اٹھو وگرنہ حشر نہ ہوگا پھر کبھی

مارچ میں ہندوﺅں کا رسمی تہوار ”ہولی“ بھارت سمیت پاکستان اور دنیا بھر میں ہندوﺅں نے جوش و جذبے سے منایا اور ایک دوسرے پر مختلف رنگوں کی برسات کی۔ہندوبرادری اور دیگر اقلیتیں پاکستان میں اپنے مذہبی تہوار آزادانہ طور پر مناتے ہیں اورآئین پاکستان کی پاسداری کرتے ہیں ۔پاکستان کے دورجدید کی نوجوان نسل جس نے فیس بُک ،گوگل ،Yahooاوردیگر سوشل میڈیا کے ذرائع سے تعلیم حاصل کی ہے وہ بھی بڑے جوش وخروش سے غیر اسلامی تہوار منانے کی کوشش کرتے ہیں ویلنٹائن ڈے ہو،بسنت ہویا ہولی ہفتوں پہلے تیاریاں شروع ہوجاتی ہے۔ Facebook،SMSاورE-mailپر پروگرام ترتیب دئیے جاتے ہیں۔
سوئی ہوئی قوم کا عجب اک تماشا دیکھا
مسلتے پھول دیکھے جوڑوں کو مسکراتے دیکھا
ایڑیاں رگڑ کر دم توڑ گیا انساں دو گھونٹ کیلئے
عیاش پرستوں کو شراب میں نہلاتے دیکھا
بھولے ہوئے ہیں جو اپنے تابناک ماضی کوماجد
غیروں کی رسمیں اور ویلنٹائن ڈے مناتے دیکھا

چند عرصہ پہلے تک پاکستان میں بزرگوں کی بیشتر تعداد اپنی فیملی کی آسائش و سہولتوں کو پورا کرنے کیلئے پورا دن محنت مزدوری کی فکر میں لگے رہتے ۔سوشل نیٹ ورک ویب سائیٹ استعمال کرنے کی بجائے فیملی نیٹ ورک پر توجہ دیتے تھے لیکن موجودہ نام نہاد ترقی یافتہ دور میں سورج کے ڈھلنے کے بعد دوکانداری و دیگر کاروبار کا آغاز ہوتاہے ۔اس ترقی کے دور میں انسان اپنی فیملی سے اتنا دور ہوگیا ہے جتنا وہ پیسے کے نزدیک بھی نہ ہواہوگا۔فیملی سے دوری کی بدولت بچوں کو پاکستان کی تاریخ اور نظریہ پاکستان کے اغراض ومقاصد کے ساتھ ساتھ اسلامی اصولوں کا بھی علم نہیں ہوتا۔پرائیویٹ و سرکاری سکولز و کالجز میں انتظامیہ تاریخ کی جگہ انگلش ،فزکس ،بیالوجی ،کیمسٹری اور کمپیوٹر کی تعلیم کو ترجیح دیتے نظر آتے ہیں ۔کالج لائبریری میں تاریخ کی کتابوں کو کیڑے کھاجاتے ہیں یا فروخت کردیاجاتا ہے کیونکہ طالب علموں کے پاس اتنا وقت ہی کب ہوتا ہے جو فیس بُک کے ساتھ ساتھ اسلامی وپاکستانی تاریخ کا مطالعہ کر سکے؟نتیجہ نوجوان نسل کا غیر اسلامی تہوار کا انعقاد اور دو قومی نظریہ سے انحراف ہے۔

آج سے 99ءسال پہلے پاکستان کے بانی قائداعظم محمد علی جناح نے مسلم لیگ کی ممبر شپ حاصل کی ۔قائد نے سیاست کا آغاز کانگرس کے پلیٹ فارم سے کیا ۔1920ءتک قائد ہندومسلم اتحاد کے سفیر رہے اور دونوں مذاہب کے لوگوں میں جذبہ حب الوطنی واتحاد کی روح پیدا کرتے رہے۔لیکن جلدہی آپ کو دوقومی نظریہ کی اہمیت کا اندازہ ہوگیا اور ہندوﺅں کی ہٹ دھرمی کو دیکھتے ہوئے دسمبر 1920ءکو کانگرس کو خیر آباد کہتے ہوئے مسلم آزادی کےلئے دن رات ایک کردیا ۔

دیگر مسلم لیڈروں کی طرح قائد اعظم محمد علی جناح نے دوقومی نظریہ کی تائید کی اور اخبار TIME AND TIDEمیں دوقومی نظریہ کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا۔”ہندومت اور اسلام دوممتاز اور مختلف تہذیبیں پیش کرتے ہیں اور مزید برآں دونوں یورپ کی اقوام کی طرح اصلاََنسلاََرسم ورواج او ر طرز زندگی میں ایک دوسرے سے بالکل مختلف ہیں ۔یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں ایک قوم اکثر یت میں ہے اور دوسری اقلیت میں ۔

سر سید احمد خاں،قائداعظم محمد علی جناح ،علامہ اقبال ،چوہدری رحمت علی ،و دیگر مسلمان لیڈر مختلف اجلاس ،سیمینار ،ورکشا پ اور کارنر میٹنگز میں دو قومی نظریہ کے حوالے سے مختلف دلائل ووضاحتیں پیش کرتے رہے ۔تاکہ ہندوﺅں کی لابی ہندومسلم بھائی چارے کے چکر میں مسلمانوں کو نہ گھیر لے اورتا قیامت برصغیر کے مسلمانوں کو اپنا غلام بنالے۔

قارئین آج سے 72سال پہلے 22مارچ کو مسلم لیگ کا27واں سالانہ تاریخ ساز اجلاس قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت میں شروع ہوا۔قائد نے اپنی تقریر کے دوران نوجوان نسل ودیگر مسلمانوں کو دو قومی نظریہ کی وضاحت ان الفاظ میں کی۔”ہندواور مسلمان دو مختلف اور جداگانہ مذہنی فلسفوں ،سماجی روایات اور ادب سے تعلق رکھتے ہیں ۔وہ نہ تو آپس میں شادی بیاہ کرتے ہیں ،نہ ایک ساتھ بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ان کی رزمیہ داستانیں۔ہیرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔تاریخ الگ الگ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔بالاآخر وہ ڈھانچہ ہی تباہ ہو جائے گا جیسے ایک مملکت (ہندواور مسلم)کی حکومت کےلئے معرض وجود میں لایا جائے گا۔

23مارچ کے اجلاس میں بنگال کے وزیراعلیٰ مولوی اے کے فضل الحق نے مسلمانوں کے مطالبات (وفاقی اسکیم،آزادمملکتیں اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ)پر مبنی ایک تاریخی قرارداد پیش کی جسے 24مارچ1940ءکو اتفاق سے منظور کرلیا گیا جسے اب قرارداد پاکستان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

بڑی بد قسمتی کی بات ہے کہ 72سال پہلے تاریخی قرارداد تو دور کی بات ہے اس کی اہمیت کا اندازہ بھی موجودہ نسل میں سے بیشتر کو نہیں پتہ ؟موبائیل فون ،انٹر نیٹ ،فیس بُک اور بلیک بیری وغیرہ کے تمام پوائنٹ واہمیت کا اندازہ تقریباََ80%پاکستانیوں کو ہوگالیکن 20%کو دوقومی نظریہ وقرارداد پاکستان کا پتہ نہیں ؟یہ نوجوان نسل کے لئے المیہ اور ان کے بزرگوں کے لئے لمحہ فکریہ ہے۔

موجودہ نفسا نفسی کے دور میں پاکستان و اسلامی تاریخ کی آگاہی کےلئے ڈسکہ میں امن ویلیفئیرفاﺅنڈیشن پاکستان کا ڈسکہ یونٹ دن رات کام کرنے میں مصروف نظر آتا ہے ۔ڈسکہ کی عوام کو تاریخ کے مطالعہ کیلئے لائبریری کا قیام کافی عرصہ سے موجود آگیا ہے۔جہاں پر تمام شہریوں کو فریBook Readingکی سہولت میسر ہے اور ساتھ ساتھ مستحق بچوں کو سالانہ بنیاد پر فری بُک کا انتظام بھی موجود ہے۔اس سال 23مارچ کی اہمیت کو اُجاگر کرنے کیلئے ”واک“کا انتظام کیا گیا ہے تاکہ ڈسکہ کی عوام کے دلوں میں دوقومی نظریہ کے جذبہ وحب الوطنی کو روشن کیا جاسکے اور موجودہ نسل کو غیر اسلامی و شرعی تہوار کا انعقار کرنے سے محفوظ رکھا جاسکے۔

راقم حکومت پنجاب و پاکستان سے مطالبہ کرتا ہے کہ چھوٹے شہروں میں کام کرنے والے تمام NGO,sکی رہنمائی و حوصلہ افزائی کی جائے تاکہ وہ عوامی مسائل کے حل میں حکومت کا ساتھ دے سکیں۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 520661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.