ہم کیا ہیں

ہمارے ملک میں جب کسی تہواریا خاص دن کی آمد ہوتی ہے تو ہمارے ٹی وی چینلز اور ریڈیو چینلز پر گہما گہمی شروع ہو جاتی ہے بڑے بڑے شہروں میں ہمارے فنکاروں کی بکنگ اور چاندی ہوجاتی ہے کنسرٹس کا اسٹیڈیم یا پھر ھالوں میں انعقاد شروع ہوجاتا ہے اور ان پروگراموں میں ہماری قوم کی شرکت دیدنی ہوتی ہے ہزار سے ٹکٹ کی قیمت اسٹارٹ ہوتی ہے اور پانچ دس ہزار تک جا پہنچتی ہے ہماری قوم مہنگے داموں ٹکٹ خرید کر اپنی شرکت کو فخر گردانتے ہیں اور یوں پھر ہماری ساری قوم میراثیوں کے ساتھ ناچتی ہے اور ہمارے ٹی وی چینلز کے کیمرے اُن کے تعاقب میں ہوتے ہیں کیسے کیسے پوز ہوتے ہیں جن کو ہمارے زرد صحافت کے علمبردارہائی لائٹ کرتے ہیں اور ان پروگراموں میں ہمارے اعلیٰ حکام بھی شامل ہوتے ہیں بلکہ اُن کو خاص طور پر مدعو کیا جاتا ہے تاکہ اُن کی وجہ سے دیگر لوگوں کی شرکت بڑھ جائے ہمارے بعض وزراء غیر ملکی عورتوں کے ساتھ ہاتھ میں گلاس لئے ٹھمکے مارتے ہیں اور غیر ملکیوں کو یہ باور کراتے ہیں کہ ہم ایک لبرل قوم کے باسی ہیں اس طرح کی حرکت کر کے وہ لبرل اور ماڈریٹ قوم ہونے کا ثبوت پیش کرتے ہیں ہمارے ہاں انگریزوں کے تہوار رچ بس گئے ہیں ایک ہفتہ پہلے ہی ہمارے ملک میں ویلنٹائن دے بڑے جوش و جذبے سے منائی گئی ہمارے اخبارات نے مہینہ پہلے ہی سرخیاں تیار کر لیں تھیں اور اسی طرح ان کے پاس ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے فیچر تیار پڑے تھے کہ وہ اسی دن کے تناسب سے خبریں شائع کر کے اپنے اخبارات کی بکری بنائیں گے الیکٹرانک میڈیا میں بھی ویلنٹائن دے کا زور رہا پشارو میں تمام کالجوں اور یونیورسٹیوں میں ویلنٹائن ڈے کے لئے اختتام کئے گئے تھے ہر یونیورسٹی میں سرخ رنگ ہی چھایا رہا ہمیں معلوم تھا مگر اتنی معلومات نہیں تھی کہ یہ سرخ رنگ ہماری یونیورسٹی میں کیونکر ہے وہ تو بھلا کرے ایک ساتھی کا جس نے غلطی سے گلابی رنگ کا شرٹ پہنا تھا جب ملا تو کہا کہ ہم نے غلطی سے یہ رنگ پہنا ہے ہمیں ویلنٹائن ڈے سے کوئی غرض نہیں مگر جب سوشل نیٹ ورک سائیٹ چیک کیا تو سرخ رنگ ہی نمایا ں تھے اور یوں ہمارے صوبے میں بھی جس کی اپنی ایک تہذیب و ثقافت ہوا کرتی تھی غیر ملکیوں کے رنگ میں رنگ گئے اور یوں ہم نے بھی اس دن کو منا کر اپنی زندہ دلی کا ثبوت پیش کر دیانجانے کیا سمجھ کر ہم دوسروں کے کلچر اور اپنے قومی تہواروں کو منانے کے لئے گانوں اور ڈانسوں کا سہارا لیتے ہیں ہم کم از کم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں گانے گاگا کر ہم قومی دن یا دیگر تہواروں کو مناتے ہیں اب یہ ہمارے کلچر کا ایک حصہ سا بن گیا ہے اب یہ باتیں ہمارے کلچر میں رچ بس سی گئی ہیں ہمارے بڑے عہدوں پر فائز شہریوں کو اتنی عزت مُیسر نہیں کہ وہ وزیراعظم یا صدر سے مُلاقات کر سکیں جبکہ گلوکاروں کے لئے دروازے کُھلے ہیں کبھی کبھی میں اس سوچ میں گم ہوتا ہوں کہ آخر ہماری وہ قوم کہاں غائب ہوگئی ہے جو 1947سے پہلے تھی ہم کس جانب محو پرواز ہیں کیا یہ وہی مُلک ہے جو چودہ آگست کو معرض وجود میں آیا تھاجب قُربانیاں رنگ لے آئی تھیں اُس وقت مُلک کا قیام نہیں تھاقوم موجود تھی آج مُلک موجود ہے مگر وہ قوم موجود نہیں ہے قوم کہیں دُھندلکوں میں کھو گئی ہے بلکہ یہ کہنا بے جا نہیں ہوگا کہ ہم نے خود اپنی تشخص کُھو دی ہے ہمارے اپنے اعمال ہیں کہ ہم دوسروں کی پیروی میں لگے ہوئے ہیں اور یہ بھول گئے ہیں کہ ہماری اپنی بھی ایک تہذیب تھی جو سب تہذیبوں پر بھاری تھی ہماری اپنی ایک ثقافت ہوا کر تی تھی ،ہمارے اپنے بھی کچھ اقدار ہواکرتے تھے جو اب ہوا ہو گئے ہیں مگر اب ہم دوسروں کے نقش قدم پر چل کر سب اقدار بھلاچکے ہیں ہمیں کچھ نظر نہیں آرہا ہے ایک اندھے کنویں میں سب گر گئے ہیں جس سے نکلنا اب ناممکن سا لگتا ہے ہمیں سنبھالنے والا بھی کوئی نہیں ہے ۔مسلمانوں پر ظلم وجبر کا ایک بازار گرم ہے اور ہم اسٹیج پر گانے والوں کے ساتھ خوشیاں منا رہے ہیں ہماری زبانوں سے کلمے ادا نہیں ہوتے ہمارے بچوں کو سارے گانے ازبر ہوتے ہیں ہماری قوم ایک بے ترتیبی کا شکار ہے ہم سارے گانے والے بن گئے ہیں اگر آپ لوگوں کو یقین نہیں آرہا ہے توپھر کسی بھی تہوار کو آنے دیں اورپھر اپنے ٹی وی چینلز آن کر کے دیکھیں سب کو یقین‘آجائے گا کہ ہم سب اپنے آباواجداد کے افکاروں کو بھلا چکے ہیں وہ مقصد مقصد نہیں رہا جس کے لئے مُلک بنایا گیا تھاسب کچھ ہمارے ذہنوں سے اور دلوں سے دور ہو چکاہے جس کے لئے قُربانیاں دی گئی تھیںآج ہم سارے نجانے کیابن گئے ہیں اسٹیج پر گلوکار تھرکتے ہیں اور نیچے نہ چاہتے ہوئے ہمارے جسم اُن کے ساتھ لرزتے ہیں اور ٹی وی سکرین کے آگے ہماری ساری قوم تھرکتی ہے۔تو آپ بتائیں ہم سارے کیا ہیں۔۔۔۔۔ْ۔ْ
A Waseem Khattak
About the Author: A Waseem Khattak Read More Articles by A Waseem Khattak: 19 Articles with 20361 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.