احسان اچھی چیز ہے۔مگر

نجانے آج کیوں میرے ذہن میں آج کے حالات دیکھ کر ایک کہانی دوڑ رہی ہے جس میں احسان کرنے کی بات ہے اور ہمارے حکمرانوں کے لئے اور ہمارے لئے ایک سبق ہے۔تو آئیے اب پہلے کہانی میں چلتے ہیں ہوا کچھ یوں تھاکہ ایک درخت پر باز سب سے اونچی شاخ پر بیٹھا پیاسی نظروں سے شکار کی تلاش کر رہا تھا اُس کی نظر درخت کے سامنے والی زمین پر پڑی تو حیران رہ گیا جنگل کا شیر بلی کے پاؤں چاٹ رہاتھا تو باز نے شیر کی عاجزی کے بابت بلی سے سوال کیاکہ یہ کیا ماجرا ہے تو بلی نے جواب دیاایسی کوئی بات نہیں پچھلے مہینے اسی شیر کے پاؤں میں کانٹا چُھبا تھادرد سے بُرا حال تھاکئی دِنوں سے اُس نے کچھ کھایا پیا بھی نہیں تھا۔میں سمجھ گئی کہ شیر کے ساتھ کچھ مسئلہ ہے میں ڈر کے باوجود پاس گئی اور شیر سے پوچھا کہ کیا حال ہے بہت پریشان پریشان پھرتے ہو طبعیت، تو ٹھیک ہے ناں شیرنے اپنا پاؤں آگے کیا جس میں کانٹا چُبھا ہوا تھااور سوزش نے بُرا حال کیا ہواتھاتب میں نے انسانیت کے ہاتھوں مجبور ہوکر وہ کانٹا نکال دیااب یہ شیر کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اور احسان کا بدلہ چکانے کی اپنی ممکن کوشش کر تا ہے اب ہر روز یہ میرے پاس آکر میرے پاؤں چاٹتا ہے اور چلا جاتا ہے کیوں کہ یہ انسان نہیں ہے جانور ہے احسان کبھی بھی نہیں بھولتاباز نے ساری بات سُنی تو اُس کی دل میں بھی کسی کی مدد کرنے کی تمنا جاگی اور تلاش شروع کر دی باز ذہنی طور پر تیار ہوگیا کہ مجھے بھی کسی کی مدد لازمی کرنی چاہیے اور ضرورت مند کی تلاش شروع کردی وہ کیا دیکھتا ہے کہ ایک چوہالہروں میں ڈبکیاں کھا رہا ہے باز نے اُسے بچانے کی کوشش کی اور اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیاتیز لہروں سے چوہے کو نکالنا کوئی آسان کام نہیں تھا جان کو جوکھوں میں ڈالنے والی بات تھی مگر احسان کرنا ذہن پر سوار تھا۔احسان کر لیا اور چوہے کی جان بچادی چوہے کو ساحل پر لا چھوڑاخود تھکا ہوا تھا اس لئے سوگیا چوہا بیدار ہواتو اپنے ساتھ ایک باز کو دیکھا وہ گہری نیند میں تھا چوہے نے باز کے سارے پر کُتر کر رکھدئیے اور چلاگیاتھوڑی دیر کے بعد جب باز کی آنکھ کھلی تو پریشان ہوگیا کیوں کہ وہ اُڑنے کے قابل نہیں تھا چوہے نے احسان کا بدلہ چُکادیا تھاکئی مہینے کیڑے مکوڑے کھا کر وہ جب اُڑنے کے قابل ہوا تو بلی کے پاس گیا اور کہا بلی تمھارا خانہ خراب ہوتم نے مجھے احسان پر اُکسایااور احسان کے بعد میری یہ حالت ہوگئی تھی بلی نے کھسیانی ہنسی چھوڑی اور بولی احسان اچھی چیز ہے مگر احسان بھی نسل کو دیکھ کر کرنا چاہئے تو قارئین مجھے اس کہانی میں کچھ ممالک اور ہمارے سیاستدانوں کی جھلک نظر آرہی ہے اور اپنے ملک کو بھی میں اس کہانی کے اندر پاتا ہوں کہ ہم نے کتنے ممالک کے ساتھ اور ہمارے اپنے علاقوں کے سیاستدانوں کے ساتھ احسانات کئے امریکہ جیسے ملک کے ساتھ ہم نے آج تک کتنے احسانات کئے مگر بدلے میں اُس نے اب تک صرف ہمارے پر ہی کُترنے کی کوشش کی ہے ہمارے احسانوں کا بدلہ ہم کو اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر ملا ہے روس کی کایا پلٹنے میں ہم نے امریکہ کی کتنی مدد کی امریکہ کو سُپر طاقت کے نشے سے چور کس نے کیا وہ صرف ہماری وجہ سے سُپر طاقت بنا،اگر ہم مدد نہیں کرتے تو اُس کا یہ خواب کبھی بھی پورا نہیں ہوتااُس نے جو بھی کہا ہم نے بلاں چوں چراں مان لیاہم نے جہاں بات نہیں مانی وہاں پر ہم کو نقصان بھی اُٹھانا پڑا بُھٹو اور ضیاء جیسی شخصیتوں سے ہم کو ہاتھ دھونا پڑا حالانکہ انہوں نے بھی ہم پر کم احسانات نہیں کئے ہیں مشرف کے احسانات کی بدولت آج ہم اپنے بے گُناہ مسلمانوں کو اپنے ہی ملک میں موت کے گھاٹ اتاررہے ہیں گزشتہ سات سالوں میں دہشت گردی کے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوچلاہے کوئی بھی شہر کوئی بھی شخص محفوظ نہیں کیوں کہ ہر عمل کا ایک ردِعمل ہوتا ہے وزیرستان میں ہزاروں بے گناہ افراد کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے اور اب بھی سرحدی علاقوں میں لڑائی جاری ہے القاعدہ کی اڑ لے کر حملے بازی ہورہی ہے جس میں صرف معصوم جانیں ہی ضائع ہورہی ہیں حکومت کے کرتا دھرتا بڑے فخر سے اعلان کرتے ہیں کہ سارے دہشت گرد تھے جن کا خاتمہ امریکہ کی وجہ سے ہورہا ہے حالانکہ واقعات ہر جگہ پر دوسری تصویر دکھا تی ہے باجوڑ کے مدرسے سے شروع ہونے والے حملے آج بھی تواتر سے جاری ہیں ہم نے نیٹو کی سپلائی لائن بند کردی ہے مگر پھر بھی نیٹو کو سپلائی ہورہی ہے ہر جگہ ہونے والے حملوں اور دھماکوں کے قریب پڑی لاشیں ہمارے جمہوریت کے منہ پر طمانچہ مار تی ہیں اور ہمارے حکومتی دعویدار یہ راگ الاپنے میں لگے ہوئے ہیں کہ جنگ جاری رہے گی اور ہم مستقبل میں دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں اپنے مائی باپ امریکہ کو خوش کرتے رہیں گے میں پریشان ہوں کہ ہماری حکومت آخر کس سمت ہم کو لے جارہی ہے کیا ہم برائے نام اسلامی ملک ہیں اور ہم صرف نام کے مسلمان رہ گئے ہیں کہ ہم اپنے دینی مدارس پر حملے کر کے یہ جتانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ واقعی میں یہ دہشت گردی کے کیمپ ہیں اور یہاں سے ہی تربیت حاصل کرکے یہ طالب علم گیارہ ستمبر جیسے واقعات کا سبب بنتے ہیں ہم نے خود ہی دینی مدارس کا تشخص خراب کر دیا ہے ہم نے خود ہی ہر داڑھی اور پگڑی والے مسلمان کو دہشت گرد بنا دیا ہے ہر وہ بندہ جو خدا اور رسول کا نام لیوا ہے وہ دہشت گرد ہے اور ہر بنیاد پرست ہے میں یہاں پر اور کچھ لکھنے کی جسارت نہیں کروں گاصرف ایک درخواست اپنے صدر صاحب سے کروں گاکہ صدر صاحب احسان کرنا اچھی چیز ہے مگر ذات دیکھ کر احسان کرنا چاہیے کیوں کہ ہم احسان کرکرکے اپنے پرَ امریکہ کے ہاتھوں کُتر چکے ہیں اب صرف سانس لینا ہی رہ گیا ہے-
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 20375 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.