کسی نے خوب کہا ہے کہ انسان ایک
سماجی جانور ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ۔آج کے دور میں اگر ہم بہ نظر غور
جائزہ ارد گرد ماحول کا لیں۔تو ہم کو اس کی واضح مثالیں نظر آجائیں گی کہ
واقعی میں انسان ایک سماجی جانور ہے۔جو لبادہ اوڑھ کرایسے ایسے گھناؤنے کام
سر انجام دیتا ہے کہ عقل ماتم کرنے لگتی ہے۔کسی کی سوچ میں بھی نہیں
ہوتا۔اور انسان سے وہ کام کر دیتا ہے روزانہ کتنے واقعات ہوتے نظر آرہے
ہیں۔ہمارے ارد گرد کیا نہیں ہورہا ہے۔اور ہم سب ایمان کے آخری درجے میں ہو
کر اس پر چُپ رہنا ہی گوارہ کر رہے ہیں کہ کہاں جاتا ہے دوسروں کے کاموں
میں ٹانگ آڑانے سے کیا فائدہ ہے۔اپنے آپ کو تکلیف دینے والی بات ہے۔ جب کہ
انسان سے کہا گیا ہے۔کہ وہ ظلم پر خاموشی اختیار نہ کرے بلکہ اس تدارک کے
لئے آواز اُٹھائے۔لیکن کون کسی کی سنتا ہے۔سب کے چہروں پر نقابیں، آنکھوں
پر پٹیاں اور دلوں پر مہریں لگی ہوئی ہیں۔کوئی کچھ نہیں بولتا ۔اور یوں ظا
لم کی مدد ہو رہی ہے۔اور ہر کوئی اپنی دنیا میں مگن چپ چاپ زندگی کے مزے
اُٹھا رہا ہے۔زندگی پر پھیلائے کشتی بے مہار اپنی منزل کی جانب رواں ہے ۔اور
سب خوشی میں ہمراہ ہی بنے ہوئے ہیں۔کسی کو کوئی پرواہ نہیں۔وہ خوش ہے ۔تو
سب کچھ ٹھیک ہے۔اُسے تکلیف ہے تو سب تکلیف میں ہیں کبھی کبھارزندگی امتحان
بھی بہت جلد لے لیتی ہے۔لیکن کسی پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔نہتے بے گناہ
مسلمانوں پر مظالم کے پہاڑ ٹوٹے جا رہے ہیں۔کسی کو پرواہ نہیں۔لوگ بھوک سے
مر رہے ہیں۔کسی کی کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔امریکی طیارے بمباری کر کے
چلے جاتے ہیں۔کوئی فرق نہیں پڑتا۔ افغانستان پر پاکستانیوں پر حملے ہورہے
ہیں۔سب خاموش ہیں۔بے گناہ افغانیوں کی اموات ہورہی ہیں۔اُن کی عورتوں کی
عزت کی دھجیاں بکھیری جارہی ہیں۔تماشائی سب بنے بیٹھے ہیں۔امریکی طیارے
مسلمانوں پر حملہ کر کے مسلمان بھا ئیوں کو شہید کر دیتے ہیں اور ہمارے
حکمران اس خوشی میں تالیاں بجاکر اُن کو داد دیتے ہیں بلکہ شاباشی کی انتہا
میں یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ ایک مسلمان کی موت ہوئی ہے جس نے کلمہ پڑھا
ہوا ہے اور غیر مذاہب کے سامنے اپنے مسلمان بھائی کی بے تو قیری کراکے ہم
بغلیں بجاتے نہیں تھکتے ہمارا کاروبار زندگی چلتا رہتا ہے ایسے شہدا ء کی
موت پر کسی نے بھی رات یا دن کی روٹی نہیں چھوڑی کسی کی بھی آنکھ تھوڑی دیر
کے لئے نم نہیں ہوتی ہی ڈرون حملے ہورہے ہیں کتنے ہی حادثے رونما ہورہے ہیں
غیرت کے نام پر عورتوں کو بے گناہ قتل کیا جا رہا ہے کبھی کاری کے نام پر
کبھی سورہ کے نام پرمجرم مرد دندنا پھر رہے ہیں ہمیں کچھ نہیں ہوتاہماری
عزتیں خود محافظوں کے ہاتھوں پا مال ہورہی ہے ہم کو کچھ بھی نہیں ہوتانجانے
کیا کیا ہماری زندگیوں میں ہورہا ہے۔کیا کیا اندوہناک واقعات وقوع پذیر
ہورہے ہیں مگر ہم سب کے دل پتھر کے ہو گئے ہیں ہمیں کچھ نہیں ہورہا ہے آج
یہ سوچ میرا احاطہ کئے ہوئے ہے کہ آخر ہمیں کچھ کیوں نہیں ہوتا ہم کیوں
اپنے خول سے باہر نہیں نکلتے ہم کو اپنے مسلمان بھائی کا درد کیوں محسوس
نہیں ہورہا ہے قارئین!اگر آپ کو میرے اس سوال کا جواب معلوم ہو تو براہ کرم
یہ صفحات حاضر ہیں۔مجھ کو اگاہ کرکے اس سوچ کو بند کر دیں کہ ہمیں کیوں کچھ
نہیں ہوتا۔ |