حق تعلیم اور جبری تعلیم

یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہندستانی مسلمان بحیثیت مجموعی تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ہیں اور اسی وجہ سے وہ قومی زندگی میں دیگر اقوام کے مقابلے میں پچھڑے ہوئے ہیں۔ ان کی ہمہ جہت سیاسی، سماجی ، ثقافتی،دینی اور اقتصادی ترقی اچھی تعلیم و عمدہ تربیت کے بغیر ممکن نہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تعلیم کیسی ہو اور اس کا فروغ کس طرح ہو کہ ہماری آئندہ نسلیں اپنے دین پر قائم رہتے ہوئے دنیا کی نظروں میں نظریں ڈال کر بات کرسکیں؟ ہماری قدریں پوری طرح محفوظ رہیں۔دینی قلعوں میں کوئی شگاف بھی نہ آئے اور وہ عصری تعلیم کے تقاضے بھی پورے کرپائیں۔ اس وقت ہمارے یہاں دو طرح کے تعلیمی نظام کام کررہے ہیں۔ نتیجہ یہ کہ دو ہی طرح کے افراد بھی پیدا ہورہے ہیں۔ ایک وہ جو صرف علوم شرعیہ سے آگاہ ہیں مگر عصری علوم سے بیگانہ ہیں۔ دوسرے وہ جوشرعی زندگی کی اہمیت کو نہیں سمجھتے مگر عصری علوم پر خوب دسترس رکھتے ہیں۔ مسلمانوں کی یہ دو طرح کی نسلیں کس طرح ایک ایسی نسل میں مدغم ہوجائیں جس کو ہم مومن مطلوب کہہ سکیں۔ یہ ایک بڑا سوال ہے جس کا جواب ہمیں خود تلاش کرنا ہے۔
دین ہاتھ سے دے کر اگر آزاد ہو ملت
ہے ایسی تجارت میں مسلماں کا خسارہ

دینی تعلیم کے ساتھ عصری تعلیم کے فروغ اہمیت کے باوجود وسائل کی کمی آڑے آجاتی ہے۔ چنانچہ جب بعض ریاستوں میں مدرسہ بورڈ قائم ہوئے تو بہت سے مدارس یہ سمجھ کر ان سے وابستہ ہوگئے کہ اس تدبیر سے دینی تعلیم کے ساتھ ہمارے بچے عصری علوم سے بھی آشنا ہونگے اور ان اداروں کو چلانے کےلئے جو پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ان سے بھی گلو خلاصی مل جائے گی۔ساتھ ہی فراغت کی سند معاش کا مسئلہ حل کرنے میں کام آئیگی۔ مگر یہ تجربہ اس اعتبار سے بڑا ہی مایوس کن رہا کہ بورڈ کے تحت آجانے والے مدارس میں تعلیم کےلئے نا تو ویسا ماحول رہا اور نہ اساتذہ میں وہ تندہی رہی جوہمارے دینی مدارس کا امتیاز ہے۔ اکثر دینی مدارس لشتم پشتم چل رہے ہیں۔اساتذہ کرام اگر صبر اور شکر کانمونہ نہ ہوں تو اتنے کم مشاہروں میں اس دور میں گزارہ کیسے ہو؟ چنانچہ ہمارے مدارس اپنے مادی وسائل میں اتنی وسعت نہیں پاتے کہ عصری علوم کی تعلیم کےلئے کچھ افراد، کچھ وسائل فارغ کرسکیں۔یہ بات دیگر ہے کہ چند اداروں کو چھوڑ کر اکثرمدارس اس کو ضروری بھی نہیں سمجھتے اور جو تعلیمی ادارے اس نہج پر چل رہے ہیں، ان کو اچھی نظر سے نہیں دیکھتے۔یہ فیصلہ تومدارس کے ارباب حل و عقد کو ہی کرنا ہوگا کہ رہبانیت کے اصول پر قائم عیسائیت کے اس اصول کو اپنا رہنما بناتے ہیں کہ دین اور دنیا دو الگ الگ شعبے ہیں یا دین محمدی کے اس اصول کو اختیارکرتے ہیں کہ ہماری دنیا ہمارے دین سے جدا نہیں؟ ایک مرتبہ جب یہ فیصلہ ہوجائے گا تو اللہ پر توکل تو ہمارے اہل مدارس کا اتنا توانا ہے کہ انشاءاللہ وسائل کا مسئلہ خود بخود حل ہوتا چلا جائے گا۔ ہم دیکھ رہے ہیں جو ادارے عصری علوم پر بھی متوجہ ہیں اللہ تعالیٰ ان کے وسائل میں کشادگی پیدا کردیتا ہے۔

سرکاری طور پر اب یہ تصدیق ہوچکی ہے کہ بمشکل 4فیصد بچے ہی دینی مدارس میں جاتے ہیں۔ مسئلہ باقی 96فیصد کا بھی ہے جن میں اکثر اسکول کا منھ ہی نہیں دیکھ پاتے۔ چنانچہ جب حکومت ہند نے 2009میں ایک قانون کے ذریعہ ہربچہ کے تعلیم کے حق کو تسلیم کیا اور یہ عندیہ ظاہر کیا کہ 6 سے 14سال کی عمر کے ہر بچے کو تعلیم کا آئینی حق حاصل ہوگا اور ریاست کی یہ ذمہ داری ہوگی کہ ہر بچے کو مفت تعلیم دے تو عام طور سے اس کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا ۔اس حق کو جس قانون کے تحت سرکاری منظوری حاصل ہوئی اس کو ’حق تعلیم ایکٹ‘ کا نام دیا گیا ۔ یہ نام اس قدر پرکشش ہے کہ کسی کو یہ خیا ل بھی نہیں آیا اس میں کچھ فریب بھی شامل ہو سکتا ہے۔یہ قانون جس طرح آناً فاناً منظور ہوا اس سے ماتھا ضرور ٹھنکا۔خصوصاً اس وقت جب ہندستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ وزیر اعظم نے خودکسی قانون کے نفاذ کا اعلان کیا۔ مذکورہ ایکٹ کے مسودہ کو2جولائی 2009کو کابینہ کی منظوری ملی۔ 20جولائی کو اس کو راجیہ سبھا سے اور 4اگست کو لوک سبھا سے منظورکرالیا گیا اور 3ستمبر کواس کوصدارتی منظوری کا نوٹی فکیشن بھی جاری ہوگیا۔ گویا کل دو ماہ کی مختصر مدت میں یہ تمام مراحل طے ہوگئے۔ یکم اپریل 2010کو جب اس کے نفاذ کا اعلان ہوا تب یہ عقدہ کھلا کہ جس ایکٹ کا نام ”حق تعلیم“ ہے وہ دراصل ”جبری تعلیم ایکٹ“ ہے ۔اس ایکٹ کے تحت یہ لازم کردیا گیا ہے ہر بچہ کو سرکاری یا سرکار سے منظور شدہ اسکول میں ہی داخل کرانا ہوگا۔ جو والدین بچے کو سرکار سے منظور شدہ نصاب کے علاوہ کچھ اور پڑھانا چاہتے ہیں ان کو اس کی اجازت نہیں ہوگی۔ ان کا یہ فعل قانون کی نظر میں فوجداری جرم قرار پائے گا اور پولیس ان کو گرفتارکرکے جیل بھیج دے گی۔گویاکمسن بچوں کی تعلیم و تربیت کا حق ورثا سے چھین کر ریاست کودیدیا گیا۔ علاوہ ازیں عصری تعلیم کے وہ پراﺅیٹ ادارے جو بلند و بالا عمارتوں ، وسیع و عریض کھیل کود کے میدانوں اورہائی فائی سہولتوں سے آراستہ نہیں ہونگے، بند کردئے جائیں گے اور ان کے منتظمین بھی سزا یاب ہونگے۔اس ایکٹ کی سب سے بڑی خامی یہ ہے پرائیویٹ اسکولوں میں اقتصادی طور سے کمزور بچوں کوتو 25فیصد ریزرویشن دیا گیا ، مگر تعلیمی طور سے پسماندہ طبقوں کو نظرانداز کردیا گیا ہے۔اس ایکٹ کے تحت ایسا کوئی تعلیمی ادارہ نہیں چل سکے گا جو سرکار سے منظور شدہ نہ ہو اور جس میں سرکار سے تسلیم شدہ نصاب کے علاوہ کچھ اور پڑھا جاتا ہو۔ اس طرح یہ قانون فرد کے اس آزادی کو ختم کرتا ہے جو اس کو اپنی پسند کے مطابق تعلیم حاصل کرنے اور تعلیمی ادارے قائم کرنے کےلئے حاصل ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جو حکومت فرد کے بنیادی حق کی آڑ میں یہ تو کہتی ہے کہ ہم جنسی یا فریقین کی مرضی سے زنا کو جرم قرار نہیں دیا جاسکتا، بغیر شادی کے ساتھ رہنے والے عورت مرد کو چھیڑا نہیں جاسکتا، وہ فرد کے اس بنیادی حق کی انکاری ہے کہ وہ اپنے بچوں کواپنی پسند کی تعلیم و تربیت اپنے پسند کے ادارے میں دلائے۔ راقم الحروف سیاسیات کا ایک ادنیٰ سا طالب علم ہے مگر وہ اس سوال کا جواب تلاش کرنے سے قاصر ہے کہ کیا ہمارے روشن خیال اور لائق وزیر تعلیم ملک کو 16ویں صدی سے قبل کے اس تاریک دور میں لوٹالیجانا چاہتے ہیں جس میں شخصی اور فکری آزادی کا کوئی تصور نہیں تھااور ہر شخص ریاست کے جبر کا غلام تھا؟ یوروپ میں 16ویں صدی میں حریت فکر کاجو غلغلہ اٹھا تھااسی نے سامنتی نظام کو مسمار کرکے جدید معاشی ، معاشرتی اور سیاسی نظام قائم کیا۔ اس انقلاب کو ’ریناسا‘ (Renascence) یعنی بیداری کے عنوان دیا گیا ۔موجودہ جمہوری نظام اسی کا ثمرہ ہے۔ اقوام یوروپ کی ساری علمی اور مادی ترقی کی بنیاد حریت فکر کے انہی نظریات پر قائم ہے جن کواس دور کے ممتاز سیاسی مفکرین جین لاک، جیکوئس روسواور تھامس جیفرسن وغیرہ نے پیش کیا تھا۔ ہم حیران ہیں کہ کیا 21صدی میں ہندستان کی جمہوری حکومت مختلف عنوانات کے تحت ہمیں سامنتی نظام کے اس تاریک ترین دور میں لوٹا لیجانا چاہتی ہے جو یہ طے کرتی تھی کہ ریاست کے باشندوں کو کیا پڑھنا ہے، کس طرح رہنا ہے اور کب شادی کرنی ہے؟ ایک دور ہندستان میں بھی ایساتھاکہ اگر دلت طبقہ کاکوئی فرد وید کا کوئی اشلوک سن لیتا تھا تو اس کے کانوں میں سیسہ پگھلاکر ہمیشہ کےلئے بند کردیا جاتا تھا۔ کپل سبل صاحب چاہتے ہیں کہ ملک میں ایسا تعلیمی نظام قائم ہو ، جس میں بس وہی پڑھایا جائے جو ریاست چاہے اور اگر کوئی شخص اس کے ماسوا اپنے بچے کو کچھ اور پڑھانا چاہتا ہے ، کوئی ایسا ادارہ قائم کرتا ہے جس میں سرکار کے متعین کردہ نصاب کے بجائے دیگر علوم و فنون پڑھائے جاتے ہیں تو اس کی جگہ جرائم پیشہ افراد کے ساتھ جیل میں ہوگی۔مجھے اندیشہ ہے کہ حکومت ہند کا جبری تعلیم کا یہ منصوبہ حریت فکر، فرد و سماج کی خود مختاری ،باشندگان ملک کی سیاسی، شہری ، ثقافتی،سماجی اور معاشی آزادی نیز حق ادارہ سازی سمیت متعدد حقوق پر قدغن لگاتا ہے۔ہم حیران ہیں کہ اس قانون کی چولیں libertyیا آزادی کے ان اصولوں کے ساتھ کس طرح بٹھائی جاسکیں گیں جن پر جدید جمہوری نظام قائم ہوتا ہے؟

اس پس منظر میں آل انڈیا ایجوکیشنل موومنٹ نے، جس کے بانی صدر جناب سید حامد ، چانسلر جامعہ ہمدرد ہیں، اپنا تیسری سالانہ کانفرنس مارچ کی 17-18 تاریخ کو کلکتہ میں منعقد کی جس کا مرکزی موضوع ’حق تعلیم ‘ قرار پایا۔ کانفرنس کے مختلف اجلاسوں میں ’حق تعلیم ایکٹ‘، ’ریاستی مدرسہ بورڈ‘ اور ’مدرسہ تعلیم‘ اور مغربی بنگال میں تعلیمی منظر نامہ پرچشم کشا گفتگو ہوئی۔افتتاحی اجلاس کی صدارت مولانا سلمان الحسینی (استاد ندوة العلمائ)نے فرمائی۔ مولانا صدیق اللہ چودھری ، ریاستی صدر جمعیة علماءہند،مولانا نورالدین امیر حلقہ جماعت اسلامی ہند، ڈاکٹر ظفرالاسلام خان، صدر کل ہند مسلم مشاورت کے علاوہ ملیشیا سے جناب طارق اعظم، مکہ مکرمہ سے ابرار احمد اصلاحی اور امریکا سے ڈاکٹر خورشید ملک نے اپنے تجربات سے آگاہ کیا۔ خواتین کی نمائندگی محترمہ نورجہاں شکیل نے فرمائی جو ریاست میں مسلم خواتین کی بہبود کےلئے سرگرم ایک این جی او چلارہی ہیں۔اس طرح اس کانفرنس میں مختلف نقطہ ہائے نظر کی نمائندگی ہوئی۔حیرت انگیز طور پر دو دن تک حج ہاﺅس کا وسیع ہال سامعین سے بھرا رہا اور ہر اجلاس کے بعد ان کے تاثرات بھی سامنے آتے رہے۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے ملت اب اس مرحلے میں داخل ہوچکی ہے جسے تعلیم سے دلچسپی کا مرحلہ کہا جاسکتا ہے۔

بحیثیت مجموعی کانفرنس نے یہ بات محسوس کی ’حق تعلیم ایکٹ‘مستقبل میں تعلیم کوفروغ دینے کے بجائے اس کو کارپوریٹ سیکٹر کے حوالے کردینے کی ایک شاطرانہ چال ہے۔ یہ ایک ایسا قانون ہے جو ادارہ سازی کی حوصلہ شکنی کرتا ہے اور ایسے معیارات کو لازمی قراردیتا ہے جن کو صرف بڑے سرمایہ دار ہی پورا کرسکتے ہیں۔ ایسی صورت میں تعلیم کا فروغ کوئی مشن نہ رہ کر تجارت بن جائے گا اور تعلیم اتنی مہنگی ہوجائیگی کہ صرف خوشخال طبقات ہی اچھی تعلیم کی توقع کرسکیں گے۔ یہ بات بڑی ہی شدومد کے ساتھ محسوس کی گئی کہ اس ایکٹ کی زد صرف مدارس پر ہی نہیں پڑے گی بلکہ عام تعلیمی اداروں پر بھی پڑے گی جن کواس ایکٹ میںمقررہ عمارتوں، میدانوں اور دیگر لوازمات کے بلند و بالا معیارات پورا نہ کرنے کی صورت میں بھاری جرمانہ دینا ہوگا اور تالہ بندی کاسامنا کرنا ہوگا۔ تعلیمی طور سے پسماندہ ایک ترقی پذیر سماج میں بتدریج ارتقا کے اصول کر نظر انداز کرکے ایسی شقوں کو قانون میں شامل کیا جانا بعید از فہم ہے۔ پہلا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ ہر بچہ اسکول جائے اور دسرا ہدف یہ ہونا چاہئے بتدریج اسکول کے لوازمات کا معیار بہتر ہو اور اس کےلئے سرکار ضروری وسائل کے حصول میںمعاون بنے نہ کہ مخل۔

اس قانون میں اس طرح کے بیجا شقوں کی زد صرف مدارس پر ہی نہیں پڑے گی کہ اس معاملہ کو فرقہ وارانہ رنگ دیا جائے بلکہ سبھی پر پڑے گی اس لئے کانفرنس میںاس تجویز کی پرزور تائید ہوئی کہ اس مسئلہ کو فرقہ ورانہ بنانے کے بجائے مختلف فرقوں کی ان تمام این جی اوز کو جوڑاجانا چاہئے جو تعلیمی ادارے چلارہی ہیں اور تعلیم کے فروغ میں دلچسپی لیتی ہیں۔ یہ بات بھی تسلیم کی گئی کہ تعلیم کا فروغ ایک ارتقائی عمل ہے جو جبر کے بجائے ترغیب کے ذریعہ ہی فروغ پاسکتا ہے۔محسوس کیا گیا کہ ترغیب کا یہ سلسلہ چل رہا ہے جس کے نتیجہ میں ملک کے طول وعرض میں گزشتہ چند برسوں میں ہزار ہا اسکول اور کالج قائم ہوئے ہیں۔ حکومت کی ذمہ داری یہ ہے کہ ان اداروں کی حوصلہ افزائی کرے۔ ان کے تعلیمی معیار کو پیش نظر رکھے اور اسی کو پیمانہ بناکر ان کی مدد کرے، نہ کہ بلڈنگ، عمارت، کھیل کے میدانوں کو معیار بہانابناکر ان پر جرمانے کرے یا ان کو بند کرے۔

یہ بھی محسوس کیا گیا اس ایکٹ پر تفصیل سے غور کرنے کےلئے ایک ورکشاپ کا اہتمام کیا جائے جس میں مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے ماہرین قانون اور تعلیم کے شعبہ سے وابستہ رضاکاروں کو شرکت کی دعوت دی جائے۔ ایک ورکشاپ ’ریاستی مدرسہ بورڈس‘ پر بھی منعقد کرنے کی تجویز ہے۔ اس کو مقصد یہ مطالعہ کرنا ہے کہ مرکزی مدرسہ بورڈ کی تجویز اگر مفید ہوسکتی ہے تو کن شرائط کے ساتھ اور کس حد تک؟یہ بات اس ضمن میں زیر غور آئی کہ مدارس کی اسناد اگرچہ داخلوں کےلئے تو کچھ یونیورسٹیوں میں قابل تسلیم ہیں مگر ان کو دیگر مقاصد کےلئے سند کا وہ درجہ حاصل نہیں جو سی بی ایس سی یا ریاستی ایجوکیشن بورڈس کی اسناد کو حاصل ہے۔مرکزی مدرسہ بورڈ کے حق میں یہ دلیل دی گئی کہ تسلیم شدہ بورڈ کی اسناد کو بھی دیگر اداروں کی سند کی طرح جواز حاصل ہوگا ۔ ایک تجویز یہ بھی زیر غور ہے مدارس کو درپیش مسائل اور ان کے حل پر غور کرنے کرنے کےلئے ایک الگ ورکشاپ کی جائے جس میں مدارس کے اساتذہ و ذمہ داران سے استفادہ کیا جائے۔کانفرنس سمجھتی ہے کہ تعلیم کے فروغ کا کام اتنا بڑا اور ہمہ جہت ہے کہ اس کےلئے وسیع پیمانے پر غور و فکر اور ہم آہنگ تحریک کی ضرورت ہے۔(ختم)
Syed Mansoor Agha
About the Author: Syed Mansoor Agha Read More Articles by Syed Mansoor Agha: 226 Articles with 180654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.