یونیورسٹی…ایک چھوٹی سی کائنات
مگر شعور علم و فن کی سب سے ارفع اور آخری منزل، دنیا قدیم ہو یا
جدید،یونیورسٹی یا جامعہ سے معتبر،قابل عزّووقاراور علوم و فنون کی
پرورش،نمود اور فروغ و ارتقاء کا اس سے بڑا کوئی ادارہ نہیں ہوتا۔یونیورسٹی
ہی کسی تہذیب و تمدّن کی جائے پیدائش ہوتی ہے،اقوام کی اپنی عظمت ان کی
دانش و حکمت کی سرفرازی کی ہی مرہون منت ہوتی ہے اور وہ اپنی اسی صفت سے ہی
پہچانی جاتی ہیں۔اقوام کے سرداراورشاہوں کے شہنشاہ انہی یونیورسٹیوں کے
ارباب علم و حکمت کے قدموں میں سر رکھ کر تحصیل علم کو اپنا سرمایہ حیات
جانتے ہیں۔علوم فنون کی زندہ یونیورسٹیوں کی کھوکھ سے کلچر جنم لیتے
ہیں،بھولے بسرے گذشتہ کل کی دنیا میں سمیری یا مصری تہذیب کو قدامت کا درجہ
حاصل ہے،یہ بھی صاحبان علم و فن کے گہواروں سے اٹھیں، جب تلک ان تہذیبوں
اور اقوام کے افراد نے اپنے شاہان علم و حکمت کو سر آنکھوں پر بٹھایااس
تہذیب کا دنیا میں ڈنکا بجتا رہا،دیگر اقوام کورنش بجا لاتی رہیں اور جب
انہوں نے خدایان علم و دانش کے عزّو وقار میں کمی کے بارے میں سوچا یا
تخفیف کے گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوئے تو خدائے حقیقی نے ان کی اینٹ سے اینٹ
بجا دی اورآج وہ غزہ کے سٹوپوں اور قاہرہ کے اہراموں کی صورت میں صفحہ ہستی
سے حرف غلط کی طرح مٹنے کیلئے نوحہ کناں ہیں۔
ہندوستانی تہذیب کی تاریخ کی تاریخ اس وقت سے ہے جب ابھی تاریخ نہیں لکھی
جا رہی تھی، یہاں دراوڑ تھے، پھر ہندو کش کو عبور کر کے وسطی ایشیا سے آریا
آئے، جدید آریائوں نے یہاں کے قدیم گوجروں کے اتصال سے راجپوتوں کی بلکل
ایک نئی نسل کو پروان چڑھایامگر وہ علوم و فنون کی تحصیل کیلئے نالندہ،
وکرم سیلا، بنارس،اودانتاپوری ،ایودھیا اور ٹیکسلا کی جامعات کو نہیں
بھولے، ٹیکسلا کی بدھا یونیورسٹی میں داخلے کا میرٹ یہ تھا کہ چندر بنسی
اور سورج بنسی خاندانوں کے چشم و چراغ پانانی اور کوٹلیا چانکیہ جیسے
اساتذہ کے پاؤں دودھ سے دھوتے تھے، بدھا یونیورسٹی ایک زندہ جامعہ تھی جہاں
سے علم و فن کے چشمے پھوٹتے تھے، اس کا ایک کیمپس شاردہ آزاد کشمیر میں بھی
تھا جہاں کے کہن سالہ درودیوار سے آج بھی پے پی رس کے کاغذ برآمد ہوتے
ہیں،بدھا یونیورسٹی ٹیکسلا کی موجودہ سائٹ پر آج انجینئرنگ یونیورسٹی کی پر
شکوہ عمارت ایستادہ ہے۔بدھا یونیورسٹی نے ہندوستان کو پانانی اور کوٹلیا
چانکیہ جیسے مہا رشی عطا کئے جنہوں نے بدھ ممت کو بانکپن عطا کر کے عالمی
تہذیب بنا ڈالا جسے آج کی دنیا گندھارا تہذیب کے نام سے جانتی ہے،انہوں نے
چندر گپت بکرما جیت جیسا ہندوستان کو حکمران عطا کیا جس نے ہند کی تہذیبی و
تمدنی ایکتا کو وہ رفعتیں عطا کیں کہ جس تمدن نے بھی سوائے اسلام کے ہند کو
تاراج کرنے کی کوشش کی وہ اپنی اصلیت اور شناخت کھو کر ہندی تہذیب کا حصہ
بن گیا۔
سرزمین دجلہ و فرات کو سمیری، حطی، مصری، اسیری و فونیقی تہذیبوں نے عربی و
عبرانی قو میت کی شناخت دی،فارس بھی ہزاروں برسوں کی آتش پرستی کے بعد عجمی
تہذیب کا گہوارہ بن سکا،چین بھی ہزاروں برسوں بعد اس زندہ تہذیب کا امیں
بنا جو آج بھی ناقابل تسخیر ہے،دنیا میں سب سے پہلے قلم و قرطاس ایجاد کرنے
والی چینی تہذیب و ملت میں آج بھی کنفیوشس کے افکار عالیہ بائبل جیسی تقدیس
رکھتے ہیں۔
تہذیب اسلامی کا ظہور اوّلیں حرا کے خلوت نگر سے ہوا، اس کی اساس ہی "اقراء
ڈاکٹرائن" پر رکھی گئی ،اس تہذیب کے تمدنی، علمی و فکری جہاں بینی و جہاں
بانی ارتقاء کا آغاز خطبہ حجة الوداع سے ہوا،سینا و فاراں کی وہ رفعتیں جن
کی لن ترانیاں اور ضوفشانیاں کب کی ظلمتوں میں بدل چکیں تھیں خدا کے پیغام
آخریں کے پروانوں نے پھر ان شمعوں کو ضیاء پاش کیااور ان کو زندگی کی حرارت
بخشی،یہ اسلامی تہذیب صفہ کے چوباروں سے اٹھی اور کرہ ارض پر پھیل گئی
کیونکہ عروق تہذیب اسلامی میں تازہ لہو امّ القریٰ،جامعات بغدادوبصرہ،
جامعات قرطبہ، غرناطہ و اشبیلیہ، جامعة الفروبین مراکش و جامعہ الازہر سے
آرہا تھا۔جب قرآن جیسا نصاب اور مرسل آخریں ۖ جیسا معلم ہوتو پھرورفعنا لک
ذکرک کے حامل اسلامی تہذیب و تمدن کو پھیلے پھولنے سے کون روک سکتا ہے۔
آکسفورڈ اور کیمبرج کی بارھویں صدی میں قائم ہونے والی جامعات کے بانیان
اندلس کی اسلامی یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل ہی تھے کیونکہ روم اور اس کا
کلیسا بانجھ ہو چکے تھے،انہوں نے دانش اسلامی،افکار یونانی اور تہذیب
لاطینی کو تمدن یورپ میں ڈھالنے کیلئے اکسفورڈ اور کیمبرج کی اٹھان کچھ اس
لگن اورخلوص سے کی کہ آج کی یورپی تہذیب انہی ہر دو جامعات کی کھوکھ کی
پیداوار ہے،نیلگوں افلاک کے دیکھتے ہی دیکھتے یورپی تہذیب دنیا پر چھا
گئی،اس کے بطن سے امریکی تہذیب نکلی اور آج یہ امریکی تہذیب اپنی تمام تر
قہر سامانیوں اور اچھی بری اقدار سمیت دنیا کی ہر زبان،کلچر، مذہب،سماجی و
تہذیبی اقدار،انفرادی خصائل و عادات،رویوں ماحول علم اور روزمرہ کے معمولات
پر اثر انداز ہی نہیں بلکہ انہیں تبدیل بھی کر رہی ہے،مگر اس تہذیب کی یہ
قوت،جارحیت اور عالمگیریت امریکی سرزمین پر موجود ان جامعات کی مرہون منت
ہے جہاں سکالرز آزادانہ ماحول میںتمام تر ٹیکنالوجی کی معاونت اور سہولیات
کے ساتھ کائنات کی وسیع ترین پہنائیوں،زمین کے گہرے اور تاریک تر
گوشوں،روشنی سے تیز عناصراور وائرس سے بھی باریک تر موجودات میں تاک جھانک
کر رہے ہیں، خدائے واحد و شاہد کے قانون عروج و زوال کے تحت دنیا کی
امامت،سیاست و سیادت اور معیشت اسی نئی دنیا کے ان نئے انسانوں کے ہاتھوں
میں ہے،یورپی اور امریکی تہذیب کی چکا چوند کرنیں اقوام عالم کی آنکھوں کو
خیرہ کر رہی ہیں…لمحہ فکریہ صرف یہ ہے کہ عالم اسلام سمیت پاکستان اس علمی،
فکری ارتقائی تہذیبی و تمدنی مقابلہ میں کہاں کھڑا ہے…ایک وہ جو الحاد و
تثلیث کے فرزند،مگر ان کے انفرادی قول و فعل کی سچائی، دیانت و امانت داری
اور علمی رفعتوں پر ہر دوعالم نازاں…ایک ہم جنہیں جعلی ڈگریوں کے حامل
حکمران اور انکے کارندے علوم و فنون کے بجائے بدبودار سیاست، وقت کی بربادی
کیلئے کرکٹ کا مجنوں بنا رہے ہیں،ہماری بانجھ جامعات علم مستعار کے بل بوتے
پر صرف روزی روٹی کمانے اور ٹائم پاس کرنے کے قابل بنا رہی ہیں،کوئی جوہر
قابل اول پیدا ہی نہیں ہوتا اور اگر کائنات کا مالک کبھی کبھی کرم کر ہی دے
تو ہم ارفع کریم جیسے ہیرے کی قدر نہیں جانتے، خدا سزا کے طور پر پھر وہ
انعام ہم سے چھین لیتا ہے، اور پھر بھی ہم گفتار و کردار کے علی الرّغم
ہادی دوعالمۖ کے امتی ہونے کے دعویدار…؟ تاریخ للکار للکار کر پکار رہی ہے
کہ
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا |