل کر دنیا کے دلدل میں جاگرے تو ہمارا بھی یہی حال ہوجائے گا.... اور بالآخر ایک دن موت کے ظالم پنجے ہماری گردنیں دبا دیں گے اور ہم شہادت کی زندگی اور لذتوں سے محروم ہوجائیں گے
یا اﷲ رحم فرما، یا اﷲ رحم فرما....

مجھے اور آپ کو یقین کرنا چاہئے کہ جہاد چھوڑنے کا نقصان صرف اور صرف خود ہمیں ہی پہنچے گا.... اگر جہاد چھوڑ کر ہم نے امریکہ میں بنگلہ بنالیا، دبئی میں محل خرید لیا، اپنے گرد دنیا بھرکی عورتیں جمع کرلیں اور اپنے ذاتی جہاز لے لئے تب بھی ہم ایک ذلیل مچھر سے بھی زیادہ حقیر رہیں گے.... کیونکہ یہ تمام چیزیں میدان جہاد میں لگنے والی مٹی کے بھی برابر نہیں ہیں.... ہائے کتنے خوش نصیب ہیں وہ مجاہد جو اپنا امتحان پورا کرکے شہید ہوگئے.... اب کوئی کار، کوئی کوٹھی، کوئی عورت، کوئی عزت، کوئی لالچ ان کو جہاد سے محروم نہیں کرسکتی....

مگر ہم تو خطرے میں ہیں.... ہر طرف خوف ہے اور طرح طرح کے فتنے .... لوگ خوبصورت جوتی پہن کر ناز نخرے کرنے لگتے ہیں.... ہائے مسلمان تو تو روم وفارس کے خزانوں کو بھی نفرت سے دیکھتا تھا اب تو جوتے، کوٹھی اور کپڑے میں عزت دیکھ رہا ہے.... جہاد چھوڑ دو اور امن سے رہو.... یہ بدبودار نعرہ بے شمار لوگوں کو جہاد سے محروم کر چکا ہے.... اﷲ پاک کی قسم جو امن انسان کو جہاد سے دور کرتا ہو، اﷲ پاک کی رحمت سے دور کرتا ہو وہ امن نہیں ہے.... ہاں بے شک جو امن ببر شیر کو بندر بنادے وہ امن خود ایک ذلت اور عذاب ہے....

اے پڑھنے والوں.... مجھے اور آپ کو اپنے نفس کی نگرانی کرنی چاہئے اور اس کو سمجھانا چاہئے کہ یہ .... جہاد چھوڑنے پر ہمیں نہ ابھارے.... یاد رکھیئے! جو نفس جہاد کے خلاف ابھارتا ہو وہ ”نفس امّارہ“ ہے خواہ وہ کتنی ہی نیکیوں میں لگا رہتا ہو .... ہمیں اپنے نفس کو سمجھانا چاہیے کہ ....جہادامر الٰہی ہے....جی ہاں اﷲ پاک کا حکم ہے اے نفس کیا تو اﷲ پاک کے حکم سے رو گردانی کرتا ہے؟.... جہاد کی فرضیت اور فضائل قرآن پاک نے بیان فرمائے ہیں .... اے نفس اگر تو جہاد میں نکلا اور تجھے شہادت نصیب ہوگئی تو تو ابد الآباد، یعنی ہمیشہ ہمیشہ کی نعمتوں کا مستحق بن جائے گا.... تجھ سے نہ آنکھوں کا حساب ہوگا نہ کانوں کا .... تجھ سے نہ قبر کی پوچھ تاچھ ہوگی اور نہ حشر کا حساب.... تو فرشتوں کے ساتھ گھومے گا اور ہواؤں اور بادلوں میں تیرتا پھرے گا.... تیرا رب تجھ سے راضی ہوگا اور جنت کی نہریں تیرے ساتھ کھیلیں گی .... اے نفس تیری جان حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے، جب وہ جہاد میں نکلے تو پھر تو خود کو قیمتی سمجھ کر کیوں گھر میں بیٹھا ہوا ہے؟

اے نفس! پیارے آقا صلی اﷲ علیہ وسلم نے جہاد اور مجاہد کے جو فضائل ارشاد فرمائے ہیں کیا تو ان تمام فضائل سے محروم رہے گا؟.... پھر تو قیامت کے دن آقا صلی اﷲ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کا کس طرح سے سامنا کرے گا؟ .... اے نفس! زندگی کے دن مقرر ہیں، موت کا وقت مقرر ہے، روزی کے لقمے مقرر ہیں پھر تو جہاد کو چھوڑ کر کیا حاصل کرنا چاہتا ہے؟ .... جہاد کی مٹی، جہاد کے قدم، جہاد کی بھوک، جہاد کا ایک ایک لمحہ نعمت اور رحمت ہے کیا تو ان تمام چیزوں سے محروم ہونا چاہتا ہے؟ .... اے نفس! یہ دنیا بے وفائی، ظلم، بیماری اور پریشانی کی جگہ ہے کیا تو اس پریشانی والی زندگی کی خاطر راحتوں اور لذتوں والی زندگی قربان کر رہا ہے؟....

اے مسلمان ! تیرے جہاد چھوڑنے سے کافروں نے کتنی طاقت بنالی ہے.... اب سلمان رشدی ہماری ماؤں کو گالیاں دیتا پھرتا ہے، وہ خبیث ازواج مطہرات پر زبان چلاتا ہے.... امریکہ کے دانشور کعبة اﷲ اور مسجد نبوی پر بمباری کی باتیں کر رہے ہیں.... اور کافروں کے لشکر عراق، افغانستان، کشمیر اور فلسطین میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی امت کا خون بہا رہے ہیں ....

اے مسلمان تو نے دنیا کو سب کچھ سمجھا تو آج تجھے آٹے کے لئے قطار لگانی پڑتی ہے.... حالانکہ ایک زمانے میں روم وفارس کے بادشاہ تجھے خراج دے کر جیتے تھے.... اے مسلمان تو نے زندہ رہنے کا شوق پالا تو تجھے آج کافروں کے ملکوں میں جاکر ان کے کتے نہلانے پڑتے ہیں .... حالانکہ تو تو افضل ترین امت کا فرد تھا....

اے مسلمان تو نے جہاد چھوڑا تو آج زمانے کے بدترین لوگ تیرے حکمر ان بن گئے وہ تجھے دن رات بیچتے، مارتے اور ستاتے ہیں .... اے نفس اﷲ تعالیٰ سے ڈر، اس دنیا کی حقیقت کو سمجھ .... کسی قبرستان میں جاکر مردوں سے بولنے کی کوشش کر.... کسی گندگی کے ڈھیر پر دنیا کی چیزوں کاحشر دیکھ .... اور کسی بڑھاپے سے حسن کی بے ثباتی کا راز پوچھ .... تب تو جہاد چھوڑنے کے گناہ اور عذاب سے باز رہے گا....

اے القلم کے پڑھنے والو.... ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے نفس کو سمجھائیں.... اور یاد دہانی کے لئے روزانہ آیات جہاد، فضائل جہاد اور واقعات جہاد کا مذاکرہ کیا کریں.... شیطان کو جہاد سے سخت چڑ ہے.... وہ جانتا ہے کہ جہاد بخشش اور جنت کا راستہ ہے، اس لئے وہ ہرمجاہد کے پیچھے لگا رہتا ہے کہ کسی بھی طرح اسے جہاد سے محروم کرکے حقیر دنیا کا ذلیل غلام بنادے.... اس لئے ہمیں روز فضائل جہاد کی تعلیم کراکے اپنے ایمان کو تازہ کرناچاہئے.... اور فتح الجوّاد کا بھی بار بار مطالعہ کرناچاہئے....

مگر ایک بات یاد رکھیں.... اپنے نفس کو سمجھانے سے بھی فائدہ ہوگا، روزانہ کی تعلیم، مذاکرے اور مطالعے سے بھی فائدہ ہوگا.... مگر اصل مسئلہ تب حل ہوگا جب ہم اپنے دل میں جہاد کی قدر بٹھا لیں گے، خود کو جہاد کا محتاج سمجھیں گے اور جہاد سے محرومی کو عذاب جانیں گے.... آپ دیکھیں ایک آدمی اپنی جان اور صحت کو اپنے لئے ضروری سمجھتاہے تو پھر اس کی حفاظت کے لئے کتنی تدبیریں کرتا ہے ا ور کتنی دعائیں مانگتا ہے.... حالانکہ جہاد فی سبیل اﷲ ہمارے لئے جان اور صحت سے زیادہ ضروری ہے.... جان نہ ہوئی تو مرجائیں گے اور مرنا تو ویسے بھی ہے، صحت نہ ہوئی تو بیمار ہوجائیں گے.... مگر جہاد سے محروم ہوئے تو برباد ہوجائیں گے کیونکہ جہاد سے محرومی اﷲ تعالیٰ کی ناراضی کی علامت ہے.... آپ ایک بار سورة توبہ کی آیت ۳۴ اور اس سے پہلے کی دو آیتیں اور اس کے بعد کی دس آیتوں کا مطالعہ کرلیں .... اگر اﷲ تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی تو انشا ءاﷲ اپنی اگلی مجلس میں ان بارہ تیرہ آیات کا خلاصہ عرض کروں گا.... آپ ان آیات میں جھانک کر دیکھیں کہ جہاد سے محرومی کتنا بڑا عذاب اور کتنی عظیم رسوائی ہے.... اور اﷲ پاک چاہتا ہے کہ بعض لوگ جہاد میں نہ نکلیں.... کیونکہ ان کا جہاد میں نکلنا اﷲ پاک کو پسند نہیں ہے.... اعوذباﷲ، اعوذباﷲ، استغفراﷲ، استغفراﷲ.... یہ کتنی شدید وعید ہے اور کتنا سخت عذاب کہ انسان اتنا گر جائے اور اتنا گندہ ہوجائے کہ اﷲ پاک اس کو جہاد سے محروم فرمادے.... یا اﷲ، یااﷲ، یااﷲ آپ کو آپ کی وسیع رحمت کا واسطہ کہ مجھے ان لوگوں میں شامل ہونے سے اپنی پناہ میں لے لیجئے.... اور جو مسلمان مرد اور عورتیں اس مضمون کو پڑھ رہے ہیں ان کے لئے بھی یہی دعاءہے کہ اﷲ پاک ان کو جہاد کی محرومی سے اپنی پناہ میں رکھے.... اور یہی دعاءاپنے والدین، اہل خانہ، عزیز واقارب، دوست احباب اور محسنین ومعاونین کے لئے بھی ہے.... یا اﷲ یا ارحم الراحمین ہمیں اپنی ناراضی سے بچالیجئے.... اور ہمیں محرومی اور بدنصیبی سے بچالیجئے....

اے پڑھنے والو.... آپ میرے لئے دعاءکریں، میں آپ کے لئے دعاءکرتا ہوں .... جہاد کا انکار کفر ہے، جہاد کا ترک محرومی ہے، اور شہادت ایمان کے بعد سب سے بڑی نعمت ہے .... ا ﷲپاک ہمیں کفر اور محرومی سے بچائے، مقبول شہادت کی نعمت نصیب فرمائے اور انتالیس بدنصیب افراد والے گروہ میں شامل ہونے سے ہم سب کی حفاظت فرمائے.... آمین یا ارحم الراحمین یا اﷲ ، یا اﷲ، یا اﷲ....
mudasser jamal
About the Author: mudasser jamal Read More Articles by mudasser jamal: 202 Articles with 372693 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.