باﺅلا کتا ۔۔ ایک خوفناک بیماری
کا حامل جانور ہے اس کے مریض کو پانی سے خوف آنے لگتا ہے لیکن پیاس بے پناہ
حد تک بڑھ جاتی ہے اور اسی میں تڑپ تڑپ کر اس کی موت واقع ہوتی ہے۔ عموما
باﺅلے کتے کے کاٹے کا تو علاج کروالیا جاتا ہے لیکن صحیح و سالم کتے کے
کاٹے کا علاج نہیں کرایا جاتا جو ایک خطرناک بات ہے ،اس لئے کہ کتا بیمار
ہو یا نہ ہو اس میں اس بیماری کا خطرہ ضرور موجود رہتا ہے کئی سال پہلے باﺅلے
کتے کے کاٹے جانے پر 14 انجکشن لگوانا پڑتے تھے اور پتہ لگ جاتا تھا کہ
انجکشن کسے کہتے ہیں۔ اب صورتحال بہتر ہوگئی ہے اور 6 ٹیکوں پر اکتفاءکیا
جاتا ہے ۔ لیکن خوف اپنی جگہ برقرار ہے۔
باﺅلے کتے کے کاٹے پر دم بھی کروایا جاتا ہے لیکن اس کے ساتھ تین ماہ کی
پرہیز ،جی ہاں سخت قسم کی پرہیز لازم ہوتی ہے جس میں گوشت وغیرہ کی مکمل
ممانعت ہوتی ہے ، ٹیکے لگوانے والے لوگ بھی اگر پرہیز کر لیں تو بہتر ہوتا
ہے اس لئے کہ ۔۔۔لاکھ دوا ایک پرہیز !
کتا اور وہ بھی باﺅلا کتنا خطرناک ہوتا ہے اے کاش کہ ہم اس ضمن میں رسالت
مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو مد نظر رکھیں جنہوں نے گھروں میں کتا
رکھنے سے منع فرمایا ۔ اس زمانے میں تو شاید اسے حکم رسالت سمجھ کر قبول
کیا گیا ہو گالیکن اب اس کی حکمتیں واضح ہو تی جا رہی ہیں رسول اکرم ﷺ کی
وحی ترجمان اور دور رس نگاہیں کتے کے اندر چھپے جراثیم کو دیکھ رہی تھیں اس
لئے انہوں نے گھروں میں کتا رکھنے سے منع فرمایا ۔ البتہ کھیت وغیرہ کی
حفاظت کے لئے کتا رکھنے کی اجازت دی گئی ہے لیکن ہر طرح کی احتیاطی تدابیر
کے ساتھ اور وہ تدابیر یہ ہیں کہ کتے کو کھلا گھومنے کی ااجازت نہ دی جائے
اور موجودہ حالات میں اسے حفاظتی ٹیکے لگوائے جائیں۔
مختلف علاقوں سے باﺅلے کتے کے کاٹنے کی خبریں آتی ہیں تو دل دہل جاتا ہے اس
لئے کہ راقم الحروف کم از کم دو افراد کو سسک سسک کر دنیا سے رخصت ہوتے
دیکھ چکا ہے انکی موت کتنی اذیت ناک تھی اس کا تصور کرتے ہوئے بھی رونگٹے
کھڑے ہو جاتے ہیں۔آج کل آزاد کشمیر کے ایک علاقے غربی باغ خصوصا چمن کوٹ
اور گرد و نواح سے باﺅلے کتوں کے پھیلنے کی خبریں مسلسل آرہی ہیں۔اور خوف
میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔چمن کوٹ ضلع باغ کا ایک گنجان آباد علاقہ ہے جو
اسلام آباد سے 150 کلو میٹر ، مظفر آباد سے 50 کلو میٹر اور باغ سے 60 کلو
میٹر کے فاصلے پر واقع ہے اس کے ساتھ ہل سرنگ،مناسہ، ساہلیاں ، ملا بگلہ ،چمیاٹی،
سنگھڑ اور بٹھارہ وغیرہ کے گاﺅں ہیں ۔ اس علاقے کی مجموعی آبادی 50 ہزار
نفوس سے کم نہ ہوگی۔ آج کل اس علاقے کے لوگ باﺅلے کتوں کے خوف میں
مبتلاءہیں چمن کوٹ کے مرکزی بازار میں باﺅلے کتوں نے کئی افراد کو زخمی کیا
ہے اور کئی جانور الگ سے متاثر ہوئے ہیں یہی معاملہ دیگر علاقوں کا بھی ہے
جن کا ذکر کیا گیا ہے۔
لوگ مجبوری کے عالم میں حکومت کی طرف دیکھ رہے ہیں لیکن حکومت ہے کہ ٹس سے
مس نہیں ہوتی بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا کہ وہ اس خطرے کا نوٹس
لینا بھی گوارا نہیں کرتی ۔ علاقے کے لوگ حکومت کے ذمہ داران سے بے شمار
اپیلیں کر چکے ہیں لیکن اثر نہیں ہوا۔ وجہ یہ ہے کہ حکومتی اہل کار گاڑیوں
میں گھومتے ہیں جن کے شیشے انکی سوچ کے مطابق کتوںکو حملہ کرنے سے روکے
رکھتے ہیں خطرہ تو پیدل چلنے والے لوگوں کو ہو سکتا ہے۔
قبل اس کے کہ دیر ہو جائے کئی معصوم لوگ اس بیماری کے ہاتھوں زندگی کی بازی
ہا ربیٹھیں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اپنی ضد چھوڑے اور دھیر کوٹ کی
انتظامیہ کو چمن کوٹ اور گرد و نواح میں موجود آوارہ بلکہ باﺅلے کتوں کے
خلاف مہم چلانے کی ہدایت کرے۔ آزاد کشمیر کے صدر یعقوب خان عوامی شخصیت ہیں
وہ باﺅلے کتوں کو اچھی طرح جانتے ہیں شاید وزیر اعظم چوہدری عبد المجید بھی
کسی نہ کسی طرح باﺅلے کتوں کے خطرے کو سمجھتے ہوں گے انہیں چاہیے کہ وہ
اپنے وزیر صحت (اگر کوئی ہے تو) کو ہدایت کریں کہ وہ چمن کوٹ اور گرد و
نواح میں ہر اس کتے کو مروا دیں، جس کا کوئی مالک نہیں۔ میری معلومات کے
مطابق صرف چمن کوٹ کے بازار اور اس سے ملحقہ باغات میں کم از کم ایک سو
آوارہ کتے موجود ہیں ۔ کتوں کو مروانے کے بعد انہیںٹھکانے لگانا بھی ضرور ی
ہے ورنہ پورا علاقہ تعفن میں ڈوب جائے گا جس سے مزید خطرناک بیماریاں جنم
لے سکتے ہیں۔
یہ مراسلہ کسی حکومتی شخصیت کے خلاف نہیں ، اس کا مقصد ایک اہم مسئلے کی
جانب توجہ دلانا ہے ، ایک ایسا مسئلہ جس سے اغماض برتا جا رہا ہے۔ علاقے کے
رکن اسمبلی سردار عتیق احمد خان کو بھی چاہیے کہ وہ خود اس معاملے کو
اٹھائیں۔ وہ سابق وزیر اعظم بھی رہ چکے ہیں ۔ حکومت میں ان کا کوئی نہ کوئی
واقف ضرور ہو گا ۔ اسے تاکید کر دیں شاید کہ یہ معاملہ حل ہو جائے ۔ ویسے
لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ یہ حکومت بھی عتیق صاحب ہی کی ہے یا وہ اس کے اتحادی
ہیں ۔ یہ علاقہ سردار عتیق صاحب کا آبائی حلقہ ہے اس کے لوگوں کو باﺅلے
کتوں کے خوف سے نجات دلائی جائے تو اتحاد مزید مستحکم ہو گا۔ |